دنیا کی تاریخ میں سب سے پہلا بینک کب قائم ہوا، اس بارے میں مختلف دعوے ملتے ہیں، لیکن اٹلی کو وہ پہلا ملک قرار دیا جاتا ہے، جہاں سے بینکنگ شروع ہوئی۔ ابتدا میں بینکنگ کا کوئی منظم اور مربوط ڈھانچہ نہیں تھا، فنڈز جمع کرنا اور غریبوں کو کم شرح سود پر پیسے دے دینا۔ اٹلی کا سب سے مشہور بینک میڈیسی (medici bank)تھا، جس کا آغاز 1397عیسوی میں ہوا تھا۔ اٹلی کا جو قدیم ترین بینک آج بھی موجود ہے، اس کا نام ہے: بینکو دی نیپولی (Banco Di Napoli)یہ بینک 1463عیسوی میں قائم ہوا اور آج بھی دنیا میں موجود ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یورپ میں بینکاری کے تجربات کے ساتھ ہی عالم اسلام میں سود سے پاک متبادل نظام کی کوششیں شروع ہو جاتیں لیکن پندرہویں صدی عیسوی میں مسلمان زوال آشنا ہو چکے تھے اور ایک طرف سلطنت عباسی ختم ہو چکی تھی، دوسری طرف اندلس ہاتھ سے نک گیا تھا، تیسری طرف تاتاری یلغار نے عالم اسلام کو ادھیڑ کر رکھ دیا تھا اور مسلمانوں کی امیدوں کا واحد مرکز سلطنت عثمانیہ ہی تھی۔
لیکن مسلمانوں کو سود سے پاک بینکاری شروع کرتے کرتے پانچ صدیاں لگ گئیں، عالم اسلام میں سب سے پہلا اسلامی بینک کہاں قائم ہوا؟ یہ بات بھی ابھی طے شدہ نہیں، مگر ڈاکٹر احمد نجار کے مصر میں 1963ء میں قائم کردہ بینک کو اولین قرار دیا جاتا ہے۔ مصر کے شہر ”میت غمر” میں قائم ہونے والے پہلے ”لوکل سیونگ بینک” کا نظام سود سے پاک بنایا گیا۔ اس کے بعد او آئی سی نے 1972ء میں پہلی بار اپنی سفارشات میں ذکر کیا کہ عالم اسلام کو ضرورت ہے کہ سود سے پاک بینک قائم کیے جائیں۔ اس کے نتیجے میں 1974ء میں اسلامک ڈیولپمنٹ بینک جدہ قائم ہوا، لیکن اس بینک کے تمام معاملات ملکوں اور حکومتوں کے ساتھ تھے اور عام آدمی سے اس بینک کا کوئی براہ راست تعلق نہیں تھا۔
پہلا باقاعدہ اسلامی بینک دنیا کے نقشے پر 1975ء میں ابھر کر سامنے آیا اور اسے آج دنیا ”بینک دبئی اسلامی” کے نام سے جانتی ہے۔ بینک دبئی اسلامی قائم کرنے والی شخصیت ”شیخ سعید آل لوتاہ” ہے۔ لیکن بینک دبئی اسلامی کے بعد پورے عالم اسلام میں فکر شروع ہوئی کہ سود سے پاک بینکاری کا آغاز کیا جائے، یوں تمام اسلامی ممالک اور یہاں تک کہ غیر اسلامی ممالک نے بھی اسلامی بینکاری کو پڑھنا، سیکھنا، سمجھنا اور پھر بینک قائم کرنا شروع کر دیا۔
یورپ میں اسلامی بینکاری کی فکر اس وقت شروع ہوئی جب دنیا کو 2008ء میں عالمی معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس وقت امریکا اور یورپ کے دیوہیکل بینک بھی تنکوں کی طرح بکھر رہے تھے اور دنیا کی معیشت ہر روز تباہی کا شکار ہو رہی تھی۔ اس بحران نے لوگوں کو اسلامی بینکاری کی طرف متوجہ کیا اور دنیا کو فکر ہوئی کہ اگر سود پر مبنی نظام تباہ ہوا تو پھر ایک ہی جائے پناہ ہوگی، جس کا نام ہے: اسلامی بینکاری۔
یہاں تک تو بات بہت ہی حوصلہ افزا ہے، لیکن اس کے بعد ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا اسلامی بینکاری وہ متبادل فراہم کر سکی ہے، جس کی دنیا کو ضرورت ہے؟ اسلامی بینکوں کے شریعہ ڈپارٹمنٹس میں اتنا تو ضرور ہو رہا ہے کہ پروڈکٹس کی نگرانی کی جاتی ہے، سود کے داخلے کے رستے روکے جاتے ہیں، معاہدات کی چھان بین کی جاتی ہے اور مشکوک معاملات الگ کردیے جاتے ہیں۔ لیکن اب اتنا کافی نہیں رہا۔ آج سے دس سال قبل ہم یہ کہا کرتے تھے کہ ابھی اسلامی بینکاری ابتدائی دور میں ہے۔ لیکن آج یہ کہنا بہت مشکل ہے۔ اسلامی بینکاری کے بین الاقوامی اثاثے حیرت انگیز طور پر بڑھ چکے ہیں۔ اسلامی بینکوں کی پذیرائی دنیا بھر میں ہو رہی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی اسلامی بینکوں کے صارفین کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ اسلامی بینک تحقیق اور ریسرچ پر خرچ کریں۔ ہر بینک کے پاس ریسرچرز کی ایک ٹیم ہونی چاہیے، ریسرچ کے فنڈز ہونے چاہئیں، نت نئے آئیڈیاز کی پذیرائی کی جانی چاہیے۔ پرانے رستوں پر چلنا اور نئے تجربات نہ کرنا، اب زیادہ دیر چلنے والا نہیں ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کوئی کمپنی دنیا پر راج کر رہی ہو مگر اس کا ریسرچ اور ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ فعال نہ ہو؟ بالکل ایسے ہی اسلامی بینکاری کو اگر دنیا پر راج کرنا ہے، سودی بینکاری کے راستے روکنے ہیں تو ریسرچ اور ڈیولپمنٹ پر خرچ کرنا ہوگا۔ اسے ترجیح دینا ہوگی۔
دنیا بھر میں پھیلے اسلامی بینکوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج ایسی پروڈکٹس متعارف کروانا ہے جو اختراعی نوعیت کی ہوں، جو سودی پروڈکٹس کی کاپی نہ ہوں اور ان کے نتیجے میں اسلامی معاشی نظام مزید مضبوط اور بہتر ہو۔ کیا ہے کوئی جو اس پر ریسرچ کرے اور معاشی بازی گروں کو چیلنج کرتے ہوئے ایسا کر دکھائے؟
