علی اکمل تصور
گلی میں آوارہ کتا بھونک رہا تھا۔ اُس کی آواز میں خوف اور غصے کے ملے جلے تاثرات موجود تھے۔ صبیحہ اپنے لحاف میں دبکی کتے کے بھونکنے کی آواز سن رہی تھی۔ اسے تو پہلے ہی نیند نہیں آرہی تھی۔ اب وہ کوشش بھی دَم توڑ چکی تھی جو وہ سونے کے سلسلے میں کررہی تھی۔ صبیحہ کے بائیں طرف چارپائی پر دادی جان آرام کررہی تھیں۔ انھوں نے صبیحہ کی بے چینی بھانپ لی۔
’’صابی! کیا بات ہے؟‘‘ انھوں نے صبیحہ سے پوچھا۔
’’دادی اماں! ڈر لگ رہا ہے۔‘‘
’’بھونکنے کی آواز سے؟‘‘ دادی جان ہنس پڑیں۔
’’جی‘‘صابی نے مختصر جواب دیا، پھر فوراً ہی وہ بولی:
’’دادی اماں! کتا کیوں بھونکتا ہے؟‘‘
’’کتا پالتو ہو یا پھر آوارہ، اس کے بھونکنے کی وجہ دو باتیں ہوتی ہیں۔ پہلی بات، وہ کسی اجنبی کو دیکھ کر بھونکتا ہے، دوسری بات تم نہ ہی جانو تو بہتر ہے۔‘‘
دادی جان کا انداز پراسرار تھا۔
صابی بے چین ہوکر بیٹھ گئی۔ تجسس ویسے بھی بچوں کو پریشان کرتا ہے۔ ہر بات سے آگاہی اُن کی پہلی خواہش ہوتی ہے۔ اب یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ صابی ’’دوسری بات‘‘ نظر انداز کردیتی۔
’’دادی جان! وہ دوسری بات کیاہے؟ اب مجھے ڈر نہیں لگ رہا۔‘‘
صابی نے اصرار کیا تو دادی اماں مسکرانے لگیں۔
’’دوسری بات یہ ہے کہ…‘‘
اپنی بات مکمل کرنے سے پہلے دادی اماں نے چند لمحے انتظار کیا۔ وہ صابی کے تجسس سے لطف اندوز ہورہی تھیں۔
اور اُدھر صابی منہ کھولے دادی اماں کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کررہی تھی۔
’’یہ جو آوارہ اور پالتو کتے ہوتے ہیں ناں۔‘‘ دادی اماں دھیمی آواز میں پراسرار انداز سے بولیں۔ ’’یہ جنات کو دیکھ کر بھی بھونکتے ہیں؟‘‘
دادی اماں کی بات سن کر صابی گھبرا گئی۔
’’ہیں،جنات! مگر وہ ہمیں تو نظر نہیں آتے۔‘‘
’’ہمیں نظر نہیں آتے مگر کتوں کو نظر آتے ہیں۔ جنات اور کتوں کی دشمنی بہت پرانی ہے۔‘‘
’’کیا مطلب! کیا اس حوالے سے کوئی کہانی بھی ہے؟‘‘ صابی کی آنکھیں پھیل گئیں۔
’’ہاں، دلچسپ کہانی ہے۔ میری امی نے مجھے سنائی تھی۔‘‘
اب اِس گفتگو میں دادی اماں کو بھی لطف آرہا تھا۔
’’تو پھر مجھے بھی سنائیں نا!‘‘صابی اپنی چارپائی سے اٹھی اور دادی اماں کے بستر میں گھس آئی۔
دادی اماں سوچ کے گہرے سمندر میں ڈوب چکی تھیں۔ یوں جیسے اپنی امی سے سنی جانے والی کہانی یاد کرنے کی کوشش کررہی ہوں۔
’’دادی جان!‘‘ صابی نے انھیں آواز دی۔
’’ہاں!‘‘ دادی اماں چونک کر بولیں اور پھر یوں گویا ہوئیں:
