اسرائیلی ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) اور اسرائیل کے درمیان غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے ہونے والے مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے۔ اسی دوران اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے مذاکرات میں حصہ لینے کے لیے دوحہ میں ایک وفد بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
عبرانی اخبار “یدیعوت احرونوت” نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ قیدیوں اور زیر حراست افراد کے تبادلے کے معاہدے میں 90 فیصد خلیجیں پہلے ہی ختم ہو چکی ہیں ،تاہم معاہدے کے پہلے سے دوسرے مرحلے تک منتقلی کے حوالے سے اختلافات موجود ہیں۔ قانونی معاہدے کے مسودے پر بھی تنازع ہے اور دونوں فریق اپنی مخصوص آزادی عمل پر اصرار کررہے ہیں۔ ثالث جنگ بندی معاہدے تک پہنچنے اور حماس و اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے لیے نئے اقدامات کر رہے ہیں اور یہ کوششیں اس وقت ہو رہی ہیں جب ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کو اپنا عہدہ سنبھالنے والے ہیں۔
اسرائیلی نشریاتی ادارے نے اطلاع دی ہے کہ قطر نے حماس کی طرف سے اسرائیل کو ایک مثبت پیغام پہنچایا ہے تاکہ مذاکرات میں پیش رفت ہوسکے۔ اس پیغام کا تعلق قیدیوں کی فہرست اور فریقین کے درمیان موجود دیگر اختلافی نکات سے ہے۔ اسرائیلی نشریاتی ادارے کے مطابق وزیر اعظم نیتن یاہو نے حماس کی جانب سے مثبت پیغام موصول ہونے کے بعد وزیر دفاع یسرائیل کاٹس اور مذاکراتی ٹیم کے ساتھ ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا۔ ادھر اسرائیلی چینل 13 نے رپورٹ کیا ہے کہ نیتن یاہو نے مشرق وسطیٰ کے لیے ٹرمپ کے نمائندے اسٹیو وِٹکوف کے ساتھ ملاقات کی ہے۔ اسرائیل کی “والا” ویب سائٹ نے ایک حکومتی عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ ٹرمپ کے نمائندے نے وزیر اعظم نیتن یاہو اور قطری وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی کو اطلاع دی ہے کہ ٹرمپ چند دنوں میں ایک معاہدہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ٹرمپ کے نمائندے نے یہی پیغام نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات کے دوران بھی پہنچایا۔ چینل 12 نے ایک اسرائیلی عہدیدار کے حوالے سے کہا کہ ٹرمپ نے گزشتہ دو دنوں میں اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے معاملے میں ذاتی طور پر مداخلت شروع کر دی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے کہا ہے کہ نیتن یاہو نے وزیر دفاع اور سیکورٹی و عسکری ادارے کے سربراہان کے ساتھ اجلاس منعقد کیا ہے۔ نیتن یاہو نے موساد اور شاباک کے سربراہان، اپنے سیاسی مشیر اور فوج کے نمائندے کو دوحہ جانے کی ہدایت دی ہے۔ امریکی ویب سائٹ “اکسیوس” نے ایک نامعلوم اسرائیلی عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ موساد اور شاباک کے سربراہان اتوار کی رات دوحہ روانہ ہوچکے ہیں تاکہ مذاکراتی عمل میں شمولیت اختیار کر سکیں۔ عہدیدار نے کہا کہ اسرائیلی مذاکراتی ٹیم کے سربراہان کا دوحہ جانا اس بات کا اشارہ ہے کہ معاہدے تک پہنچنے کا امکان روشن ہے۔
دوسری جانب “یروشلم پوسٹ” نے ایک اور اسرائیلی عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ دوحہ میں وفد بھیجنے کا مقصد مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت اور نئے حالات کے جائزہ لینا ہے۔ جمعہ کے روز اسرائیلی چینل “کان” نے بتایا کہ تل ابیب نے قیدیوں کے معاہدے کے دوسرے مرحلے پر مذاکرات کو پہلے مرحلے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھانے پر رضامندی ظاہر کی ہے، تاکہ اس عمل کو جاری رکھا جا سکے اور تمام قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنایا جا سکے۔ حالانکہ معاہدے کے ممکنہ پہلے اور دوسرے مرحلے کی تفصیلات ابھی تک ظاہر نہیں کی گئی ہیں، لیکن اسرائیلی میڈیا، بشمول سرکاری نشریاتی ادارے کے مطابق پہلا مرحلہ بزرگ اور بیمار قیدیوں کی رہائی پر مشتمل ہے، جبکہ دوسرا مرحلہ فوجی قیدیوں کی رہائی پر مبنی ہے. تاہم قطری، مصری اور امریکی ثالثی کے باوجود قیدیوں کے تبادلے کے مذاکرات کئی بار رکاوٹ کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس کی وجہ نیتن یاہو کا اصرار ہے کہ وہ غزہ اور مصر کے درمیان “فلاڈیلفیا راہداری” پر کنٹرول جاری رکھے، غزہ میں رفح کراسنگ کو محدود کرے اور فلسطینی دھڑوں کے جنگجووں کی شمالی غزہ واپسی کو روکنے کے لیے ان کے وسطی غزہ کے نتساریم راستے پر تلاشی کا عمل برقرار رکھے۔
