غزہ جنگ کے 450 دن۔ کیا کھویا کیا پایا، ابو صوفیہ چترالی

20 دسمبر 2024 ءکو امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے صحافی ایلیوٹ کوفمین کے ساتھ کیے گئے ایک انٹرویو میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنی جنگ کے نتائج کے بارے میں شیخی بگھارتے ہوئے کہا: ”ایران نے شام میں شاید 30 ارب ڈالر خرچ کیے، لبنان میں مزید 20 ارب ڈالر اور خدا ہی جانتا ہے کہ حماس پر کتنے ارب خرچ کیے اور یہ سب ضائع ہوگیا۔“

حزب اللہ کے خلاف 17 ستمبر 2024ء کو کیے گئے بیجر حملوں کے بارے میں اُس نے کہا: ”کچھ لوگ اس ہتھیار کے استعمال کے بارے میں شکوک رکھتے تھے لیکن وقت کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے اس کا استعمال کیا۔ نتیجہ ایک تاریخی صدمہ اور خوف تھا اور یہ تاریخ کا سب سے عظیم ’سرجیکل اسٹرائیک‘ تھا۔“ 7 اکتوبر 2023ء کو غزہ سے شروع ہونے والے فلسطینی مزاحمتی حملے کے جواب میں نیتن یاہو نے کہا: ”9 اکتوبر کو میں نے غزہ کے قریب کے علاقوں کی کمیونٹی رہنماوں سے کہا: آپ سے صبر کی درخواست کرتا ہوں کیونکہ ہم مشرق وسطیٰ کو بدلنے جا رہے ہیں اور چند مہینوں میں ہم نے یہ کر دکھایا۔“

٭نیتن یاہو کی اَنا کی جنگ کے نتائج: 15 مہینے تک مختلف محاذوں پر جاری رہنے والی جنگ کے نتائج کا اندازہ لگاتے ہوئے نیتن یاہو نے امریکی اخبار کے انٹرویو میں اسرائیل کی جانب سے ادا کی جانے والی بھاری قیمتوں کو نظرانداز کیا۔ اسرائیلی معلومات کے مطابق اِن جنگوں نے اسرائیل کے کئی اہم منصوبوں کو متاثر کیا جن میں دنیا بھر کے یہودیوں کو متحد کرنے کی کوشش شامل ہے۔ اکتوبر 2024ء تک اسرائیل چھوڑنے والے یہودیوں کی تعداد 6 لاکھ تک پہنچ چکی تھی جیسا کہ اسرائیل کی وزارت داخلہ کی ہاوئسنگ اور امیگریشن اتھارٹی نے رپورٹ کیا۔

اسٹیٹ آف دی یونین خطاب – بابر ستار

٭بن گوریون ایئرپورٹ پر افراتفری: 7 اکتوبر 2023ء کے حماس کے حیران کن حملوں کے بعد تل ابیب کے قریب بن گوریون ایئرپورٹ پر پروازیں منسوخ ہونے کی وجہ سے شدید خلل پڑا۔ امریکن ایئر لائنز، ایمریٹس، لفتھانسا اور راین ایئر جیسی ایئرلائنز نے اپنی پروازیں منسوخ کر دیں، جس سے مسافر اپنی روانگی کے شیڈول پر پریشان نظر آئے۔ پہلی بار 1948ء کی نکبہ اور اسرائیل کے قیام کے بعد اس نوعیت کی ہجرت دیکھنے میں آئی۔ یروشلم پوسٹ کے مطابق یہ افراد اپنے ساتھ اپنی دولت، تعلیمی اسناد اور پیشہ ورانہ مہارتیں بھی لے گئے۔ اخبار نے اس صورتحال کو ’تلخ حقیقت‘ قرار دیا۔ مزید برآں ہارٹز نے 14 نومبر 2024ء کو کینیڈین امیگریشن انتظامیہ سے نقل کیا کہ اس سال اب تک تقریباً 8,000 اسرائیلیوں کو کینیڈا کے عارضی ورک ویزے مل چکے ہیں جو 2023ء کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے۔اسرائیلی حکومت کے ایک سرکاری ادارے کے غیر معمولی اعداد و شمار کے مطابق مشہور اسرائیلی مٓورخ اور صیہونیت مخالف مفکر ایلان پاپے نے اشارہ دیا کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد اسرائیل چھوڑنے والے افراد کی تعداد تقریباً 7 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ یہ بیان پاپے نے 16 نومبر 2024ء کو اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ میں منعقدہ ایک سیمینار کے دوران دیا جو اسپین کی تنظیم ”کاسا عاربے“ نے ترتیب دیا تھا۔ ایلان پاپے جو کتاب ’فلسطین میں نسلی تطہیر‘ کے مصنف بھی ہیں، نے کہا: ”کئی اسرائیلیوں نے ملک چھوڑ دیا ہے۔ ہمارے پاس سرکاری اعداد و شمار نہیں ہیں، کیونکہ شماریاتی دفتر ان اعداد و شمار کو ظاہر نہیں کرے گا۔ لیکن ہمارے ذرائع موجود ہیں اور ہمارا خیال ہے کہ 7 لاکھ کے قریب تعداد حقیقت کے بہت قریب ہے۔“

