اخلاقیات کی گرتی ہوئی حالت
لمحہ فکریہ!
سجاد سعدی۔ کراچی
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسان کو روحانی، سماجی اور اخلاقی پہلوؤں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اخلاقیات اسلام کی تعلیمات کا مرکزی نقطہ ہیں اور یہ وہ معیار ہے جو انسان کے کردار کو نہ صرف بہتر بناتا ہے بلکہ معاشرتی تعمیر کے لیے ایک مضبوط بنیاد بھی فراہم کرتا ہے۔ قرآن و حدیث میں اخلاقیات کی اہمیت بار بار اجاگر کی گئی ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ اچھے اخلاق اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے قریب کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ جبکہ اخلاقی خرابیاں اسلامی تعلیمات سے بڑی دوری کانتیجہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
اسلام میں اخلاقیات کا تصور
اخلاقیات کا مطلب ہے اچھائی اور برائی کے درمیان فرق کرنا اور اچھی عادات و رویے اپنانا۔ اسلام میں اخلاقیات کو قرآن مجید اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کیا گیا ہے۔ قرآن میں ہے: اور بے شک، تم عظیم اخلاق کے مالک ہو (القلم: 4) یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار کی عظمت کا اعتراف کرتی ہے اور مسلمانوں کے لیے ایک معیار قائم کرتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے بہتر مسلمان وہ ہے جس کے اخلاق بہترین ہوں۔ اسلامی اخلاقیات میں صدق، امانت داری، صلہ رحمی، عدل و انصاف، حلم اور عفو و درگزر جیسے اوصاف شامل ہیں۔ یہ اوصاف فرد کی شخصیت کو نکھارتے ہیں اور معاشرتی تعلقات کو مضبوط بناتے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اخلاقیات کی عملی مثال
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اخلاقی اصولوں کا بہترین نمونہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات اور عمل کے ذریعے نہ صرف عرب کے جہالت زدہ معاشرے کو مہذب بنایا بلکہ پوری انسانیت کو اخلاقی اصولوں کی پیروی کا درس دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت داری، صداقت اور عدل کا اعتراف دشمنوں نے بھی کیا۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بدترین مخالفین کو معاف کر کے عفو و درگزر کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل میں یکسانیت اور انصاف کا پہلو ہر وقت نمایاں رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسم نے تعلیم دی کہ اخلاق صرف عبادات تک محدود نہیں بلکہ ہر شعبہ زندگی میں ان کا اطلاق ہونا چاہیے۔
موجودہ د ورمیں اخلاقی اقدار
موجودہ دور میں اخلاقی اقدار زوال پذیر ہیں۔ جھوٹ، دھوکا دہی اور بد دیانتی جیسی برائیاں ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکی ہیں۔ معاشرتی سطح پر عدم اعتماد اور انتشار کی بنیادی وجہ اخلاقی گراوٹ ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشرے کی تعمیر میں اخلاقیات کا اہم کردار ہے۔ قرآن مجید ہمیں عدل، احسان اور حقوق العباد کی ادائیگی کا درس دیتا ہے۔ موجودہ معاشرتی مسائل جیسے کرپشن، جھوٹ اور خود غرضی اسلام کی اخلاقی تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہیں۔ جھوٹ بولنا اور دھوکا دینا اسلام میں سختی سے ممنوع ہیں۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا: اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور نہ ہی حق کو چھپاؤ۔ (البقرہ: 42) اگر افراد اور ادارے سچائی اور امانت داری کو اپنائیں تو معاشرتی تعلقات میں اعتماد بحال ہو سکتا ہے اور ترقی کا سفر ممکن ہو سکتا ہے۔
عدل، انصاف اور صلہ رحمی
عدل اور انصاف اسلامی اخلاقیات کے اہم ستون ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: بے شک اللہ عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برائی اور ظلم سے منع کرتا ہے۔ ((النحل: 90) ہمارے معاشرے میں ناانصافی اور حقوق کی پامالی نے برائیوں کو جنم دیا ہے۔ اگر عدل و انصاف کے اصولوں پر عمل کیا جائے تو سماجی برائیوں کا خاتمہ ممکن ہے۔اسلام نے صلہ رحمی اور حسن سلوک کو ہر تعلق میں بنیادی اہمیت دی ہے۔ والدین، رشتہ داروں، پڑوسیوں اور یتیموں کے حقوق کی ادائیگی کی تاکید کی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
اخلاقیات کا نفاذ کیسے ممکن ہے؟
اخلاقی تعلیمات کو معاشرے میں نافذ کرنے کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں: (1) تعلیم و تربیت: بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی دینی اور اخلاقی اصول سکھائے جائیں۔ (2) عملی مثال: والدین، اساتذہ اور رہنما خود اخلاقی اصولوں پر عمل کر کے دوسروں کے لیے نمونہ بنیں۔ (3) قانون کا نفاذ: انصاف کے نظام کو مضبوط کیا جائے تاکہ برے اعمال کی حوصلہ شکنی ہو۔(4) عوامی شعور: اخلاقیات کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے عوامی مہمات چلائی جائیں۔ اسلام میں اخلاقیات کو زندگی کا مرکز قرار دیا گیا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور قرآن مجید کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے ہم نہ صرف اپنی انفرادی زندگیوں کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ ایک مثالی معاشرہ بھی تشکیل دے سکتے ہیں۔ موجودہ دور کی اخلاقی خرابیوں کا علاج اسلامی اصولوں کو اپنانے میں ہے۔ اگر ہم اسلام کی اخلاقی تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں تو یہ دنیا ایک بہتر اور پرامن جگہ بن سکتی ہے۔