شام میں بشارالاسد کے دورِ سیاہ میں شہید، گرفتار اور پھر لاپتہ ہونے والے افراد کا ڈیٹا جمع کیا جا رہا ہے۔ وزیر عدل شادی الویسی کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ بشار کے دور میں جبری لاپتہ کئے جانے والے شامیوں کی تعداد رُبع ملین (ڈھائی لاکھ) سے زاید ہے۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ اصل تعداد نصف ملین سے بھی زاید ہوسکتی ہے۔ اس سیاہ دور میں جنگل کا قانون نافذ تھا۔
اس حوالے سے کچھ وکلا نے پہلے سے کام شروع کیا تھا۔ اندازہ لگایئے کہ صرف ایک خاتون وکیل نورا غازی نے 3500 ایسے خاندانوں کی مکمل تفصیلات جمع کی ہیں جن کے پیارے لاپتہ کر دیے گئے۔ ایسے افراد کی تعداد ڈیڑھ لاکھ ہے جن کے ناموں کی مختلف جیلوں میں انٹری کی گئی تھی، مگر ان کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔ جبکہ بشاری درندے بعض جیلوں کے ڈاکومنٹس ضائع کر کے فرار ہوگئے، اس لیے ہزاروں افراد کے بارے میں معلومات کا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے۔ پھر بھی حکام مختلف ذرائع سے ڈیٹا جمع کر رہے ہیں۔13سالہ فرعونی دور میں شامی عوام پر قیامت ڈھائی جاتی رہی۔ ہم اس رپورٹ میں شامی متاثرین پر مختصر روشنی ڈالیں گے۔ دورِ سیاہ میں متاثرین کا ڈیٹا جمع کرنے والے شامی نیٹ ورک برائے انسانی حقوق نے ان 13 برسوں کے دوران 236,278 شہریوں کی شہادت کو دستاویزی شکل دی ہے جن میں 15,334 افراد کوجیلوں اور عقوبت کدوں میں تشدد کرکے ہلاک کیا گیا اور 156,757 افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ تقریبا 14 ملین شامی باشندے بے گھر ہوگئے۔ شامی عوام 13 سال تک دنیا کے سب سے بدترین جابرانہ نظام کا تنہا سامنا کرنے پر مجبور ہوئے۔ بدقسمتی سے دنیا نے ان کے حق میں آواز تک نہیں اٹھائی۔ پُرامن مظاہرین کے خلاف بشار حکومت کا ردعمل انتہائی پُرتشدد تھا۔
مظاہرین پر براہ راست گولیاں چلائی گئیں اور ان کے رہنماؤں کو بڑے پیمانے پر گرفتار کیا گیا۔ گرفتار شدگان کو سخت اذیت کا نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں کچھ افراد دورانِ حراست جاں بحق ہوگئے۔ آج بھی 2011ء سے سیاسی قیدیوں کی بڑی تعداد لاپتہ ہے۔ کم از کم 36,278 شہریوں کی ہلاکت کا اندراج کیا گیا ہے، جن میں 30,193بچے اور 16,451 خواتین (بالغ خواتین)شامل ہیں۔ 201,260 افراد جن میں 23,039 بچے اور 12,002 خواتین شامل ہیں، شامی حکومت کی افواج کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ روسی افواج نے 6,969 افراد کو ہلاک کیا، جن میں 2,055 بچے اور 983 خواتین شامل ہیں۔ داعش کے ہاتھوں 5,056 افراد، جن میں 959بچے اور 587خواتین شامل ہیں، قتل ہوئے جبکہ حکومت مخالف جنگجوؤں کے ہاتھوں 538افراد، جن میں 76 بچے اور 82 خواتین شامل ہیں، ہلاک ہوئے۔ نیشنل آرمی کے ہاتھوں 4,227افراد، جن میں 1,009 بچے اور 886 خواتین شامل ہیں، قتل کیے گئے۔ شامی ڈیموکریٹک فورسز(قسد)کے ہاتھوں 1,491 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 264 بچے اور 177 خواتین شامل ہیں۔ بین الاقوامی اتحاد کی افواج کے حملوں میں 926 بچوں اور 658 خواتین سمیت 3,055 افراد ہلاک ہوئے۔