7 اکتوبر کو حماس حملے کے بعد تل ابیب میں ہر طرف تباہی پھیلی ہوئی ہے

٭پناہ گزینوں کی تعداد:نیتن یاہو نے جن لوگوں کو صبر کرنے کی تاکید کی تھی اُن کے بارے میں اسرائیلی پارلیمنٹ کے مرکز معلومات و علم کے مطابق 2024ء کے دوران جنگ کی وجہ سے اپنے گھروں اور شہروں سے یہ سب بے دخل ہوگئے ہیں۔ ان افراد کی تعداد تقریباً ایک لاکھ 43 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 68,500 افراد شمالی علاقوں اور لبنان کی سرحد کے قریب کی بستیوں سے نکالے گئے (جبکہ بین الاقوامی بحران گروپ کے مطابق یہ تعداد 80 ہزار تک ہو سکتی ہے)۔74,500 افراد غزہ کی پٹی کے قریب کی بستیوں سے آئے۔ ان بے گھر افراد کو اسرائیل کے اندر 420 ہوٹلوں میں 100 مختلف شہروں میں رہائش دی گئی۔

٭اسرائیل کی جنگی مشین کا خسارہ:غیر معمولی اور بے مثال جانی نقصانات کے ساتھ اسرائیل کی جنگی مشین نے بھی شدید خسارے کا سامنا کیا۔ اسرائیلی اخبار ’معاریف‘ نے بتایا کہ حزب اللہ کے ساتھ 27 نومبر 2024ء کو جنگ بندی کے معاہدے کو قبول کرنے کے پیچھے اسرائیل کے فوجی حالات بھی اہم وجہ تھے۔ اخبار نے بتایا کیا کہ نیتن یاہو نے جنگ بندی کے معاہدے کو قبول کرنے کے اپنے فیصلے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کو اسلحہ اور سامان کے ذخائر کو دوبارہ تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔

٭چیلنجز اور ضروریات:اخبار کے فوجی رپورٹر آوی اشکنازی نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کے لیے جنگ بندی کے بعد سب سے بڑا چیلنج لبنان میں نہیں بلکہ امریکا اور جرمنی میں ہے۔ اسرائیل کو اپنے فوجی وسائل کا استعمال کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر اسلحہ خریداری کی ضرورت ہے، جیسے کہ طیارے، ہیلی کاپٹر، ٹینک، توپیں، میزائل اور مختلف اقسام کے اسلحے۔

٭اسرائیلی فوج کی مشکلات:آوی اشکنازی کے مطابق اسرائیلی فوجی کے لیے سب سے خطرناک صورت حال ہیلی کاپٹروں کے اسکواڈرن کی تشکیل ہے، خاص طور پر آپاچی ہیلی کاپٹروں کے اسکواڈرن پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ اسلحے کے معاملے میں اسرائیلی فوج مسلسل جو زمینی بم استعمال کر رہی ہے، اس کی قلت کا سامنا ہے۔ آوی اشکنازی نے مزید وضاحت کی کہ فضائیہ کے لڑاکا طیاروں نے جنگ کے دوران ہزاروں گھنٹوں تک پرواز کی، جو اُن کی متوقع عمر اور منصوبہ بندی کردہ استعمال سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام جنگی طیارے نئے ہونے کے باوجود اپنی عمر پوری کر چکے ہیں۔ یہ صورتحال اسرائیل کو مجبور کرے گی کہ وہ نئے اسکواڈرنز کی خریداری کی طرف بڑھے، خاص طور پر ’ایف15‘ اور ’ایف35‘ طیاروں پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔“

اشکنازی نے نشاندہی کی کہ فضائیہ کے تمام جنگی طیارے جنگ کے دوران انتہائی استعمال کی وجہ سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ خاص طور پر، فالکن ’ایف15‘ کے پرانے ماڈل والے اسکواڈرن سب سے زیادہ پیچیدہ صورتحال کا شکار ہیں۔ جنگ کے دوران امریکا نے اسرائیلی فضائیہ کو کچھ استعمال شدہ طیارے فراہم کیے تھے لیکن موجودہ صورتحال میں اسرائیل کو فوری طور پر ان نئے طیاروں کی فراہمی کی ضرورت ہے، جو پہلے تاخیر کا شکار ہوچکے تھے۔‘ یہ تاخیر اسرائیلی وزیر خزانہ بتسلئیل سموتریچ کی جانب سے پیدا ہوئی، جس نے فوج کو جنگی طیاروں سے لیس کرنے کی ضرورت کا مطالعہ کرنے پر زور دیا تھا۔ اس فیصلے نے طیاروں کی خریداری کے عمل کو متاثر کیا، جو اب ایک فوری اور ناگزیر ضرورت بن چکی ہے۔

