بھارت میں جمہوریت قائم ہوئے پورے 75سال ہوگئے۔ اتنا عرصہ کم نہیں ہوتا ہے کسی بھی ملک میں جمہوری نظام کے استحکام کے لیے لیکن آج ہم محاسبہ کریں تو ہمیں بڑی مایوسیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جمہوریت کا بنیادی تقاضہ اور مفہوم یہ ہے کہ جمہوری ملک کے تمام باشندوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں اور ملک کے عوام الناس کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے لیکن افسوس کہ ادھر چند برسوں میں کئی ممالک میں برسر اقتدار حکومت جمہوریت کی پامالی میں مصروف ہے۔ جس کے باعث ملک کے جمہوری اقدار پسند، سیکولر اور امن پسند لوگوں میں تشویش لاحق ہے۔ دنیا بھر میں عوام کی طرف سے جمہوری حکومتوں پر عدم اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ حکومتیں ان کی بنیادی جمہوری ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔
ہم ہندوستانیوں کو اپنے ملک کی جمہوریت اور جمہوری نظام اور اس کی قدروں پر ناز رہا ہے۔ آج بھی یوم جمہوریہ کے موقع پر اس بات کا اعتراف کرنے میں یقینی طور پر ہمیں یہ فخر محسوس ہوتا ہے کہ ہم دنیا کے ایک بڑے جمہوری ملک کے شہری ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے ملک کی شاندار اور مثالی جمہوریت، گزشتہ کچھ برسوں سے مسلسل پامال ہو رہی ہے۔ ملک کی جمہوریت کو یہاں کی فرقہ پرست طاقتیں برباد کرنے کے در پے ہیں جس کے باعث یہاں کے سیکولر اور امن پسند لوگ تشویش کا اظہار کرنا حق بجانب ہے۔ آپ اندازہ لگایئے کہ ہندوستان کے بیس کروڑ مسلمانوں کو اس قابل بھی نہیں سمجھا جاتا کہ وفاقی کابینہ میں کوئی ایک برائے نام سہی، قلمدان کسی مسلمان رکن کو دیا جائے۔ ماضی کی ہر حکومت میں وفاقی کابینہ میں لازمی نمایندگی کے علاوہ صدر یا کم از کم نائب صدر کا عہدہ مسلمانوں کو دیا جاتا تھا۔ حالیہ دس برسوں کے دوران بڑے آئینی عہدوں میں مسلمانوں کی نمایندگی ہی ختم کر دی گئی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس پر دنیا میں اقلیتوں کے حقوق کا واویلا مچانے والے ممالک اور ادارے بھی مہر بلب ہیں۔
بات صرف جمہوری اداروں میں نمایندگی نہ دینے تک محدود نہیں ہے۔ اب تو بھارت کا سیکولر آئین ہی تبدیل کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب سے مرکز میں آر ایس ایس کی سیاسی تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی بر سراقتدار آئی ہے، اسی وقت سے بہت ساری تشویش کے ساتھ ساتھ اس تشویش کا بھی اظہار کیا جا رہا تھا کہ یہ حکومت جس منصوبہ بند اور منظم طور پر اقتدار پر قابض ہوئی ہے، وہ ضرور اپنے خاص مقاصد کو پورا کرنے کے لیے ملک کے جمہورت پر مبنی آئین میں تبدیلی کرے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ پہلے لوگ دبی دبی زبان سے اس خدشے کا اظہار کیا کر رہے تھے، لیکن آر ایس ایس نے اپنے کیڈر کے رگ وپئے میں اس طرح آئین کے خلاف زہر بھر ا ہے کہ کچھ لوگ ایسا سمجھنے پر مجبور ہیں کہ اس ملک کو ہندو راشٹر بننے یا بنانے میں بابا صاحب بھیم راؤ امبیدکرکی رہنمائی میں تیار اور نافذ کیا جانے والا آئین ہی رکاوٹ بن رہا ہے، اس لیے جتنا جلد ہو سکے، اسے تبدیل کر کے اپنے موافق بنایا جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کے جو چار اہم ستون ہیں، ان چاروں ستون پر موجودہ حکومت کی گرفت مضبوط ہو چکی ہے اور بلاشبہ ان کی گرفت مضبوط ہونے سے جمہوریت کمزور پڑ گئی ہے۔ حکومت نے بہت چالاکی سے پہلے جمہوریت کے بہت اہم ستوں رابطہ عامّہ کو اپنا ہمنوا بنانے کیلئے ملک کے میڈیا کو دولت کے انبار پر بٹھا کر ان کی صحافتی قوت گویائی کو سلب کر لیا۔ ان کی دولت کے آگے میڈیا اپنے فرائض بھول گیا اور یہ بھی بھول گیا کہ صحافت تجارت نہیں ہوتی بلکہ عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ عدلیہ کو یرغمال بنانے کی کوششوں پر دبی دبی زبان میں لوگ اظہار کر رہے تھے، لیکن سپریم کورٹ کے چار معزز ججوں نے عوام کے سامنے آ کر جس طرح کی باتیں، بہت ہی دکھی من کے ساتھ رکھی تھیں، ان باتوں نے تو ایک طوفان ہی اٹھا دیا تھا۔ اس وقت بھی موجودہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ملک میں بڑھتی فرقہ پرستی سے پریشان ہوکر آئے دن ملک کے آئین اور جمہوریت کی پامالی پر اظہار افسوس کر رہے ہیں۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے تو ملک کی آزادی ہی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور یہ کہنے میں ذرا بھی ہچک محسوس نہیں کی کہ ملک کو 1947ء میں آزادی نہیں ملی تھی بلکہ جب رام مندر تعمیر ہوا تب ملک کو حقیقی معنوں میں آزادی ملی۔ یعنی اب یہی کہا جا سکتا ہے کہ اپنے عزم، ارادے، ایجنڈا اور خواب کو پورا کرنے کیلئے سنگھ کے لوگ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ملک کے اندر جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ بہرحال ملک کی جمہوریت اور سا لمیت کیلئے مناسب نہیں ہے۔ جس طرح معصوم لوگوں کے ذہن کو پراگندہ کیا جا رہا ہے، وہ ملک کے مستقبل کے راستے میں کانٹے بو رہے ہیں۔ ”دھرم سنسد ” کے غیر انسانی اور غیر آئینی بیانات نے پوری دنیا کو تشویش میں مبتلاکر دیا ہے۔
ملک کی سا لمیت اور جمہوریت مخالف ایسے ایجنڈے کو نافذ کرنے کیلئے اور ہندو مذہب کو بدنام کرنے کیلئے کیسے کیسے ہتھکنڈے اپنائے جا رہے ہیں۔ برسہا برس سے چلی آ رہی یہاں کی گنگا جمنی تہذیب و تمدن جو ملک کی شان اور پہچان ہے، اسے ختم کرنے کی منظم اور منصوبہ بند کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ملک کے حالات کو بگاڑنے والوں کے سامنے ایجنڈا، ہندوتوا کا ہے، جس کے لئے وہ ملک کے آئین کی تبدیلی اور جمہوریت کو ختم کرنے کے خواہاں ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسی صورتحال کی شکایت کس سے کی جائے۔ تم ہی قاتل، تم ہی منصف ٹھہرے؟ ایسے تشویشناک حالات سے پریشان ملک کے تحفظ اور جمہوری اقدار کی بقا کیلئے بڑی تعداد میں ملک کے سیکولر لوگ سامنے آ رہے ہیں، جن کی فہرست بلا شبہ لمبی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان پر بھی ظلم و سفاکیت کے پہار توڑے جا رہے ہیں، انھیں غدار وطن کہا جا رہا ہے، انھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا جا رہا ہے، ان کی جائیداد کو ضبط کیا جا رہا ہے۔ پھر بھی ملک کے آئین اور اس کی جمہوریت کو فرقہ پرستوں سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جاری ہے۔ ایسے تمام سیکولر، امن پسند اور جمہوری اقدار پر یقین رکھنے والوں کی کوششوں کو جمہوری ملک کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
