فلسطینیوں کی نسل کشی کے مجرم صہیونی فوجیوں کا دنیا بھر میں تعاقب جاری ہے۔ ملک سے باہر جانے والے اسرائیلی فوجیوں پر نسل کشی کے پرچے کاٹنے کی کارروائی میں شدت آگئی ہے۔ برازیل، سری لنکا، تھائی لینڈ، بیلجیم، ہالینڈ، سربیا، آئرلینڈ، (یونانی) قبرص، جنوبی افریقہ اور فرانس میں ایک درجن سپاہیوں کے خلاف مقدمے درج کرادیے گئے ہیں۔
اسرائیلی فوج کی ایڈووکیٹ جنرل اور وزارت خارجہ نے معاملات سے نمٹنے کے لیے ٹاسک فورس قائم کردی ہے۔ رواں ہفتے ایک اسرائیلی فوجی کے بارے میں برازیلی حکام کو معلوم ہوا کہ وہ چھٹیاں منانے ان کے ملک میں آیا ہوا ہے۔ حکام نے فوراً ہی پولیس کو حکم دیا کہ اسے گرفتار کرلیا جائے مگر وہ مجرم جلد ہی برازیل سے فرار ہوگیا۔ یوں غزہ کے بچوں کا خون ہر جگہ اسرائیلی فوجیوں کا پیچھا کر رہا ہے۔ اسرائیلی قابض فوج کے افسران دنیا کے کئی ممالک میں قانونی کارروائیوں کا سامنا کر رہے ہیں، جو غزہ کی پٹی میں جنگی جرائم کے ارتکاب پر مبنی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ایک اہم قدم ہے جو قابض حکومت کو روکنے اور قانونی احتساب کے دائرے میں لانے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ برازیل کی عدلیہ نے ایک فوری حکم جاری کرتے ہوئے پولیس کو ہدایت دی کہ وہ ایک اسرائیلی فوجی کو گرفتار کرے اور اس سے غزہ میں کیے گئے جرائم کے الزامات کے حوالے سے تحقیقات کرے۔ یہ حکم ایک حقوقی تنظیم کی جانب سے دائر کی گئی فوجداری شکایت کی بنیاد پر جاری کیا گیا۔
بین الاقوامی قانون کے پروفیسر اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کے سابق سربراہ ڈاکٹر ولیم شاباس نے اسرائیلی فوجیوں اور افسران کے خلاف جاری قانونی کارروائیوں کو ’مثبت اور خوش آئند پیش رفت‘ قرار دیا۔ انہوں نے پیش گوئی کی کہ یہ کارروائیاں اسرائیل کے دوست ممالک میں بھی جاری رہیں گی۔ شاباس نے کہا کہ قانونی مقدمات اسرائیل پر دباو بڑھانے میں مددگار ہیں اور یہ سلسلہ غزہ جنگ ختم ہونے کے باوجود بھی جاری رہے گا۔
بین الاقوامی قانون اس نوعیت کے جرائم پر معافی دینے کی اجازت نہیں دیتا جو اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف غزہ میں کیے جا رہے ہیں۔ بین الاقوامی قانون کے پروفیسر کا کہنا ہے کہ یہ امکان بہت کم ہے کہ اسرائیل اپنے ان فوجیوں اور افسران کو تحفظ فراہم کر سکے جو غزہ کی پٹی میں جنگی جرائم اور نسل کشی جیسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کا عدالتی نظام ناقابل اعتبار ہے۔ اس حوالے سے اسرائیلی امور کے ماہر اور اکیڈمک ڈاکٹر مہند مصطفی نے کہا کہ صہیونی فوجیوں کے خلاف بین الاقوامی قانونی کارروائیاں اسرائیل کے لیے ایک بڑا خدشہ بن گئی ہیں، خاص طور پر اس لیے کہ یہ کارروائیاں کئی معاملات کو منظر عام پر لا سکتی ہیں، جن میں اسرائیلی عدلیہ میں احتساب اور مقدمات کی کمی اور ان فوجیوں کے دفاع میں حکومت کی ناکامی شامل ہے۔ اسرائیلیوں کو یہ بھی خدشہ ہے کہ یہ قانونی کارروائیاں صرف فوجیوں تک محدود نہیں رہیں گی بلکہ افسران اور سیاستدانوں کو بھی نشانہ بنائیں گی۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پاس کچھ خفیہ وارنٹ موجود ہیں جنہیں ابھی تک ظاہر نہیں کیا گیا۔
22 نومبر کو بین الاقوامی فوجداری عدالت نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوآف گالانٹ کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے۔ اسرائیل کی کوشش ہے کہ کسی طرح ان فوجیوں کا دفاع کیا جائے۔ بین الاقوامی اُمور کے ماہر اور مصنف حسام شاکر کے مطابق قابض فوج کے فوجیوں کے خلاف کچھ ممالک کی جانب سے کی جانے والی قانونی کارروائیاں اسرائیل پر بہت بڑا اثر ڈالیں گی۔ شاکر نے کہا کہ برازیل اور اس سے پہلے سری لنکا کی کارروائیاں قابض حکومت کے لیے ایک نئے مرحلے کی شروعات ہیں اور اس کے منصوبے کے خاتمے کی نشانی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں سرگرم ہیں اور انہوں نے ایسے طریقہ کار تشکیل دیے ہیں جو قابض فوجیوں اور افسران کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لینے، ان کے نام درج کرنے اور ان کی عالمی نقل و حرکت کو ٹریک کرنے کے لیے مختص ہیں۔ ان قانونی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہے گا اور قابض حکومت اور اس کے فوجی اس سے بچ نہیں سکیں گے۔