’’ہاں تو کہانی کچھ یوں ہے کہ کسی گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا۔ یہ کسان بہت غریب تھا۔ کھیتی باڑی میں مدد کے لیے اس کے پاس نہ ہی بیل تھے اور نہ ہی زرعی آلات۔ وہ اپنے ہاتھوں کی محنت سے کھیت تیار کرتا اور ہاتھوں کی مدد ہی سے فصل کاٹتا۔ دن رات کی محنت اور سال بھر کی مشقت کے بعد اُس کے ہاتھ بس مٹھی بھر اناج ہی لگتا۔ روکھی سوکھی کھا کر گزر بسر ہورہی تھی۔
اس کسان کانام مالکو تھا۔ مالکو کی بیوی اور اس کا پالتو کتا نوجہ مالکو کی زندگی کے ہم سفر تھے۔ صبح سویرے مالکو اپنے کھیت میں چلا جاتا۔ جب سورج سر پر پہنچتا تو مالکو کی بیوی اس کے لیے کھانا لے کر کھیتوں میں چلی آتی۔ نوجہ اس کے ساتھ ہوتا۔ مالکو کے کھانا کھانے تک نوجہ کھیتوں میں اٹھکیلیاں کرتا رہتا۔
وہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا۔ مالکو درخت کے سائے میں بیٹھا کھانا کھا رہا تھا، اس کی بیوی اسے دستی پنکھا جھل رہی تھی کہ اچانک انھوں نے نوجہ کے غرانے کی آواز سنی۔ انھوں نے نوجہ کی طرف دیکھا۔
نوجہ کھیت کے کنارے اپنے پنجوں کی مدد سے مٹی کھرچ رہا تھا۔ اب وہ بھونکنے بھی لگا تھا۔
یہ نوجہ کو کیا ہوا؟‘‘
مالکو کی بیوی حیرت سے بولی۔
’’نوجہ نے شاید سانپ دیکھ لیا ہوگا۔‘‘ مالکو لاپروائی سے بولا مگر مالکو کی بیوی اس کا خیال خاطر میں نہیں لائی، وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’چلو چل کر دیکھتے ہیں، ممکن ہے کہ نوجہ کو زمین کے نیچے پوشیدہ خزانے کی بھنک پڑ گئی ہو۔‘‘
’’خزانہ اور ہماری قسمت میں!‘‘ مالکو مایوسی سے بولا۔
’’نوجہ مٹی کھود رہا ہے، مٹی کے نیچے ضرور کچھ ہے۔‘‘
مالکو کی بیوی نوجہ کی طرف لپکی۔ مالکو بھی اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے پیچھے چل دیا۔ مالک کو اپنے قریب دیکھ کر نوجہ شیر ہوگیا۔ اب وہ بے خوف بھونک رہا تھا اور ساتھ ساتھ مٹی بھی کھو درہا تھا۔
’’رکو! میں دیکھتا ہوں۔‘‘
مالکو نے نوجہ کو ششکارا۔ مالکو کے پاس مٹی کھودنے والا ہتھیار موجود تھا۔ اب اس ہتھیار کی مدد سے مالکو مٹی کھودنے لگا۔ رفتہ رفتہ گڑھا گہرا ہونے لگا، پھر ٹھک کی آواز فضا میں گونجی۔
یکایک مالکو کی آنکھوں میں خوشی کے جذبات عود کر آئے تھے۔ اس نے معنی خیز نظروں سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔
’’اب دیکھ بھی لو کہ کیا ہے؟‘‘ خوشی سے اس کی بیوی کی آواز بھی کانپنے لگی تھی۔
اب مالکو اپنے ہاتھوں کی مدد سے مٹی ہٹا رہا تھا۔ اسے پختہ یقین تھا کہ مٹی کے نیچے سے ایک فولادی صندوق نکلے گا۔ یہ صندوق سونے، چاندی کے زیورات سے بھرا ہوگا اور ان کے وارے نیارے ہوجائیں گے مگر جلد ہی اس کے مسرت بھرے جذبات پر جیسے منوں برف پڑ گئی۔ کھودا پہاڑ نکلا چوہا شاید اسی کو کہتے ہیں۔ جسے وہ فولادی صندوق سمجھ رہا تھا وہ تو پیتل کا ایک چراغ تھا۔
