حجم میں چھوٹے مگر کردار کے قد کاٹھ میں بڑے خلیجی ملک قطر کے قائدانہ کردار سے اسرائیل پریشان ہوگیا ہے۔ دوحہ کو کچھ عرصے سے عالمی سطح کے بڑے تنازعات کے حل میں جو نمایاں سفارتی کامیابیاں ملی ہیں اس نے دوحہ کو جنیوا اور کیمپ ڈیوڈ کی صف میں لاکر کھڑا کردیا ہے۔ عبرانی میڈیا میں غزہ میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے کو بہت اہمیت کے ساتھ دیکھا جارہاہے۔ اسرائیلی پولیٹیکل ماہرین اور مذاکرات کار اداروں میں دوحہ کے اس قائدانہ کردار کو گہری تشویش کے ساتھ دیکھا جارہا ہے۔ اسرائیلی جریدے یروشلم پوسٹ نے کھلے لفظوں اس تشویش سے پردہ اٹھایا ہے۔ عبرانی جریدے نے لکھا ہے کہ قطر نے جنگ معاہدے کے فوری بعد جس طرح سے غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل اور غزہ کی تعمیر نو کا کام شروع کردیا ہے اس نے دوحہ کو عالمی سطح پر ایک بڑے کھلاڑی کے طور پر قانونی حیثیت دے دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق قطر نے جنگ بندی معاہدہ ہوتے ہی وقت ضائع کئے بغیر غزہ کو انسانی امداد کی فراہمی کا ائیربرج بنا دیا۔ انتہائی قلیل وقت کے دوران قطر غزہ کو 12.5 ملین لیٹر تیل فراہم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ جریدے کے مطابق اگرچہ قطر کی وساطت سے ہونے والے جنگ بندی اور قیدی تبادلے کے معاہدے میں اسرائیل کا بھی فائدہ ہوا ہے، تاہم اس معاہدے کو ممکن بنانے سے قطر کو جو فائدہ ملاہے وہ غیرمعمولی ہے۔ قطر کو اس معاہدے سے امریکا کی قربت ملی ہے اور واشنگٹن کے ساتھ دوحہ کے تعلقات بہت مضبوط ہوئے ہیں۔ اسرائیل قطر کی اس کامیابی کے اثرات کو کم کرنے میں مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کررہا ہے۔
قطر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری سے قبل ہی ایسا معاہدہ کروایا جس میں صدر ٹرمپ کی گہری دلچسپی تھی، جس سے قطر کو نہ صرف مشرقِ وسطیٰ کی سطح پر مقبولیت ملی اور مشرقِ وسطیٰ کے منظر نامے پر نمایاں ہوگیا بلکہ امریکی اداروں کی نظر میں بھی اپنی قابلیت اور اہلیت منوانے میں کامیاب ہوگیا۔ بالخصوص اس معاہدے میں غزہ کی تعمیر نو کے متبادل کوئی منصوبہ نہیں ہے اور یہ تل ابیب کے لیے باعث تشویش ہے۔ اسرائیلی رائٹرز نے لکھاہے کہ اسرائیل کو اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ سوچنا ہوگا۔ اسرائیل کو اپنے عملی مفادات اور عملی تعاون کے لیے قطر کے ساتھ تعلقات کے قیام اور اپنے سیکورٹی سلامتی کے مفادات کے درمیان توازن پیدا کرنا ہوگا۔ اسرائیلی جریدے نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی برائے مشرق وسطیٰ اسٹیف ویٹکوف کے قطر کے ساتھ کاروباری مفادات بھی وابستہ ہیں جس کے باعث قطر کے اثرورسوخ میں اضافے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔عبرانی جریدے نے لکھاہے کہ حالیہ جنگ بندی معاہدے میں قطر کو ملنے والی مقبولیت اور اہمیت کا راستہ روکنا یا اسے سفارتی سطح پر تنہا کرنا اسرائیل کے لیے ممکن نہیں ہے۔ جس کے پیش نظر اسرائیل کو قطر کے بڑھتے ہوئے اثرات کا راستہ روکنے کے لیے واشنگٹن کے ساتھ مضبوط شراکت اور پیشگی رابطے قائم کرنے ہوں گے، تاکہ یہ جان سکے کہ قطر کے اثرات کہاں کہاں اسرائیل کے علاقائی مفادات کے لیے نقصان دہ ثابت ہورہے ہیں۔
بلومبرگ نے بھی قطر کے اس سفارتی کردار پر بات کرتے ہوئے کہاہے کہ قطر اس وقت عالمی سطح پر دس تنازعات میں ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے تنازعات کا حل اور قیدیوں کے تبادلے میں پیش رفت کے لیے کوشاں ہے۔ ان میں سے غزہ کے بعد افغانستان اور امریکا کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہے، جس میں قطر افغانستان میں قید امریکی باشندوں کے بدلے افغان شہریوں کو رہائی دلا چکاہے۔ قطر افغانستان میں داعش کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو بھی کاؤنٹر کررہا ہے۔
خیال رہے کہ قطر گزشتہ 17 برس کے دوران عالمی سطح کے 15 اہم معاملات میں ثالثی کرچکا ہے۔ 2007ء میں لیبیا میں بچوں کو ایڈز کی ویکسین لگانے کے جرم میں گرفتار بلغاریہ نرسوں کی رہائی کا معاہدہ قطر کی اہم کامیابی تھی۔ 2008ء میں لبنانی گروپوں کے درمیان مصالحت قطر کی اہم سفارتی کامیابی تھی۔ 2008ء میں یمن میں حوثی باغیوں اور اس وقت کی یمنی حکومت کے درمیان مصالحت بھی قطر کا کارنامہ تھا۔ حماس کے درمیان 2009ئ، 12ئ، 14ء اور 2021ء میں قطر نے مرکزی ثالث کا کردار ادا کیا۔ 2011ء میں دارفور، اسی سال جیبوٹی اور اریٹیریا کے درمیان مصالحت کروائی۔ 2014ء میں شام میں عیسائی راہبات کی النصرہ فرنٹ (موجودہ شامی حکمران جماعت) سے رہائی بھی قطر ہی کا کارنامہ تھا۔ 2014ء میں افغان طالبان اور امریکا کے درمیان بھی قیدی تبادلے میں قطر نے مرکزی کردار ادا کیا۔ 2015ء میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات بھی قطر نے کروائے جبکہ 2019ء میں امریکا کے ساتھ افغان طالبان کے معاہدے کو دوحہ میں آخری شکل تک رسائی قطر کا وہ تابناک سفارتی کردار ہے جس نے اسے عالمی سطح پر ایک کامیاب اور مؤثر ثالث اور مذاکرات کار کی حیثیت سے متعارف کروا دیا ہے۔