متعدد ممالک میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے اعلان کیا ہے کہ وہ ان اسرائیلی فوجیوں کے بارے میں معلومات جمع کر رہی ہیں جنہوں نے غزہ میں جرائم کرتے ہوئے اپنی ویڈیوز خود اپ لوڈ کیں۔ ان معلومات کو بنیاد بناکر مقامی حکام سے ان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اسرائیلی اخبار ’اسرائیل ہیوم‘ نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کی ماوں نے وزیر اعظم نیتن یاہو اور چیف آف اسٹاف ہرزی ہلیوی کو ایک سخت پیغام بھیجا ہے، جس میں انہوں نے اپنے بیٹوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری ان پر عائد کی ہے۔ پیغام میں کہا گیا ہے: ’فوج ایک طویل جنگ میں مصروف ہے، جس نے انتہاپسندانہ خیالات کو اندر سرایت کرنے کا موقع دیا ہے۔ ماوں نے بارہا بین الاقوامی عدالتوں کے خطرے سے خبردار کیا ہے، جو ان کے بیٹوں کو لاحق ہے، لیکن حکومت نے ان کے تحفظ کے لیے کافی اقدامات نہیں کیے۔‘ پیغام میں یہ بھی کہا گیا کہ ریزرو فوج کے کمانڈروں نے فوجیوں کی اسرائیل کے باہر گرفتاری کے خطرے سے خبردار کیا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب اسرائیلی عدالتی نظام کی خودمختاری کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
انسانی حقوق کی ان تنظیموں میں ’ہند رجب فاﺅنڈیشن‘ بھی ہے۔ اس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے 8 ممالک میں دوہری شہریت رکھنے والے 1000 اسرائیلی فوجیوں کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کی درخواست دی ہے، لیکن ان کے نام ظاہر نہیں کیے گئے، تاکہ وہ گرفتاری سے بچنے کے لیے محتاط نہ ہوں۔ ان میں سے ایک فوجی برازیل میں تھا جس کا کیس اتوار کے روز خبروں کی سرخیوں میں رہا۔ اخبار نے اپنے صحافیوں ایتمار آئشنر اور رئی روبنشتائن کے قلم سے شائع ہونے والی رپورٹ میں وضاحت کی ہے کہ اس فاونڈیشن کے اقدامات اسرائیلی فوجیوں کو درپیش بڑھتے ہوئے عالمی قانونی خطرات کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان ہی خطرات کے تحت اسرائیل نے فوری ردعمل دیا اور برازیل میں موجود ایک اسرائیلی فوجی کو تیزی سے نکال لیا جب کہ ’ہند رجب فاونڈیشن‘ نے اس کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی۔ اس فوجی پر جنگی جرائم کے ارتکاب کا شبہ ہے۔ ’ہند رجب فاونڈیشن‘ جو بیرون ملک اسرائیلی فوجیوں کو ہدف بناتی ہے نے جونیئر فوجی کا نام ظاہر کرنے سے گریز کیا تاکہ اسرائیلی حکام اسے خبردار نہ کرسکیں۔ تاہم وزیرخارجہ گدعون ساعر اور اعلیٰ حکام نے فوج کے ساتھ مل کر اس کی شناخت کے لیے مربوط کوشش کی۔ چند گھنٹوں کے اندر قونصل خانے اور اس کے اہل خانہ نے اس سے رابطہ کیا کہ فوری طور پر اسے برازیل چھوڑنا ضروری ہے۔
یہ فوجی جو ایک چھوٹے گروپ کے ساتھ سفر کر رہا تھا، اگلی صبح برازیل سے فضائی راستے سے نکالا گیا، کیونکہ فاونڈیشن کی کوششوں نے اس کے قانونی مسائل کے حوالے سے خدشات میں اضافہ کر دیا تھا۔ یہ فوجی اور اس کے کچھ ساتھیوں کو ایک دوسرے ملک منتقل کیا گیا۔ اسرائیلی حکام نے اس بات پر زور دیا کہ ایسی صورتحال میں غیر ضروری خطرات سے بچنا اہم ہے۔ انہوں نے فوج کے اہلکاروں پر زور دیا کہ وہ سوشل میڈیا پر پوسٹس کے حوالے سے محتاط رہیں، کیونکہ یہ بیرون ملک قانونی پیچیدگیوں کا سبب بن سکتی ہیں۔ ہند رجب فاونڈیشن فروری 2024 ءمیں فلسطینی کارکنوں نے برسلز میں قائم کی۔ اس کا نام ایک فلسطینی لڑکی کے نام پر رکھا گیا جسے اسرائیلی فوج نے جنوری 2023 ءمیں غزہ میں قتل کیا تھا۔ یہ فاو¿نڈیشن وسیع تر تحریک’30 مارچ ‘سے وابستہ ہے اور اس کا مشن اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف کیے گئے جنگی جرائم پر انصاف کا حصول ہے۔