پندرہ ماہی اسرائیل حماس جنگ میں بظاہر حماس نے بہت کچھ کھویا اور اسرائیل نے بظاہر کامیابی حاصل کی لیکن یہ محض ایک سطحی تجزیہ ہی کہلائے گا۔ گہرائی سے دیکھا جائے تو حماس نے اس جنگ سے بہت کچھ حاصل بھی کیا ہے۔
1۔ سب سے بڑھ کر پوری مغربی دنیا کے عوام نے صہیونی ریاست سے محبت چھوڑ کر پہلی بار کھلے دل سے فلسطین کا اخلاقی ساتھ دیا ہے، چنانچہ یہی نوجوان چند برسوں میں جب امریکا اور یورپ میں ملازمتوں، حکومتوں، بینکوں، کارپوریشنوں، اخباروں، چینلوں، یونیورسٹیوں، سی آئی اے، تجزیاتی اداروں ، فوجی عہدوں، ناسا، اور کانگریس و اسمبلیوں میں ذمے داریاں سنبھالیں گے تو عالمی فضا میں یقینا بڑی تبدیلی آئے گی۔ اسرائیل سے زیادہ وہ محکوم فلسطینیوں کے طرف دار ہوں گے اور اپنی سطح پر اسرائیلی جارحیت اور نسل کشی کی بھرپورمذمت کریں گے۔
2۔ ادھر خود اسرائیل میں بھی رائے عامہ عمومی طور پر جنگ کے خلاف رہی ہے کیونکہ یہ جنگ انہیں بے شمار مصائب میں مبتلا رکھے ہوئے تھی۔ راکٹوں، سائرن اور حماس و لبنان کے دو طرفہ حملوں کا ان پر ہمہ وقت نفسیاتی خوف سوار رہتا تھا۔ لبنانی سرحد کے ساتھ کے بے شمار اسرائیلی گھرانے اپنے گھر چھوڑ کر اندرون اسرائیل پناہ گزین ہوئے تھے ۔
3۔ ادھردرآمدات کے متاثر ہونے کے باعث مہنگائی بھی بڑھتی رہی اور غذائی و روز مرہ کی اشیا کی قلت بھی پیدا ہوئی۔ واضح رہے کہ اسرائیل ایک بہت چھوٹا سا ملک ہے جس کی معیشت کا بڑا انحصار درآمدات پر ہے۔ دوسری جانب اندرون ملک ملازمتوں پر بھی پابندی بڑھ گئی تھی۔
جنگ بندی حماس کی فتح اسرائیل کی شکست ہے‘ اسرائیلی عسکری ماہرین (علی ہلال)
4۔ دوران جنگ اسرائیل میں ہر ہفتے ہزاروں یہودی جنگ بندی پر مسلسل دباﺅ ڈالتے رہے۔ معاہدے کے نتیجے میں اسرائیلی قیدی واپس لوٹ کر حماس اور اسلام کے حسن سلوک کی مزید تعریفیں کریں گے۔
5۔ جنگ کے نتیجے میں چلتے ہوئے اسرائیلی ترقیاتی کام بھی رک گئے تھے۔
6۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل بہت کمزور ہوا تھا اور عالمی عدالت نے پہلی بار اسے جنگی مجرم قرار دے کر نیتن یاہو کو لازمی گرفتار کرنے کا حکم جاری کیا۔

7۔ بعض یورپی ممالک کے علاوہ چند دیگر ممالک نے بھی اسرائیل کو ایک واضح جارح ملک قرار دیا۔
8۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلے گا کہ فلسطینیوں کی ناقابل یقین استقامت دیکھ کر مسلمانوں، حماس اور فلسطین پر نئے انداز سے کتابیں لکھی جائیں گی، بلکہ اس کے نتیجے میں ایک نئی عالمی تاریخ بھی لکھی جائے گی۔
9۔ اسرائیلی فوجیوں میں اب یہ سوال بھی پیدا ہونے لگا تھا کہ یہ طویل جنگ سوائے غزہ کو کھنڈر کرنے کے بالکل لاحاصل ہے، کیونکہ اسرائیل غزہ پر قطعی قبضہ حاصل نہیں کرسکا ہے۔ معاہدے سے محض دو دن پہلے ہی دوسو اسرائیلی فوجیوں نے حماس کے ساتھ جنگ کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ وہ معصوم نہتے فلسطینیوں کے قتل عام اور بچوں اور بوڑھوں کو بھوکا مارنے کے غیر انسانی عمل میں مزید شریک نہیں رہنا چاہتے۔