اب مالکو چراغ ہاتھ میں تھامے اپنی بیوی کی طرف دیکھ رہا تھا اور نوجہ اپنی دُم ٹانگوں میں دبائے بھاگ گیا تھا۔
’’قدیم زمانے کا چراغ ہے،اس کے بدلے تھوڑی سی رقم تو مل ہی جائے گی۔‘‘
مالکو کی بیوی سوچتے ہوئے بولی۔
’’ہاں، دیکھو تو چراغ پر کتنے خوبصورت نقش نگار کندہ ہیں۔‘‘
مالکو اپنے ہاتھ کی مدد سے چراغ پر جمی مٹی صاف کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ چراغ رگڑنے کی دیر تھی کہ چراغ کی نال میں سے دھواں نکلنے لگا۔
یہ دھواں سفید اور گاڑھا تھا۔ مالکو اور اس کی بیوی دہشت زدہ ہوگئے۔
دیکھتے ہی دیکھتے یہ دھواں ایک ہیولے کی شکل میں ڈھلنے لگا اور پھر اس ہیولے نے ایک جن کی شکل لے لی۔
’’ہاہاہا …ہوہوہو… کیا حکم ہے میرے آقا؟‘‘
جن نے سر جھکا کر مالکو سے پوچھا۔
’’تت… تم کون ہو؟‘‘
مالکو کے جسم میں سے تو جیسے جان نکل گئی تھی۔
’’میں اس چراغ کا جن ہوں میرے آقا! صدیوں سے میں قید تھا، آپ نے مجھے آزاد کیا ہے۔ اب میں آپ کا ہر حکم ماننے کا پابند ہوں مگر…‘‘
جن کچھ کہتے کہتے رک گیا۔
’’مگر کیا؟‘‘
جن کی باتیں سن کر مالکو کوحوصلہ ملا تھا۔
’’بات یہ ہے میرے آقا کہ مجھے کام کرنا پسند ہے۔ فرصت سے بیٹھے رہنا مجھے بالکل پسند۔ اپنے پہلے مالک کی گردن میں اسی وجہ سے توڑ چکا ہوں کہ وہ مجھے کام نہیں بتاتا تھا۔‘‘
’’فکر مت کرو! میرے پاس تمھارے لیے بہت کام ہے۔‘‘
مالکو کچھ سوچ کر مسکرانے لگا۔ اسے اب خزانہ ملنے سے زیادہ خوشی ہورہی تھی۔ مالکو کی بیوی بھی خوش نظر آرہی تھی۔ جن سے کروانے کے لیے اس کے پاس بھی بہت سے کام تھے۔
’’کام بتائیے آقا! میں منتظر ہوں۔‘‘
جن کام کرنے کے لیے تیار کھڑا تھا۔
’’سب سے پہلے تو تم فصل بونے کے لیے میرا کھیت تیار کرو۔‘‘
مالکو نے جن کو حکم دیا۔ جن کام مکمل کرنے میں لگ گیا۔
اب تو مالکو کے مزے تھے۔ وہ آرام کرتا تھا اور جن کام کرتا تھا۔ جن نے کھیت تیار کردیا تھا۔ فصل کاٹنے کے لیے اب مالکو کواگلے تین ماہ انتظار کرنا تھا۔
’’کام بتائیے آقا! میں منتظر ہوں۔‘‘
جن مالکو کی خدمت میں حاضر ہوچکا تھا۔
’’گھر چلتے ہیں باقی کام گھر میں ہے۔‘‘
مالکو جن کے ہمراہ اپنے گھر پہنچا۔ اس کے مکان کی حالت کھنڈر جیسی ہورہی تھی۔
’’چلو میرے گھر کی تعمیر میں لگ جاؤ!‘‘
مالکو نے جن کو نیا حکم دیا۔
’’جو حکم میرے آقا!‘‘
جن مکان کی تعمیر میں مصروف ہوگیا۔ جلد ہی مالکو کا نیا گھر تیار ہوگیا۔۔