حماس تحریک اپنے ان اصولوں پر اصرار کرتی ہے جو اس نے مذاکرات کے آغاز سے ہی واضح کیے ہیں، جن میں غزہ کی پٹی سے اسرائیل کا مکمل انخلا اور جنگ کا مکمل خاتمہ شامل ہے تاکہ کسی بھی معاہدے کو قبول کیا جا سکے۔ تل ابیب اپنی جیلوں میں 10,300 سے زیادہ فلسطینیوں کو قید رکھے ہوئے ہے، جبکہ یہ اندازہ ہے کہ غزہ کی پٹی میں 99 اسرائیلی قیدی موجود ہیں۔ حماس نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل کی اندھادھند فضائی حملوں میں اس کے زیر حراست درجنوں قیدی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی نشریاتی ادارے کے مطابق موجودہ امریکی انتظامیہ صدر جو بائیڈن کی مدتِ صدارت ختم ہونے سے پہلے ایک معاہدے تک پہنچنے کے لیے کوشاں ہے۔ اسرائیل اور حماس ابتدائی طور پر اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ پہلے مرحلے پر عمل درآمد کے ساتھ ہی دوسرے مرحلے کے مذاکرات کیے جائیں گے۔
فریقین نے مستقل جنگ بندی کے امکان پر بھی تبادلہ خیال کیا ہے، جس کا مقصد معاہدے کے تمام مراحل میں تسلسل برقرار رکھنا اور تمام قیدیوں کی رہائی تک پہنچنا ہے۔ اسی تناظر میں، وائٹ ہاوس کے کمیونیکیشن مشیر جون کربی نے کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے غزہ میں جنگ بندی مذاکرات کے حوالے سے اپنی مذاکراتی ٹیم سے بات چیت کی ہے۔ کربی کے مطابق غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے سخت محنت کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات دوحہ میں جاری ہیں اور کچھ پیش رفت ہوئی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کام مکمل ہو گیا ہے۔ کربی نے اس بات پر زور دیا کہ واشنگٹن بائیڈن کی صدارت ختم ہونے سے پہلے معاہدے تک پہنچنا چاہتا ہے، لیکن اب تک کسی معاہدے پر نہ پہنچنے کی وجہ بقول ان کے حماس کی جانب سے رکاوٹیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس کا موقف معاہدے تک پہنچنے کو مشکل بنا رہا ہے۔ جبکہ قطری وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ وزیر اعظم اور وزیرخارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے دوحہ میں امریکی صدر منتخب ڈونلڈ ٹرمپ کے نمائندے اسٹیو وائٹکوف سے ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات کے دوران خاص طور پر غزہ میں جنگ بندی کے لیے جاری کوششوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اسی تناظر میں، امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈائریکٹر ولیم برنز نے کہا کہ غزہ کے حوالے سے معاہدہ کرنے کا موقع اب بھی موجود ہے تاہم کچھ مشکلات ضرور ہیں۔ ہم 20 جنوری تک غزہ کے حوالے سے معاہدہ کرنے کے لیے کوشش کریں گے۔ اسرائیلی یرغمالیوں کے ساتھ غزہ کے شہری بھی مشکل حالات سے گزر رہے ہیں، خاص طور پر سردیوں کے موسم میں۔ اس لیے اب معاہدے تک پہنچنے کا وقت آ گیا ہے۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے کہا کہ حالیہ مذاکرات بہت سنجیدہ ہیں اور کم از کم آنے والے چند ہفتوں میں معاہدہ مکمل ہونے کا امکان فراہم کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے اسرائیل امریکی حمایت کے ساتھ غزہ کی پٹی میں نسل کشی کر رہا ہے، جس میں 155,000 سے زائد فلسطینی شہید اور زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ 11,000 سے زیادہ افراد لاپتہ ہیں جبکہ غزہ کی پٹی کو وسیع پیمانے پر تباہی اور مہلک قحط کا سامنا ہے۔
