گزشتہ سے پیوستہ:
بے گھر مہاجرین کی واپسی کے لیے ابتدائی طور پر پیدل راستہ فراہم کیا جائے گا، جس کے بعد گاڑیوں کے ذریعے واپسی کی اجازت دی جائے گی۔ معاہدے کی ایک اہم شرط کے تحت، اسرائیلی فورسز (آئی ڈی ایف)بتدریج اہم علاقوں سے انخلا کریں گی، جن میں نتزریم اور فلادلفی راہداری شامل ہیں۔ پہلے 50 دنوں کے دوران ان علاقوں سے آئی ڈی ایف کی مکمل واپسی متوقع ہے، جبکہ مصر رفح کراسنگ کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھالے گا۔ پانچ مخصوص زونز میں آئی ڈی ایف کی موجودی 400 میٹر تک محدود ہوگی، جبکہ فلاڈلفیا راہداری سے انخلا مکمل طور پر کر لیا جائے گا۔ اسرائیلی حکومت کے اندرونی اختلافات کے باوجود، معاہدہ نافذ کرنے کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ دالیا شینڈلن نے اسرائیلی اخبار ہارٹزمیں لکھا ہے کہ بہت سے اسرائیلی فوجیوں کے لیے یہ جنگ بندی ایک بڑی راحت کا باعث بنی ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کے واقعات کے بعد اسرائیلی ریزرو فوجی اپنی بقا کی جنگ سمجھ کر بڑی ہمت اور جوش کے ساتھ میدان میں اترے۔ متعدد فوجیوں نے حکم نامہ ملنے سے پہلے ہی اپنی خدمات پیش کر دیں، جس کے نتیجے میں حاضری کی شرح 100 فیصد سے بھی بڑھ گئی۔ جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک ایک تہائی ریزرو فوجی 150 دن سے زیادہ ڈیوٹی کر چکے ہیں۔
تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوبارہ ڈیوٹی کے احکامات پر عمل کرنا ان کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے، خاص طور پر وہ فوجی جو کئی بار طویل مدت تک خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان میں سے کئی کے لیے یہ وقت سینکڑوں دنوں پر محیط ہے۔ ایک لیفٹیننٹ کرنل نے بتایا کہ کئی فوجیوں کی شریک حیات مزید کسی طویل ڈیوٹی کے دباو کو برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ آئی ڈی ایف کے مطابق جنگ کے دوران بلائے گئے 2,95,000 ریزرو فوجیوں میں سے 1,18,000 والدین ہیں، جن میں سے 1,15,000 والد ہیں۔ مائیکل ملشٹائن، جو تل ابیب یونیورسٹی کے دیان سینٹر کے فلسطینی اسٹڈیز فورم کے سربراہ ہیں اور آئی ڈی ایف انٹیلی جنس کے سابق اہلکار ہیں، کا کہنا ہے کہ کئی ریزرو فوجی اب گھر واپس آنے کے خواہشمند ہیں۔ انہوں نے کہاکہ خاندان اسرائیل کی شناخت کا ایک اہم حصہ ہیں۔ جنگ کے آغاز سے اب تک 75,000 کاروبار بند ہو چکے ہیں، جن میں سے 59,000 صرف 2024 کے دوران بند ہوئے۔
یہ تعداد کووڈ-19 وبا کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ ڈاکٹر شیری ڈینیئلز، جو ایک غیر سرکاری تنظیم کی قومی ڈائریکٹر ہیں، نے کہا کہ ان کی تنظیم کو 40,000 سے زیادہ مدد کی درخواستیں موصول ہوئیں، جو گزشتہ برسوں کے مقابلے میں 100 فیصد اضافہ ظاہر کرتی ہیں۔ دوسری تنظیموں جیسے ناتال نے خودکشی کے رجحانات رکھنے والے افراد کی طرف سے رابطوں میں 145 فیصد اضافہ رپورٹ کیا۔ آئی ڈی ایف کے مطابق 2024 میں 21 فوجیوں نے اپنی جان لے لی، جو ایک دہائی کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ جنگ بندی کا برقرار رہنا غیر یقینی ہے، کیونکہ عدم اعتماد اور غیر حل شدہ مسائل کسی بھی وقت کشیدگی کو دوبارہ ہوا دے سکتے ہیں۔ ان حالات میں کچھ تجزیہ کار چھوٹی کامیابیوں کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ یعقوب کاتز لکھتے ہیںکبھی کبھی ہمارے لوگوں کی واپسی ہی کافی ہوتی ہے۔یہ بیان ایک قوم کی تلخ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے، جو امن کی خواہش کے باوجود مستقبل کی جنگوں کے لیے تیار رہتی ہے۔ غزہ میں انسانی بحران بدستور ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق غزہ کے صحت کے نظام کی بحالی کے لیے اگلے پانچ سے سات سالوں میں کم از کم 10 ارب ڈالر کی ضرورت ہو گی۔ غزہ کے نصف سے کم اسپتال اس وقت کام کر رہے ہیں، جس کے باعث جنگ بندی کی کامیابی فوری اور پائیدار انسانی امداد پر منحصر ہے۔
بہت سے اسرائیلیوں کے لیے جنگ بندی تنازعے کے طویل اور بے رحم دورانیے کے بعد سکون کا ایک مختصر لمحہ ہے۔ یرغمالیوں کی واپسی نے خاندانوں کے لیے سکون اور عارضی ریلیف کا احساس پیدا کیا ہے، تاہم اسرائیل کو حماس کو ختم کرنے کے مقصد سے جنگ شروع کی تھی و ہ ہدف حاصل نہیں ہوا۔ سابق امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کے مطابق حماس کے جتنے جنگجواسرائیل نے ہلاک کیے، اتنے ہی وہ دوبارہ بھرتی کرنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ کیا دنیا اب سنجیدگی کے ساتھ مسئلہ فلسطین کوفلسطینی عوام کی خواہشات اور خطے کے اطمینان کے مطابق حل کرنے کی طرف گامزن ہوگی؟ تاکہ ایک پائیدار امن قائم ہوسکے گا۔
