وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ بلی آخر تھیلے سے باہر آہی گئی۔ گریٹر اسرائیل کے نقشے کا باقاعدہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے جاری کر دیا ہے، جس میں شام، مصر، لبنان اور اردن سمیت کئی علاقے شامل ہیں۔ اس نقشے کو جاری کرنے کا مقصد یہودیوں کے اس بے بنیاد دعویٰ کا اعادہ کرنا ہے کہ فلسطین، شام، لبنان، عراق اور شمالی حجاز پر مشتمل یہ خطہ تاریخی طور پر ”عظیم تر اسرائیل“ کا حصہ ہے اور غزہ کو تباہ کرنے کے بعد اسرائیل نیتن یاہو کی قیادت میں گریٹر اسرائیل کے قیام کی جانب گامزن ہے۔ عرب ممالک کی جانب سے صرف مذمتی بیانات جاری کئے جا رہے ہیں، سعودی عرب نے اسرائیلی نقشے کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا۔ سعودی وزارتِ خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے نام نہاد گریٹر اسرائیل کے متنازع نقشے جاری کیے ہیں جوکہ علاقائی ممالک کی آزادی و خود مختاری پر حملہ ہے۔ اسی طرح کے نمائشی بیانات قطر، اردن اور مصر کی حکومتوں کی جانب سے بھی سامنے آئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ کی گذشتہ حکومت میں عرب ممالک کی رضامندی سے ڈیل آف سینچری کا اعلان کیا گیا تھا، تو یہ عرب ممالک کیوں نہیں سمجھے؟ کیا عرب ممالک کا یہ خیال تھا کہ غزہ میں فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر خاموش رہ کر وہ یہود و نصاریٰ کے گٹھ جوڑ کو راضی کرسکیں گے؟ عظیم اسرائیل آج کا نہیں یہودیوں کا صدیوں سے منصوبہ ہے اور جس پر عمل کرنے کا وقت ان کے نزدیک آچکا ہے، یاد رہے عظیم اسرائیل کے نقشے میں مدینہ منورہ سے باہر خیبر تک کی زمین شامل ہے۔ کیا سعودی عرب کے صرف بیان جاری کرنے سے اسرائیل اپنے عزائم سے باز آجائے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر عرب ممالک اب بھی خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوئے اور اسرائیل کی مزاحمت نہیں کی تو صہیونی لابی ان ممالک پر بھی چڑھائی کرنے میں دیر نہیں کرے گی۔
نام نہاد ڈیل آف دی سینچری فلسطین کا سودا تو کیا تھا، اس کے خلاف اس وقت بھی مسلمان عوام احتجاج کیا اور آج بھی کریںگے۔ عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس میں اسے وقت بھی اسے مسترد کیا تھا اور آج بھی شاید اجلاس بلا کر کیا جائے، لیکن کیا ان پانچ برسوں میں اسرائیل اپنے منصوبوں اور ارادوں سے باز آیا ہے؟ یا اس نے آگے بڑھ کر اپنے آپ کو مضبوط کیا ہے۔ حالیہ خبر کے مطابق امریکا نے اسرائیل کے لیے مزید دس ارب ڈالر مالیت کے اسلحے کی منظوری دے دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب جبکہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے بات چیت ہو رہی ہے، اسرائیل کو ہتھیاروں کی نئی بھاری کھیپ کس مقصد کے لیے دی جارہی ہے؟ ایسا تو نہیں کہ یہ اسی گریٹر اسرائیل منصوبے کی تکمیل کا پروگرام ہو؟ اگر ایسا ہے تو یہ پورے مشرق وسطیٰ کو جنگ کی آگ میں جھونکنے کے مترادف ہوگا۔ ٹرمپ کے گزشتہ دور حکومت میں اقوام متحدہ کا ایک رکن یہ کہنے پر مجبور ہوگیا تھے، کہ ٹرمپ ”امن منصوبے“ سے تشدد بڑے گا۔
آج ایک بار پھر ڈونلڈ ٹرمپ کی دور اقتدار شروع ہونے کو ہے، کیا یہودی اسی کا انتظار کر رہے تھے؟ کہ ایک بار پھر ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں آکر ان کی راہ ہموار کرے؟ کیا عرب ممالک اور مسلم حکمرانوں کی اکثریت اس پر راضی ہو چکی؟ یا بزدلی کی وجہ سے جواب دینے سے قاصر ہے۔