دیگر فریقوں نے 8,678 شامیوں کو قتل کیا، جن میں میں 1,865 بچے اور 1,076 خواتین شامل ہیں۔ 13 سالوں کے دوران ہلاکتوں کے مجموعی اعداد و شمار اور ان کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ 91فیصد ہلاکتیں شامی حکومت اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں ہوئیں، جبکہ مجموعی شہری ہلاکتوں کا تقریبا 52فیصد دمشق کے دیہی علاقوں، حلب اور حمص کے صوبوں میں ہوا۔ شہداء میں 876 طبی عملے کے افراد شامل ہیں جن میں سے تقریباً 83فیصد کو شامی اور روسی اتحاد کی افواج نے قتل کیا۔ اسی طرح717 میڈیا کے کارکنان کی ہلاکت کا اندراج کیا گیا جن میں سے تقریباً 78 فیصد کو شامی حکومت کی افواج نے قتل کیا۔ کم از کم 156,757 افراد کو دستاویزی طور پر قید یا جبری گمشدگی کا شکار بتایا گیا ہے، جن میں 5,235 بچے اور 10,205 خواتین شامل ہیں۔ ان میں سے 3,696بچوں اور 8,49خواتین سمیت 136,192 افراد کو شامی حکومت نے لاپتہ کیا۔
داعش نے 8,684افراد کو لاپتہ کیا جن میں 319بچے اور 255خواتین شامل ہیں۔ حکومت مخالف جنگجوئوں نے 2,587افراد کو حراست میں لیا جن میں 47 بچے اور 45 خواتین شامل ہیں۔
نیشنل آرمی نے 4,243 افراد کو گرفتار کیا، جن میں 364 بچے اور 879 خواتین شامل ہیں۔ شامی ڈیموکریٹک فورسز (قسد) نے 5,051افراد کو قید کیا جن میں 809 بچے اور 529 خواتین شامل ہیں۔ تشدد کے سبب ہلاک ہونے والوں کی تعداد کم از کم 15,334بتائی گئی ہے جن میں 199بچے اور 115خواتین شامل ہیں۔ ان میں سے 15,074 افراد جن میں 190بچے اور 95خواتین شامل ہیں، شامی حکومت کی افواج کے ہاتھوں مارے گئے، جو کہ کل تعداد کا تقریباً 99 فیصد بنتا ہے۔ داعش کے ہاتھوں 32 افراد جن میں ایک بچہ اور 14خواتین شامل ہیں، ہلاک ہوئے۔ حکومت مخالف جنگجوئوں نے 41افراد کو قتل کیا جن میں 2بچے اور ایک خاتون شامل ہیں۔ نیشنل آرمی نے 57افراد کو قتل کیا جن میں ایک بچہ اور 2خواتین شامل ہیں۔ شامی ڈیموکریٹک فورسز (قسد) کے ہاتھوں 100 افراد ہلاک ہوئے جن میں 2 بچے اور 3خواتین شامل ہیں۔ دیگر فریقوں نے 30افراد کو قتل کیا جن میں 2بچے اور ایک خاتون شامل ہے۔
بشار حکومت نے عوامی قتل عام کے لیے چار اقسام کے ہتھیار زیادہ تر استعمال کئے: سب سے زیادہ بیریل بم، پھر کیمیکل ہتھیار، پھر کلسٹر ایمونیشن اور آتش گیر ہتھیار۔ بشار حکومت کے ہیلی کاپٹر اور جنگی طیاروں نے کم از کم 81,916 بیریل بم گرائے، جن کا پہلا ریکارڈ شدہ استعمال 18 جولائی 2012ء کو ہوا۔ ان حملوں کے نتیجے میں 11,087شہری شہید ہوئے جن میں 1,821 بچے اور 1,780 خواتین شامل ہیں۔ شام میں دسمبر 2012ء سے کیمیائی ہتھیاروں کے 222حملوں کا اندراج کیا گیا۔ ان میں سے 217حملے شامی حکومت نے کیے جبکہ 5حملے داعش کے ہاتھوں انجام پائے۔ ان حملوں میں مجموعی طور پر 1,514افراد ہلاک ہوئے جن میں 214بچے اور 262خواتین شامل ہیں اور یہ تمام ہلاکتیں بشار حکومت کے حملوں میں ہوئیں۔ مزید یہ کہ 11,212افراد زخمی ہوئے جن میں 11,080افراد بشار حکومت کے حملوں اور 132افراد داعش کے حملوں میں زخمی ہوئے۔ کلسٹر ایمونیشن بشار حکومت اور اس کے روسی اتحادی نے بڑے پیمانے پر استعمال کیا۔ جولائی 2012ء سے ان ہتھیاروں کے 497حملے ریکارڈ کیے گئے، جن میں سے 252 حملے بشار حکومت نے، 237حملے روسی افواج نے اور 8مشترکہ روسی’شامی حملے تھے۔ ان حملوں کے نتیجے میں 1,053 شہری شہید ہوئے جن میں 394بچے اور 219خواتین شامل ہیں۔ آتش گیر ہتھیاروں کے 181حملے ریکارڈ کیے گئے جن میں سے 51حملے بشار حکومت، 125روسی افواج، اور 5بین الاقوامی اتحاد کی افواج نے کیے۔ یہ حملے زیادہ تر شہری علاقوں کو نشانہ بنانے کے لیے کیے گئے۔
بشار اور اس کے اتحادیوں نے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کیا۔ مارچ 2011ء سے اب تک 897طبی مراکز، 1,453 عبادت گاہیں اور 1,675اسکولوں پر حملے ریکارڈ کیے گئے، جن میں سے کئی کو متعدد بار نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں میں شامی، روسی اور ایرانی اتحاد کا حصہ تقریباً 86فیصد رہا۔ نصف سے زیادہ شامی عوام یا تو بے گھر ہوئے یا پناہ گزین بن گئے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے مطابق تقریباً 13.4ملین شامی افراد اندرونی طور پر بے گھر ہوئے یا دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ یہ تو وہ نقصانات ہیں جو شامیوں نے جھیل لیے۔ بشار حکومت نے عوام کو کچھ ایسی ضربیں بھی لگائی ہیں جو کئی دہائیوں تک انہیں متاثر کرتی رہیں گی۔ ان کارروائیوں میں سرفہرست غیر قانونی گرفتاری’ حراست اور جبری گمشدگیاں ہیں۔ یہ وہ مظالم ہیں جنہیں بشار حکومت نے 13 برسوں تک مسلسل جاری رکھا۔ 2011ئ سے گزشتہ برس مئی تک بشار نے 23جعلی معافی نامے جاری کیے، مگر دکھاوے کی اس کارروائی کے باوجود قیدی رہا نہیں ہوئے۔ یوں لاکھوں قیدی لاپتہ ہوگئے۔ گمشدگی کا مسئلہ متاثرین کے اہلِ خانہ کے لیے ایک مستقل عذاب بن ہوا ہے۔ بشار حکومت کے خاتمے تک لاپتہ افراد کی تعداد تقریبا 113,000تھی لیکن اب تحقیقات سے اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
نئی حکومت کے جمع کردہ ڈیٹا کے مطابق لاپتہ افراد کی تعداد ڈھائی لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ ان میں سے بڑی تعداد کو جعلی عدالتی کارروائی کے بعد سزائے موت دی گئی۔ مارچ 2011ء سے اگست 2023ء تک فوجی عدالت نے کم از کم 7,872سزائے موت سنائی۔ اس کے ساتھ بشار حکومت کی بچھائی بارودی سرنگیں بھی شامیوں کے لیے موت کا پیغام ثابت ہو رہی ہیں۔ اس کے ساتھ کلسٹر ایمونیشن کی باقیات کے بارے میں بھی بتایا گیا جو شام کے کئی علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور آئندہ کئی دہائیوں تک عوام کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالیں گے۔ 2014ء کے آغاز سے لے کر مارچ 2024 ء تک شامی حکومت نے واپس آنے والے مہاجرین اور بے گھر افراد میں سے کم از کم 4,643افراد کو گرفتار کیا جن میں سے 1,518جبری گمشدگی کا شکار ہوکر لاپتہ ہوگئے جن میں 251بچے اور 214خواتین شامل ہیں۔
