مدارس ایکٹ صوبوں میں لٹک گیا! (عرفان احمد عمرانی)

دینی مدارس رجسٹریشن قانون اب صوبوں میں لٹک گیا، مدارس رجسٹر یشن کے لیے بل کی پارلیمنٹ سے منظوری اور ایوان صدر سے بل پر دستخط نہ ہونے پر ملک میں گزشتہ ماہ دینی حلقے سراپا احتجاج رہے، جمعیت علماء اسلام کی اسلام آباد کی طرف رخ کرنے کی دھمکی پر صدر مملکت نے مدارس ایکٹ آف پارلیمنٹ پر دستخط کیے، اس طرح صدر مملکت سے منظوری کے بعد قانون عملاً نافذ ہو چکا مگر اسے صوبائی معاملہ قرار دے کر صوبائی حکومتوں کو بھیج دیا گیا، صوبائی اسمبلیاں مدارس بل کی منظوری دینے کی پابند ہیں، مگر وفاق اور ایوان صدر سے منظور شدہ مدارس ایکٹ کی صوبائی منظوری کے لیے کوئی توجہ نہیں دی جا رہی، یہ معاملہ التوا کا شکار ہے۔جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولا فضل الرحمان نے 26ویں آئینی ترامیم کے ساتھ مدارس بل بھی پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر منظور کرایا، اعتراض ختم کر کے دوبارہ منظوری حاصل کی گئی، قانون کے نفاذ کے لیے صدر کے دستخط ضروری تھے، اس پارلیمنٹ آف ایکٹ ایوان صدر پہنچا تو صدر آصف زرداری نے پھر مسترد کر کے واپس بھجوا دیا،صدر نے مدارس ایکٹ کے نفاذ پر عالمی پابندیاں لگنے کا خدشہ ظاہر کیا تھا، اس پر خوب سیاست اور بحث و مباحثہ ہوا، مدارس کے نئے 10بورڈز وزارت تعلیم سے ہی منسلک رہنے کی حمایت میں تھے، جبکہ وفاق المدارس العربیہ سمیت پانچ بورڈز نے سوسائٹی ایکٹ کے تحت مدارس کی رجسٹریشن کرانے کے مطالبے کے ساتھ نئے قانون کو نافذ کرنے کا مطالبہ کیا، یوں دونوں گروپوں میں لفظی جنگ شروع ہو گئی، مجمع علوم الاسلامیہ کے صدر مفتی عبد الرحیم کی قیادت میں 10نئے بورڈز کے سربراہوں نے وزارت تعلیم کے ساتھ رجسٹریشن کے حوالے سے مضبوط دلائل دیے جبکہ وفاق المدارس کی قیادت سوسائٹی ایکٹ کے تحت مدارس کی رجسٹریشن کے نئے قانون کی حمایت میں ڈٹ گئی،دونوں گروپوں کے پاس کئی دلائل تھے جس پر حکومت نے نیا راستہ نکالا کہ وزارت تعلیم کے ساتھ پھر رجسٹریشن کا طریقہ بھی برقرار رکھا اور سوسائٹی ایکٹ کے تحت وزارت صنعت سے مدارس رجسٹریشن کرانے والوں کی خواہش کے مطابق صدر مملکت نے بل پر دستخط کردئیے جس پر وفاق کی سطح پر قانون بن گیا مگر صوبائی اسمبلیوں سے منظور ی کی شرط رکھ دی گئی، یوں قانون ایک بار پھر پیچیدگی اختیار کر گیا۔
جنوری بھی اختتام پذیر ہے، ایک ماہ گزر جانے کے باوجود صوبائی اسمبلیوں میں مدارس قانون پیش ہوا نہ ہی اس قانون بارے کوئی دلچسپی ہے، نہ کوئی پیشرفت۔ صدر کی جانب سے قانون صوبوں کے پاس بھیجنے کے بعد پنجاب اور بلوچستان اسمبلیوں کے اجلاس ہوئے مگر مدارس قانون پیش نہیں کیا گیا، ارباب وفاق المدارس نے ایک ماہ تک انتظار کیا مگر مدارس قانون کو زیرالتوا رکھنے پر وفاقی حکومت سے مدارس قانون کو صوبائی اسمبلیوں سے بھی بل پاس کرانے اور منظور کرانے کے مطالبہ کیا اور کہا کہ دینی مدارس سرکاری مداخلت تسلیم نہیں کریں گے، وفاق المدارس کے لاہور میں منعقدہ اجلاس میں ملک بھر سے علماء کرام نے شرکت کی اور مفتی تقی عثمانی صاحب اور مولانا محمد حنیف جالندھری صاحب کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا اور مدارس ایکٹ کو نئی پیچیدگی کی زد میں لانے پر سخت احتجاج کیا، اس موقع پر وفاق المدارس قیادت نے ایک بار پھر مدارس کی آزادی و خود مختاری پر آنچ نہ آ نے دینے کے عزم کا اظہار کیا، صوبائی سطح پر مدارس ایکٹ کے التوا پر اہل مدارس مضطرب ہیں،وفاق المدارس العربیہ نے اہل مدارس کو مطمئن کرنے، مدارس رجسٹریشن قانون کو منظور کرانے کے لیے جدوجہد کا یقین دلایا ہے۔
سوال یہ ہے کہ تمام ا عتراضات دور ہونے کے بعد مدارس ایکٹ صدر مملکت کے دستخط ہونے پر صوبوں کو بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی، دیگر قوانین بلوں پر دستخط ہوں یا نہ ہو 15روز گزر جانے کے بعد قانون خود بخود نافذ ہو جاتا ہے، سابق صدر عارف علوی کے دور میں ایوان صدر سے دستخط نہ ہونے کے باوجود قوانین نافذ اور عمل درآمد شروع ہوا تو اب صدر مملکت نے مدارس ایکٹ پر دستخط کر دیے تو پھر صوبوں کو بھیجنا سمجھ سے بالاتر ہے، اگر قانون مدارس قانون بھیجنا ہی تھا تو صدر مملکت سندھ بلوچستان کے اپنی پارٹی کے وزراعلیٰ کو قانون منظور کرانے کی ہدایت کرتے، وزیراعظم شہباز شریف پنجاب کی اپنی بھتیجی وزیراعلیٰ مریم نواز کو قانون منظور کرانے اور نافذ کرانے کا حکم دیتے، مگر ایسا نہیں ہوا اور صدر مملکت، وزیراعظم، وزیر قانون، وزیر داخلہ نے مدارس قانون پر خاموشی اختیار کر لی، مجمع العلوم اسلامیہ سے ملحق مدارس کے رجسٹریشن جاری ہے جبکہ وفاق المدارس العربیہ سے منسلک مدارس کی رجسٹریشن اور بینک اکاؤنٹس کی بحالی نہ ہو سکی، یہ صورتحال مدارس کے لیے کسی بحران سے کم نہیں، حکومت مدارس رجسٹریشن صوبائی اسمبلیوں سے منظور کرکے اہل مدارس کے لیے آسانی پیدا کرے۔