بیس جنوری کے امریکی صدر کا حلف اٹھانے کے بعد ایسا محسوس ہو رہا ہے یہودی لابی کی مرضی کے فیصلے ہوںگے، امریکی صدر دیوانہ نہیں، اسے کئی اہم مسئلوں کو حل کرنے کے لیے یہودی لابی ہی اقتدار میں لائی ہے، بہت سے لبرل دانش فروشوں نے اسے سنکی کہا، نفسیاتی مریض کہا، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ گذشتہ دور حکومت میں بھی یہودی لابی کے منصوبوں کو پروان چڑھانے میں مگن رہا، اور اب بھی وہ یہی کرے گا۔ وہ اپنے اس کارنامے کو ڈیل آف دی سینچری کے عنوان سے مکمل کرنے کی کوشش کرے گا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ سب منصوبہ بندی سے ہو رہا ہے، جس میں چند ممالک شاید امریکی منصوبے کا ساتھ دے رہے ہیں، لیکن یہ ان کے مستقبل کے لیے خطرناک ہے، اردن شام مصر کے بعد ان کی باری لگ سکتی ہے، اگر وہ یہی سمجھتے رہے کہ ہم محفوظ ہیں۔
مسلم امہ کے نزدیک بیت المقدس برائے فروخت نہیں۔ یہ ایک سازشی منصوبہ ہے جو کامیاب نہیں ہو گا۔ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کو اس منصوبے کا جائزہ لینے کے لیے فوری اجلاس بلانا چاہئے اور فلسطینی مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مشترکہ لائحہ عمل کا اعلان کرنا چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عرب لیگ اور او آئی سی اس پر سخت اور عملی قدم اٹھائے گی، یا صرف مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجتی کے مظاہرے کیے جاتے رہیں گے؟
مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد اقصی یہودیوں کے قبضے میں ہے، گریٹر اسرائیل کے اعلان کے بعد اس کے حساب کو چکتا کرنے کا وقت آگیا ہے، مسجداقصیٰ مظلومیت کا حساب مانگ رہی ہے، غزہ فلسطین کی مقدس سرزمین لاشوں سے بھر چکی ہے جو امت مسلمہ کی بے حسی کا نتیجہ ہے، آج ہر طرف سے مسلمانوں پر یلغار ہے اور مسلمان مغرب کی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں اور بے بسی سے تماشہ دیکھ رہے ہیں، جبکہ یہودیوں سے جنگ لڑنا اٹل ہے مگر تیاری نہیںہے۔
دوسری طرف جنگ کا طبل بج چکا ہے، امت مسلمہ کے بقا و تحفظ کا سوال ہے۔ وہ بیت المقدس جسے سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے صلیبیوں سے آزاد کرایا تھا آج صہونیت کے پنجے میں ہے، اگر ان کا بس چلے تو اس کو شہید کرنے میں دیر نہ لگائیں اور اگر ہماری یہی حالت رہی تو اسرائیل اسے گرانے میں دیر نہیں کرے گا، کیونکہ ان کا مذہبی عقیدہ ہے کہ اس جگہ ہیکل سیلمانی تعمیر کرنا لازمی ہے۔ اس کے بعد ہی دنیا میں یہودیوں کو طاقت اور عزت ملے گی۔ گریٹر اسرائیل یا آزاد فلسطین فیصلہ ہم نے کرنا ہے، قومیں فیصلہ کرنے میں دیر نہیں کرتیں کیونکہ تاخیر کبھی قوموں کی تقدیر بدل دیتی ہے۔
مغرب اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اور مغربی ممالک کو اگر اسرئیل کے دفاع کی فکر ہے، تومسلم ممالک کو حماس اور فلسطین کی مدد کا پورا حق حاصل ہے، اور اپنے دفاع کے لیے کھل کر سامنے آنا ہوگا۔ جب ان کے ہاں اس مسئلے پر دو رائے نہیں تو پھر عرب اور مسلم حکمران شرمندہ اور چپ کیوں ہیں؟ یہ تو عملاً ثقافت اور آزادی کے نام پر فحاشی اور عریانی کو فرو غ دے رہے ہیں، آج شام، یمن عراق میں جنگوں میں تباہ ہوگئے ہیں، کل رہ جانے والوں کی باری ہے۔
