شام میں عرب اسپرنگ نامی تحریک کی 13 برس بعد کامیابی نے علاقائی ممالک کے حکمرانوں کی تشویش میں اضافہ کردیا ہے۔ شام میں آٹھ دسمبر کو صدر بشارالاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد مشرقِ وسطیٰ کے اسلامی ممالک کے حکومتی ایوانوں میں اس تبدیلی کو نہایت غور کے ساتھ دیکھا جارہا ہے۔
عبرانی میڈیا نے بھی اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہاہے کہ بعض عرب ممالک اس تبدیلی پر غیرمعمولی پریشان اور تشویش کا شکار ہیں۔ ان ممالک میں مصر کا نام سرفہرست ہے جنہیں بجا طور پر خطرہ ہے کہ شامی تبدیلی سے ان کے اقتدار کے لیے بھی خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔

اسرائیلی خاتون رائٹر سمدار بیری نے لکھا ہے کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے اور ہیئة تحریر الشام کے برسراقتدار آنے کے مرحلے کو مصری قیادت انتہائی اہتمام اور تشویش کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔ یدیعوت احرونوت میں شائع ہونے والے اس تجربے کے مطابق مصری حکام کو خدشہ ہے کہ دمشق میں آنے والی تبدیلی سے مصری اسلام پسند جماعتوں میں امید کی لہر دوڑ سکتی ہے اور وہ دوبارہ اپنے چھینے ہوئے اقتدار تک رسائی کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق مصری حکومت نے نہ صرف بشار الاسد کے سقوط پر خوشیاں منانے والے شامی تارکین وطن کی بڑی کو حراست میں لیاہے بلکہ شام سے آنے والے شامیوں کی نگرانی اور تفتیش بھی بہت سخت کردی ہے۔ اسرائیلی جریدے کے مطابق مصر کی سیکورٹی سروسز ، انٹیلی جنس اداروں ،پولیس اور ائیر انٹیلی جنس کی سیکورٹی ذمہ داروں کی یومیہ بنیادوں پر قاہرہ میں جنرل انٹیلی جنس ہیڈ کوارٹر میں میٹنگز منعقد ہوتی ہیں جن میں شام میں آنے والی تبدیلی کو ڈسکس کیا جارہاہے۔
جریدے کے مطابق دمشق میں اپوزیشن کی رسائی اور بشار الاسد کے فرار کے بعد جنرل السیسی نے لب ولہجہ تبدیل کیا اور کہا کہ وہ دمشق میں پیدا ہونے والی نئی صورت کا بغور جائزہ لیں گے۔عبرانی میڈیا کے مطابق مصر میں اس وقت متعدد ایشوز ہیں جو کسی بھی وقت جنرل السیسی کی مضبوط حکومت کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ مصر کے خراب معاشی حالات، پھیلتی ہوئی غربت ، مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح، قرضوں کا بوجھ اور ایسے میں مصری صدر عبدالفتاح السیسی کے شاندار محلات عوامی سطح پر زیر بحث ہیں۔ یہ وہ سلگتے ہوئے موضوعات ہیں جو کسی بھی وقت چنگاری بن کر شعلہ بن سکتے ہیں۔
دمشق میں بشارالاسد کے سقوط کے بعد اسرائیلی آرمی چیف ہرتسیلی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں شاباک کے سربراہ نے مصر کا دورہ کیا، جس کے بارے میں اسرائیلی جریدے معاریف نے دعویٰ کیا تھا کہ اس دورے کا مقصد مصری حکام کو دمشق میں آنے والی تبدیلی سے خوفزدہ ہوکر اسرائیل سے مدد لینا تھا۔ اسرائیلی رائٹر افی اشکنازی کے مطابق عرب اسپرنگ عرب حکمرانوں کی کمزوری کو بے نقاب کررہی ہے جبکہ اس کے برعکس اسرائیل نے عرب اسپرنگ سے مفادات سمیٹے ہیں۔ اسرائیل نے فضائیہ اور بحری فورسز کو متحرک کرکے شام میں آنے والی تبدیلی سے فایدہ اٹھایا ہے۔ اسرائیل اپنی علاقائی عسکری انفرادیت اور الگ قوت کا اظہار کرچکا ہے جبکہ اس کے برعکس عرب ممالک کی حکومتیں اور حکمران اس تبدیلی سے شدید خوفزدہ ہیں۔ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی صورت میں پناہ کی تلاش میں ہیں۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق شام کے بعد اُردن، عراق، لبنان اور کویت کے ساتھ سعودی عرب میں بھی تبدیلی کی لہر دوڑنے کا خطرہ ہے، جس سے ان ممالک کی حکومتیں شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔ خیال رہے کہ مصری حکام نہ صرف بشار الاسد کے وزیرخارجہ کے ساتھ آخر وقت تک رابطے میں رہیں بلکہ دمشق میں تبدیلی کے تین ہفتے بعد مصری حکام نے دمشق کی نئی انتظامیہ کے ساتھ رابطہ کیا۔ اس دوران سعودی عرب، کویت، قطر اور خلیج تعاون کونسل نے اپنے وفود دمشق بھیجے جبکہ شامی وزیر خارجہ کو ریاض، دوحہ اور ابوظہبی کے دوروں کی دعوتیں دی گئیں لیکن مصر اس حوالے سے خاموش ہی رہا ہے جس سے مصری صدر اور اداروں کی تشویش کے بارے پتہ چلتا ہے۔