اور پھر ہوتے ہوتے جن نے مالکو اور اس کی بیوی کے تمام ادھورے کام مکمل کردیے۔ اب مالکو کے پاس جن کو بتانے کے لیے کوئی کام نہیں تھا۔ جن تو اس کا ہر فضول کام بھی چٹکیوں میں مکمل کردیتا تھا۔
’’کام بتائیے آقا! میں منتظر ہوں۔‘‘
جن مالکو کے سامنے کھڑا تھا اور مالکو آئیں بائیں شائیں کررہا تھا۔
’کام بتائیے آقا! ورنہ…‘‘
جن نے مالکو کو دھمکی دی تو مالکو گھبرا گیا۔ اسے اپنی گردن پر بوجھ محسوس ہونے لگا تھا۔ یہ جن تو اس کے لیے آفت بن گیا تھا۔ مالکو نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر اچانک اس کی آنکھوں میں زندگی کی چمک دوڑ گئی۔
اس نے اپنے پالتو کتے نوجہ کو دیکھا تھا۔ نوجہ گھر کے باہر ایک طرف بنے اپنے چھوٹے سے گھر میں ہڈی کے ساتھ کھیل رہا تھا۔
’’جلدی کام بتائیے آقا! فرصت سے بیٹھے رہنا مجھے پسند نہیں ہے۔‘‘
جن ناراض نظر آرہا تھا۔
’’کام، ہاں تو کام یہ ہے کہ تم میرے پالتو کتے کی دُم سیدھی کردو۔‘‘
مالکو شوخی سے بولا۔
’’جو حکم میرے آقا۔‘‘
جن نوجہ کی طرف بڑھا۔ جن نے بہت دن مالکو کے ساتھ گزارے تھے۔ اب نوجہ بھی جن سے مانوس ہوچکا تھا۔ جن نے نوجہ کو پکڑا اور پھر اس کی دُم سیدھی کی، لیکن جب جن نے نوجہ کی دم چھوڑی تو وہ پھر سے ٹیڑھی ہوگئی۔
جن مسلسل نوجہ کی دُم سیدھی کرنے میں لگاہوا تھا مگر ہر بار اس کے ہاتھ ناکامی لگتی تھی۔ پھر جن کو غصہ آگیا۔ اب جو اس نے نوجہ کی دُم پکڑ کر زور لگایا تو نوجہ کو شدید تکلیف ہوئی۔ درد کی شدت ایسی تھی کہ نوجہ نے پلٹ کر جن کو کاٹ لیا۔
کاٹنے کی دیر تھی کہ جن تڑپ کر گھر سے باہر کی طرف بھاگا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ چلاّ رہا تھا:
’’ہائے امی جی! ہائے امی جی!
’’میری بات غور سے سن!
سیدھی ہونہیں سکتی نوجہ کی دم۔‘‘
دادی اماں کا انداز کچھ ایسا تھا کہ صبیحہ پر جیسے ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔
ہنستے ہنستے وہ بولی:
’’دادی جان پھر تو جن کے پیٹ میں انجکشن بھی لگا ہوگا۔‘‘
’’اور نہیں تو کیا، اتنا بڑا انجکشن۔‘‘
دادی اماں نے ہاتھ کا اشارہ کیا۔
’’صابی! ارے صابی! اب سو بھی جاؤ بیٹا، صبح وقت پر اٹھنا ہے اور پھر ٹرین کا اتنا لمبا سفر ہے۔‘‘
صبیحہ کی کھی کھی کی آواز سن کر اس کی امی جان نے دوسرے کمرے سے آواز لگائی۔
’’جی امی جان!‘‘ صبیحہ دادی اماں کے ساتھ ہی لیٹ گئی۔ جلدہی مہربان نیند نے اسے اپنی آغوش میں سمیٹ لیا۔ وہ سوتے میں بھی مسکرا رہی تھی۔ خواب میں وہ مالکو، نوجہ اور جن کے ہمراہ تھی۔ نوجہ بھونک رہا تھا اور جن چلاّ رہا تھا:
’’سیدھی ہونہیں سکتی نوجہ کی دُم!‘‘
وہ سوتے میں بھی کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
٭٭٭