اطلاعات کے مطابق افغان سرحد سے بلوچستان کے علاقے ژوب کی حدود میں داخل ہونے دہشت گردوں کے ایک گروہ کو ملک کے محافظ دستوں نے مقابلے کے بعد ہلاک کردیاہے،ہلاک افراد کے پاس خاصی مقدار میں اسلحہ موجود تھا ،اس کامیابی پر اعلیٰ عسکری حکام کی جانب سے محافظ دستوں کی داد و تحسین کی گئی ہے کیوں کہ ہلاک ہونے والے حملہ آور ملک میں داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتے تو کافی نقصانات کا باعث بن سکتے تھے۔
یاد رہے کہ دو روز قبل ہی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں افغانستان میں قیام ِ امن سے متعلق پاکستان کی نیک توقعات کا اظہار کرتے ہوئے وضاحت کی گئی تھی کہ پاکستان نہ تو داعش جیسے کسی گروہ کی پشت پناہی کررہا ہے اور نہ ہی وہ افغانستان میں کسی مداخلت کا مرتکب ہورہا ہے،وہ صرف امن کا خواہاں ہے اور افغان حکومت سے پاکستان میں دراندازی رکوانے اور فتنۂ خوارج کی سرپرستی ترک کردینے کا مطالبہ کررہا ہے،بظاہر پاکستان کی اس وضاحت پر سرحد پار کوئی توجہ نہیں دی گئی، اسی لیے محض ایک روز بعد خارجی دہشت گردوں نے در اندازی کی کوشش کی اور و ہ انجام سے بھی دوچار ہوئے۔ افغان سرحدکی جانب سے ملک میں دراندازی کی مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں۔ روز مرہ بنیادوں پر پیش آنے والے واقعات دراصل اس بات کی علامت ہیں کہ پاکستان کے خلاف سرحد پا ر نفرت و دشمنی اور بغض و عداوت کا کیسا لاوا ابل رہا ہے اور یہ سب کچھ کرنے والے وہی لوگ ہیں جن کی تیسری نسل بھی پاکستان ہی کی حدود میں جوان ہو رہی ہے ، احسان فراموشی کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال دی جاسکتی ہے؟ یہ درست ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کسی موقع پر بھی جتانا نہیں چاہیے تاہم افغان مہاجرین کو پناہ دینے کا معاملہ پاکستان کیلئے کوئی اچھا فیصلہ ثابت نہیں ہوا۔ افغانوں کی جنگیں پاکستان کی حدود میں داخل ہوگئیں اور ملک کو اس کا زبردست خمیازہ بھگتنا پڑا۔
آخر کار سیاسی و عسکری حکام نے یہ فیصلہ کرلیا کہ افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی کوششوں کے باوجود اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا اور جغرافیائی حدبندی کو تسلیم نہ کرنے اور توسیع پسندانہ عزائم کے تحت جنگ چھیڑنے والے گروہوں کے ساتھ کسی نرمی یا رعایت کا سلوک نہیں ہوگا، یہ اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ حالیہ دنوں میں فتنہ ٔ خوارج کے دہشت گردوں کیخلاف تابڑ توڑ کارروائیاں جاری ہیں، مختلف علاقوں میں چھاپا مار دستوں نے زبردست کارروائیاں کی ہیں اور اِدھر ادھر چھپے دہشت گردوں کو ان کی کمین گاہوں سمیت اڑا دیا گیا ہے، اس سب کے باوجود دراندازی کی کوششیں مسلسل جاری ہیں جو پاکستان کو اس کے مخالفین کی جانب سے درپیش ایک طویل گوریلا جنگ کے خطرات کی نشان دہی کرتی ہیںاور عسکری نقطۂ نظر سے صاف دکھائی دیتاہے کہ اگر سر حد کے دوسری جانب حکمرانی کے تخت پر موجود افراد نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور وہ بصیرت پر دیوانگی ہی کو ترجیح دیتے رہے تو پاکستان کو چارو ناچار ایسے فیصلوں پر مجبور ہونا پڑے گا جن کے دوررس نتائج ہوں گے لیکن فی الوقت پاکستان ایسے کسی بھی اقدام سے احتراز برت رہاہے اور وہ علاقائی امن کو مزیدتصادم اور خطرات سے دوچار کرنے والی حکمتِ عملی سے اپنا پہلو بچانا چاہتاہے۔ افغان عبوری حکومت کو دنیا میں رائج جدید ریاستی نظام میں قبول نہیں کیاگیا ہے۔ دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح افغان عبوری حکومت کی پالیسیوںکا جائزہ لے رہاہے اور وہ جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کرے گا، اس مثال سے ظاہر ہوتاہے کہ دنیا فی الحال افغان حکومت کو ایک تسلیم شدہ قیادت کا درجہ دینے پر تیار نہیں ہے، ایسے میں ضروری تھا کہ افغان عبوری حکومت امن و سلامتی ہی ترجیح دیتی اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتی ، لیکن اس کے برعکس دیکھا جارہا ہے کہ افغان عبوری حکومت بھارت کے ساتھ تو دوستی کی پینگیں بڑھا رہی ہے اور تجارتی، دفاعی اور اقتصادی شعبوں میں تعاون کا سلسلہ وسعت اختیار کرتا جارہا ہے لیکن پاکستان کے ساتھ اس کا برتاؤ سوتیلے بھائیوں سے بھی بدتر دکھائی دیتاہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ افغان عبوری حکومت کے ساتھ امن و سلامتی کے قیام پر نتیجہ خیز اور بامقصد گفتگو کی کوششیں مسلسل جاری رکھی جائیں اور انھیں سمجھا دیا جائے کہ وہ دوسروں کے امن اور تحفظ کو نقصان پہنچا کر خود بھی آسانی سے حکمرانی نہیں کرسکتے ۔ ان کا فرض ہے کہ و ہ اپنے وعدوں کی پاس داری کریں اور غرور وتکبر، انا و تفاخر اور علاقائی اور لسانی برتری کے دھوکے سے نکل کر پڑوسیوں کے ساتھ اپنے رویے اور برتاؤ کو درست کرنے پر توجہ دیں تاکہ فتنے کی آگ مزید نہ پھیلے اور دونوں ملکوں کے درمیان امن اور خیر سگالی کا ماحول قائم ہوسکے،اسی میں دونوں ملکوں کے عوام کی بہتری بھی ہے۔
حکومت اور تحریکِ انصاف کے درمیان مذاکرات کا خاتمہ
تحریکِ انصاف کی جانب سے جاری کردہ بیانات کے مطابق حکومت کے ساتھ اپوزیشن کے جاری مذاکرات کا سلسلہ ختم کیاجار ہا ہے ،قبل ازیں تحریکِ انصاف کی جانب سے یہ دعویٰ بھی سامنے آیا تھا کہ مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں حکومت کو گھر جانا ہوگا اور نئے انتخابات کا اعلان کیاجائے گا، ظاہر ہے کہ حکومت اس سطح پر گر کر گفتگو نہیں کرسکتی ، چنانچہ مذاکرات کے خاتمے کے اعلان کاایک مطلب یہ بھی لیاجاسکتاہے کہ اپوزیشن جماعتیں کسی بھی وقت ایک نئی احتجاجی تحریک کا اعلان کرسکتی ہیں۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے مطابق ملک دشمنوں کا ایک ٹولہ بار بار احتجاج کی آڑ میں ملک وقوم کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہاہے۔ دوسری جانب حکومت کے اہم ارکان کی جانب سے مذاکرات کے خاتمے کے اعلان کو عجلت پسندی اور سوچنے سمجھے کی صلاحیت سے محرومی کا شاخسانہ قرار دیاگیاہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس فیصلے کا تعلق ملک کے معروف پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے خلاف شروع کی جانے والی حالیہ قانونی کارروائی سے بھی ہوسکتاہے۔ حقیقت جو بھی ہو بہرحال ملک کو اس وقت سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو سیاست کی گرم بازاری کے ساتھ ساتھ ملک کی مجموعی صورت حال کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔
