نئی دہلی/ ہریانہ(اسلام ڈیجیٹل)بنگلہ دیش میں حکومت کی تبدیلی کے بعد اس کا منفی اثر بھارت میں نظر آ رہا ہے۔ انتہا پسند ہندو تنظیموں نے بنگلہ دیش میں اقلیتوں ہندووں کے ساتھ زیادتی کا الزام عائد کرتے ہوئے ملک کے غریب مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
بنگلہ دیشیوں اور روہنگیا مسلمانوں کے نام پر متعدد ریاستوں میں مسلمانوں کو پریشان کیا جا رہا ہے ۔ نئی دہلی میں جھگی بستی میں رہنے والے بنگالی اور آسامی بولنے والے مسلمانوں کو تصدیق نے نام پر ہراساں کیا جا رہا ہے۔اب دہلی کے سرکاری اسکولوں کو بنگلہ دیشی طلبا کی شناخت کی ہدایت دی گئی ہے۔
:یہ بھی پڑھیے
ہریانہ میں بھی روہنگیا مسلمانوں کی شناخت کی تصدیق کے لیے حکومت نے 12جنوری کی تاریخ مقرر کی ہے جس کے بعد تنازع شروع ہو گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق نوح جیسے اضلاع میں روہنگیا مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا حوالہ دیتے ہوئے حکام کا دعوی ہے کہ یہ اقدام حفاظتی اقدام ہے۔ ہریانہ کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، کارتیکیہ شرما نے کہا، “یہ تصدیق عوامی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔ تاہم، روہنگیا کو مجرمانہ یا ملک مخالف سرگرمیوں سے جوڑنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیا گیا ہے، جس سے تعصب کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں ۔یہ کارروائی در اصل آر ایس ایس کی اپیل اور دباو پر کی جا رہی ہے۔
حالیہ دنوں میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے ہریانہ سے روہنگیا مسلمانوں کو بے دخل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ اقدام ان گروپوں کے دبا سے مطابقت رکھتا ہے جن کا مقصد ہندو ووٹروں کی بنیادوں کو مضبوط کرنا ہے۔دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ تقریبا 2,000 روہنگیا مسلمان ریواڑی، مہندر گڑھ، نوح اور فرید آباد جیسے اضلاع میں آباد ہیں، گزشتہ ایک دہائی کے دوران مقامی برادریوں میں ضم ہو گئے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے پاس شناختی دستاویزات ہیں جیسے آدھار اور راشن کارڈ۔حکومت کی اس کارروائی پر ایک روہنگیا باشندے عبدالکریم نے اپنے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ہم تشدد سے بچنے کے لیے میانمار سے بھاگ کر آئے۔ اب یہاں ہمارے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ ہم صرف امن سے رہنا چاہتے ہیں۔