10۔ یاد رہے کہ اسرائیل میں محض کٹر صہیونی ہی نہیں رہتے بلکہ عام یہودی بھی رہتے ہیں جو بالآخر اس انسانی نسل کشی کے خلاف اٹھ بھی سکتے تھے۔ شعب ابی طالب میں جابر کفار نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو طویل عرصے کے لئے قید کیا تھا مگر بالآخر معصوم بچوں کی رونے اورچلانے کی آوازیں سن کر انہی لوگوں نے اس محاصرے کو آخر کار خود ختم کر دیا تھا۔ اس خطے میں بھی آخرکار یہی انجام سامنے آنا تھا۔ مسلسل بہتا ہوا خون اور اندھا دھند بمباری، بے حس انسانی جذبات کو جھنجھوڑ ہی دیتی ہے۔ جنگ ایک ایسا عمل ہے جو ہر لحاظ سے دکھوں اور المیوں کو جنم دیتا ہے خواہ وہ اسرائیل کے اندر نگ ہو یا برطانیہ وغیرہ کے اندر۔
11۔ افغانستان کے خلاف دو عالمی طاقتوں اور ان کے حواری ممالک کی کئی سالہ جنگ بھی افغانیوں کی قوت کو شکست نہیں دے سکی تھی اور اب وہی کھنڈر افغانستان دوبارہ تعمیر وترقی کی راہ پر گامزن ہے اور پاکستان سے بھی بہتر حالت میں ہے۔ محض جنگ بندی کے معاہدے کی خبر پڑھ کر بغیر کچھ دن گزرے اپنے ہی لوگوں کی جانب سے مایوسی کی خبریں پھیلانا اور منفی تجزیے کرنا بے وقوفی اور جہالت ہے اور دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنا ہے۔
12۔ فلسطینیوں کی آنے والی نسلیں اپنے والدین اور اپنے شہر کی تباہی کا بدلہ لیں گی۔ دیکھتے نہیں کہ 1948ء کے بعد بھی فلسطینی آج تک کبھی شکست نہیں مانے، collateral damage جیسی اصطلاحیں استعمال کرتے ہوئے تجزیے پیش کرنا لوگوں کو محض مرعوب کرنے کی کوشش ہے۔

13۔ اسرائیل حماس جنگ سے اسرائیل کا رعب اور ناقابل تسخیر قوت ہونے کا ہوا نہتے مجاہدین نے پاش پاش کرکے رکھ دیا اور ایران و لبنان نے بھی دکھا دیا کہ اسرائیل کے اندر تل ابیب تک بھی راکٹوں سے حملے کیے جاسکتے ہیں۔ اسرائیل ناقابل تسخیر نہیں ہے ، حماس نے تمام مسلم ممالک کو پیغام دے دیا ہے۔
14۔ دوسرے نمبر پر اپنی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی خود اعتمادی سے اسرائیل عرب ممالک، خصوصا سعودی عرب کے اندر تک جس طرح پذیرائی حاصل کرتا جارہا تھا، اس پیش قدمی میں بھی یکدم بریک لگ گئے اور صہیونی پہلی بار اپنا منہ لٹکا ہوا دیکھنے لگے۔ حماس کی یہ ایک بہت عظیم کامیابی ہے۔
15۔ افغانستان اور فلسطین کی اس جنگ سے سبق یہ بھی نکلا ہے کہ جہاد کا راستہ ہی مسلمانوں کےلئے اصل فیصلہ کن ہے۔ نتیجے میں مسلمانوں میں ہر جگہ خود اعتمادی بڑھے گی جو اپنے ساتھ دینی انقلابی قوتوں کی حدی خوانی کی لے بھی تیز تر کردے گی۔
16۔ اور یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ محض 33 یا 34 صہیونی یرغمالیوں کے بدلے حماس نے عالمی طاقتوں سے منوایا ہے کہ اس کے ایک ہزار قیدیوں کو چھوڑا جائے گا جن میں سے بعض کو موت کی سزائیں بھی سنائی جاچکی ہیں۔ تجزیہ کنندگان کوتناسب کے اس وسیع فرق کو بھی ضرور سامنے رکھنا چاہیے۔ آخر کوئی تو وجہ ہوگی کہ اسرائیل اس قدر دب کر صلح کر رہا ہے؟
17۔ مغرب میں قبول اسلام کی شرح جو ویسے ہی تیز ہے، حماس کی ناقابل یقین استقامت مغربی غیر مسلموں کو مزید اسلام کی طرف رجوع کرنے کا سبب بنے گی۔ مغرب اور اسرائیل کی جس قدر بھی چالیں ہوں گی، جلد یا بدیر وہ ان شاءاللہ اسلام ہی کے حق میں منتقل ہوں گی۔ صلح کے عمل کے بعد سے جب تھوڑا وقت مزید گزرے گا تو اس معاہدے کے مزید ثمرات بھی ان شاءاللہ سامنے آئیں گے۔