ہماری قوم کو ایک خوش گمانی تھی کہ انکل جوبائیڈن جانے سے پہلے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو معافی دے دیں گے۔ گزشتہ کئی ماہ سے ڈاکٹر فوزیہ، وزیر اعظم کے خط اور اس خط کے ساتھ لاکھوں افراد کی تائید حاصل اور جمع کرنے میں مصروف رہیں۔ کئی گراں قدر ہستیوں، علماء و مشائخ نے اپیل کی، دعائیں کیں، عافیہ کے امریکی وکیل پرجوش اور مطمئن نظر آئے ، جوبائیڈن نے اپنے بیٹے کو تو معافی دے دی، کئی اور سنگین مجرموں کو معافی دے دی لیکن ڈاکٹر عافیہ کے لیے انکل جوبائیڈن کے قلم میں جنبش پیدا نہیں ہوئی، ویسے مسٹر جوبائیڈن سے یہی توقع تھی، خوش گمانی اپنی جگہ، حقیقت اپنی جگہ، کوشش، محنت، جدوجہد اپنی جگہ، امریکی وکیل کی خود اعتمادی اور محنت اپنی جگہ لیکن جوبائیڈن کی سنگدلی اپنی جگہ اور یہ معاملہ صرف جوبائیڈن تک نہیں، کوئی بھی امریکی صدر ہوتا، تو یہی کچھ ہوتا۔ ٹرمپ نے آتے ہی ان 1600 فسادیوں کو معافی دے دی جو اسٹیٹ کے مجرم تھے، جنھوں نے کیپٹل ہل پر حملہ کیا تھا۔ گویا امریکی صرف اپنے لیے جیتے ہیں۔ دعائیں اور کوششیں جاری رہنی چاہئیں، کیا پتا بددماغ ٹرمپ کا دماغ اچانک کام کرنے لگے، ایسا کام بددماغ لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ عافیہ صدیقی کی قید صرف قید اور جیل نہیں، اس میں زیادتی کے وہ عنصر ہیں جو امریکی چہرے کو مزید بد نما بنا دیتے ہیں۔
٭٭٭
ٹرمپ دوسری باری میں صدر بن گئے ہیں۔ 20جنوری 2025کو انھوں نے اپنی قوم کی آزادی کا دن قرار دیا ہے، یعنی پچھلا دور صدارت یوں ہی بے کار گزار دیا، امریکا کو آزاد نہیں کروا سکے تھے۔ کیا پتا چار سال بعد نیا صدر بھی حقیقی آزادی کا اعلان کر رہا ہو۔ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے: ”سب سے پہلے امریکا” جہاں سے غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کیا جائے گا۔ مہنگائی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسٹیبشلمنٹ کو بدعنوان قرار دیا ہے جس نے ان کے بقول عوام سے دولت چھینی ہے۔ صحت اور تعلیمی نظام پر تنقید کی ہے، کہا ہے ہمارا تعلیمی نظام امریکا سے نفرت سکھا رہا ہے اور محکمہ صحت کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے۔ منصوبہ ہے کہ ٹرمپ مریخ پر امریکی جھنڈا لہرائیں گے، خام تیل کی پیداوار بڑھائیں گے۔
٭٭٭
صدر اور وزیر اعظم پاکستان نے ٹرمپ کو مبارکباد بھیجی ہے۔ خبر ہے کہ وزیر داخلہ محسن نقوی پاکستانی سفیر کے ہمراہ تقریب میں شریک ہوئے۔ ہونا تو اسحاق ڈار کو چاہیے تھا لیکن محسن نقوی بازی لے گئے۔ پہلے یہ خبر آئی تھی کہ بلاول بھٹو کو ذاتی طور پر ٹرمپ کی تقریب حلف برداری میں شرکت کا دعوت نامہ ملا ہے اور وہ امریکا جائیں گے۔ پھر پتا چلا ایسا کوئی دعوت نامہ بلاول بھٹو کو نہیں ملا، نہ ہی وہ امریکا جا رہے ہیں۔ لگتا ہے وہاں سے کسی جیالے نے وقت سے پہلے خوش گمانی کے طور پر خبر دے دی تھی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے دعوت نامہ ڈونیشن سے حاصل کیا جا سکتا ہے، بہت ممکن ہے کسی جیالے نے یہ کوشش کی ہو اور یقین ہوا ہو کہ دعوت نامہ مل جائے گا لیکن اندازے کی غلطی ہوگئی۔ اگر بلاول کو دعوت نامہ مل جاتا تو پی پی والے وہ اودھم مچاتے کہ زمین آسمان ایک کر دیتے لیکن خیر یار زندہ صحت باقی اگلے کسی صدر کی تقریب میں سہی۔
٭٭٭
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان جاری مذاکرات میں آج کل وقفہ ہے، اس وقفے کے دوران حکومت نے ان مطالبات پر جواب تیار کرنا ہے جو پی ٹی آئی نے گزشتہ اجلاس میں تحریری طور پر حکومت سے کیے تھے۔ کچھ ذرائع کا دعوی ہے حکومت نے جواب تیار کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ جواب بس جواب ہی ہوگا کہ بھائیو منہ دھو رکھو، یہ بھی کوئی مطالبات ہیں؟ جواب میں بین السطور یہ مفہوم پایا جائے گا کہ چپ چاپ ہماری حکومت تسلیم کرو اور انتخابات کے لیے 2029کا انتظار کرو۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے اتنے سخت اور ناممکن مطالبات اسی لیے رکھے ہیں تاکہ مذاکرات سے جان چھڑانے کا بہانہ مل جائے اور ذمے دار حکومت کو ٹھہرانا آسان ہو۔ پی ٹی آئی کو پتا ہے کہ یہ مطالبات پورے ہونا ممکن نہیں لیکن ذمے دار حکومت ٹھہرے اور عوام میں پروپیگنڈا پھیلانے میں آسانی ہو۔
٭٭٭
17 جنوری جمعہ مبارک کو احتساب عدالت کے جج نے بڑے خان صاحب کو 190 ملین پاؤنڈ میں 14 سال ان کی مہربان مرشد بی بی کو سات سال قید، بالترتیب 10اور پانچ سال لاکھ جرمانہ بھی کیا۔ جواب میں پی ٹی آئی عدالت عالیہ جانے والی ہے جہاں سے خان صاحب اور ان کے چاہنے والوں کو انصاف کا پکا یقین ہے اور باقی ملک کو ناانصافی کا خدشہ ہے۔ کچھ ذرائع کا کہنا ہے مرشد بی بی کی سزا معاف ہو جائے گی اور مرید میاں کی سزا و جرمانے میں کمی ہو جائے گی۔ کچھ ماہرین کے مطابق دونوں کی سزا میں کمی ہوگی، معافی کا امکان نہیں، جبکہ کچھ کے خیال میں بی بی کی سزا معاف اور خان صاحب کی سزا میں کمی ہوگی۔ پی ٹی آئی پوری پارٹی کے خیال میں یہ مقدمہ بس دو سماعتوں کی مار ہے، قابل وکیل ایسی بھد اڑائیں گے کہ گرد و غبار میں پوری حکومت اور احتساب عدالت کے جج صاحب نظر ہی نہیں آئیں گے۔ عدالت عالیہ اسلام آباد میں دو نئے جج حضرات کی آمد سے حکومت پر امید ہے، اور کچھ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی شکستہ دل ہوگئی ہے۔ باقی اسٹیبلشمنٹ سے رابطے میں رہنے والے ذرائع کا کہنا ہے بڑی سرکار اور پی ٹی آئی میں ان بن ختم ہونے کا امکان نہیں۔