٭اسرائیل کے جانی نقصانات: اگرچہ جنگی سامان اسرائیل کی برتری کو یقینی بنانے میں اہم ہے، لیکن جنگ کی انسانی قیمت اسرائیل کے سیاسی بیانات میں نمایاں رہی۔ اسرائیلی وزارت دفاع کے اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر کے حملے کے نتیجے میں تقریباً 1163 اسرائیلی فوجی اور شہری ہلاک ہوئے جبکہ 1941 افراد زخمی ہوئے، جن میں سے تقریباً 360 کی حالت نازک یا تشویشناک بتائی گئی۔ اس کے علاوہ درجنوں غیر ملکی شہری بھی ہلاک ہوئے اور 251 افراد کو اغوا کرکے غزہ منتقل کیا گیا، جن میں اسرائیلی فوج کے اہلکار، غیر ملکی شہری اور زیادہ تر اسرائیلی شہری شامل ہیں۔ وزارت کے مطابق حماس کے عسکری ونگ ’القسام بریگیڈ‘ نے حملے کے پہلے دن301 اسرائیلی فوجی ہلاک کیے۔ 55 پولیس اہلکاروں اور10 شاباک (اسرائیلی سیکورٹی ایجنسی) کے اہلکاروں کو ہلاک کیا جبکہ اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کردہ معلومات کے مطابق غزہ کی جنگ کے آغاز سے اب تک816 فوجی اور افسران ہلاک ہوئے جن میں سے 384 زمینی معرکوں میں مارے گئے۔5477 فوجی اور افسران زخمی ہوئے، جن میں سے سیکڑوں کی حالت تشویشناک بتائی گئی۔

٭شمالی محاذ پر نقصانات:لبنان کے ساتھ شمالی محاذ پر، دستیاب معلومات کے مطابق 131 فوجی، شہری اور سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔ دیگر نقصانات کی بات کی جائے تو اسرائیلی وزارت دفاع کے بحالی شعبے کے مطابق ایک سالہ جنگ کے دوران16,000 سے زائد زخمیوں کو بحالی کے شعبے نے خدمات فراہم کیں۔ ان میں 1500 افراد ایسے بھی تھے جو لڑائی کے دوران دو مرتبہ زخمی ہوئے۔7 اکتوبر کے بعد سے، بحالی شعبے سے خدمات حاصل کرنے والے افراد کی تعداد میں 20 فیصد اضافہ ہوا، جس کے بعد شعبے میں رجسٹرڈ کل فوجیوں کی تعداد 74,000 تک پہنچ گئی۔

٭جنگ کی مالی لاگت اور قرضے: مالی پہلو سے اسرائیلی وزارت خزانہ کے محاسب جنرل یہالی روٹنبرگ کے مطابق جنگ کی کل لاگت 106.2 ارب شیکل (تقریباً 29.1 ارب ڈالر) تک پہنچ گئی ہے۔ کچھ اخراجات مستقبل میں ادا کیے جائیں گے جیسے اسلحہ کی خریداری، سپلائرز کی ادائیگی اور تعمیر نو کی لاگت۔ ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے وزارت خزانہ نے بے مثال شرح پر قرضہ لیا ہے۔ اسرائیل کا مجموعی قرضہ 2022 ء کے اختتام پر 1.04 ٹریلین شیکل تھا جو 2024 ء کے دوسرے نصف تک بڑھ کر 1.25 ٹریلین شیکل تک پہنچ گیا۔ بینک آف اسرائیل کے گورنر پروفیسر امیر یارون نے جنگ کی لاگت کے بارے میں زیادہ واضح تخمینہ دیا اور پیش گوئی کی کہ 2025ء تک جنگ کی لاگت 250 ارب شیکل (تقریباً 70 ارب ڈالر) تک پہنچ سکتی ہے۔

٭اسرائیل کے مادی نقصانات:اسرائیلی اخبار یدیعوت احرونوت نے رپورٹ کیا کہ حوثیوں کے حملوں کی وجہ سے ایلات بندرگاہ کی سرگرمیاں معطل ہوگئیں، جس کے نتیجے میں وہاں آنے والے جہازوں کی تعداد میں نمایاں کمی آئی۔ بندرگاہ کے ملازمین کو غیر معاوضہ رخصت پر بھیج دیا گیا۔ اسرائیلی حکام کے مطابق شمالی اسرائیل اور گولان کی پہاڑیوں میں 55 ہزار ایکڑ جنگلات، قدرتی ذخائر، پارکوں اور کھلی زمینوں کو نذر آتش کیا گیا جبکہ سیاحت سے ہونے والی آمدنی میں کمی آئی۔ بیرونی سیاحت سے ہونے والی آمدنی میں تقریباً 18.7 ارب شیکل (5.2 ارب ڈالر) کا نقصان ہوا اور داخلی سیاحت سے ہونے والی آمدنی میں 756 ملین شیکل (210 ملین ڈالر) کی کمی ہوئی، خاص طور پر شمالی علاقوں میں۔

٭کینیڈا اور مشرقی یورپ کی طرف نقل مکانی:اسرائیل کے جنگی نقصانات ان ’اسٹرٹیجک کامیابیوں‘ سے مختلف ہیں جنہیں نیتن یاہو اپنی فتوحات قرار دیتا ہے۔ تاہم ماہرین خاص طور پر یہودیوں کی معکوس ہجرت کے حوالے سے ایک مختلف رائے رکھتے ہیں۔ ماہر اسرائیلی اُمور حلمی موسیٰ کا کہنا ہے: میری معلومات کے مطابق ہاو¿سنگ اور امیگریشن اتھارٹی کے حسابات ان اسرائیلیوں پر مبنی ہوتے ہیں، جو ایک سال یا اس سے زیادہ مدت کے لیے ملک سے غائب رہتے ہیں۔‘ یہ اتھارٹی عام طور پر فرق کرتی ہے: علاج یا تعلیم کے لیے بیرون ملک جانے والوں اور ان خاندانوں کے درمیان جو اپنی مکمل زندگی کا مرکز کسی دوسرے ملک میں منتقل کر لیتے ہیں۔

٭نقل مکانی کے اثرات:حلمی موسیٰ نے مزید کہا: ’یہ عمل ایسے عوامل کے ساتھ جڑا ہوا ہے جیسے گھروں کے کرایہ نامے ختم کرنا، گاڑیاں بیچنا، مقامی ملازمتوں کے معاہدے ختم کرنا یا قومی بیمہ کے ساتھ ترتیب دینا۔ اس کے علاوہ ایسی اطلاعات ہیں کہ کمپنیاں اپنے ہیڈکوارٹرز یا برانچز کو اسرائیل سے باہر منتقل کر رہی ہیں۔ یہ تمام عوامل اسرائیل میں منفی ہجرت کی سالانہ رپورٹ تیار کرتے وقت شمار کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح مثبت ہجرت کے بارے میں بھی معلومات دستیاب ہوتی ہیں، جیسے وہ تنظیمیں جو ہجرت کی مہمات چلاتی ہیں یا وہ محکمے جو نئے مہاجرین کو مراعات فراہم کرتے ہیں۔‘ موسیٰ کے مطابق: کینیڈا خاص طور پر ان مقامات میں شامل ہے جہاں اسرائیل سے بڑی تعداد میں مہاجرین پہنچ رہے ہیں۔ اسی طرح مشرقی یورپ کے وہ ممالک بھی مقبول ہیں جہاں کے شہری ماضی میں اسرائیل ہجرت کر گئے تھے اور اب وہ اپنی شہریت دوبارہ حاصل کر رہے ہیں۔‘ موسیٰ نے کہا کہ یہ فطری بات ہے کہ منفی ہجرت صیہونیت کی ایک اہم قدر کو متاثر کرے۔ اسرائیل میں ہجرت کو ’علیا‘ یعنی صعود یا حج کہا جاتا ہے، جبکہ اسرائیل سے ہجرت کو ’یریدا‘ یعنی زوال یا پستی کہا جاتا ہے۔

٭معاشی اثرات:اسرائیلی اُمور کے ماہر محمد البہنسی نے معکوس ہجرت کی اقتصادی پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’ اگر ہم ان طبقات کا جائزہ لیں جو اسرائیل سے معکوس ہجرت کر رہے ہیں، تو یہ زیادہ تر نوجوان محققین یا سائنسدان ہیں جو اسرائیل میں اپنی قابلیت کو منوانے یا اپنے معاشی منصوبوں کو نافذ کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ اس کے علاوہ وہ ایک محفوظ معاشی ماحول میں رہنے سے قاصر ہیں۔ خاص طور پر اسرائیل میں جاری فوجی تنازعات کے تناظر میں، جیسے کہ غزہ کی جنگ۔ یہ عوامل انہیں مجبور کرتے ہیں کہ وہ دوبارہ ان ممالک کا رخ کریں جو ان کے منصوبوں اور خوابوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جو انہوں نے اسرائیل میں کھو دیے۔‘