شام کی نئی انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ مارچ تک عبوری حکومت کے ذریعے ملک پر حکومت کرے گی اور اس نے ماضی میں کیے جانے والے جنگی جرائم کے بارے میں اپنی سنجیدگی کا اظہار کیا ہے۔ اس نے ایک عدالتی کمیٹی قائم کیا ہے تاکہ حقوقِ انسان کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرے اور نیا آئین مرتب کرنے میں مدد کرے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اس کے پاس ان افسران کے ناموں کی فہرست ہے جو تشدد اور لوگوں کو لاپتہ کرنے میں ملوث ہیں اور ان کی گرفتاری میں مدد کرنے والوں کے لیے انعام کا وعدہ کیا ہے۔
حقوقِ انسانی کی تنظیموں نے نئی حکومت پر اعتماد ظاہر کیا ہے، کیونکہ وہ قتل عام کے ثبوت جمع کرنے کی کوششوں میں سنجیدگی دکھا رہی ہے۔ جب بشار الاسد کا نظام ملک سے فرار ہوا تو اس نے نہ صرف جیلوں کو خالی کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس دفاتر بھی کھول دیے، جہاں ہزاروں دستاویزات اور فائلیں موجود تھیں جن میں فوج اور پولیس کی کارروائیوں کی تفصیلات درج تھیں۔ اس صورتحال نے شامی سول سوسائٹی تنظیموں کو ان دفاتر میں داخل ہونے کا موقع فراہم کیا تاکہ وہ ان دستاویزات کو اکٹھا کر سکیں، جنہیں مستقبل میں جنگی جرائم کے مقدمات میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انٹیلی جنس دفاتر سے شامی مرکز برائے انصاف کو 500,000صفحات پر مشتمل دستاویزات ملی ہیں، جنہیں اس نے محفوظ کیا، تجزیہ کیا۔ تنظیم کے قانونی ڈائریکٹر روجر لو فیلیپس نے بتایا کہ ان فائلوں کو اسدی حکومت کے خلاف یورپ، امریکا اور دیگر عدالتوں کے سامنے مقدمات دائر کرنے کے لیے استعمال بھی کیا جارہا ہے۔
حال ہی میں تنظیم نے اپنی ٹیمیں بھیجیں جن کی قیادت شامیوں نے کی تاکہ وہ حالیہ کھولے گئے دفاتر میں داخل ہو کر زیادہ سے زیادہ دستاویزات کی تصاویر لے سکیں، جنہیں تنظیم انتہائی اہم سمجھتی ہے۔ ان میں سے کچھ دفاتر ایسے ہیں جو ‘تحریر الشام’کی نگرانی میں ہیں، انہوں نے انسانی حقوق اور صحافت کے شعبے میں کام کرنے والے رضاکاروں کو کچھ عرصے تک ان دفاتر میں داخل ہونے کی اجازت دی، لیکن بعد میں انہیں روک دیا۔ دوسری طرف کچھ دفاتر ایسی جگہوں پر واقع ہیں جن پر کوئی نگرانی نہیں ہے، جس کی وجہ سے وہاں موجود ثبوت ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔ فیلیپس اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
‘ہم ان جگہوں پر واپس گئے، جہاں ہم نے پہلی بار داخل ہونے کے ایک دن بعد دوبارہ داخل ہونے کی کوشش کی اور ہمیں معلوم ہوا کہ وہ جگہ جلا دی گئی تھی، کیونکہ کچھ افراد دستاویزات کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور ممکنہ طور پر یہ وہ لوگ ہیں جو اسد کے سابقہ نظام سے تعلق رکھتے ہیں اور انہیں ان دستاویزات کی موجودگی سے پریشانی ہو رہی ہے۔’