قرأت گلستان
قارئین! جیسے چھوٹا ہونا کسی سزا سے کم نہیں بالکل اسی طرح بڑا ہونا بھی کسی جرم سے کم نہیں۔ آپ نے شہروز کی داستانِ الم سنی، آج میری بھی غمگین کہانی پڑھیے اور انصاف سے بتائیے کہ چھوٹا ہونا سزا ہے یا بڑا ہونا جرم ہے۔
یہ اُس وقت کی بات ہے جب ہم اکلوتے ہونے کا شرف پائے ہوئے امی کی گود اور ابو کے کندھے پر سوار ہوئے پھرا کرتے تھے کہ شہروز صاحب نے اچانک ہی انٹری دے کر ہمارا لاڈ اٹھوانے اور اکلوتا رہنے کا سارا مزہ ہی کرکرا کردیا۔
اب آپ سے کیا چھپانا شہروز کی آمد ہمیں تو بے حد بری لگی تھی جس کا کھلم کھلا اظہار ہم اس لیے نہیں کر پاتے تھے کیوں کہ اُس کا والیم پیدائشی طور پر ہی بہت بلند تھا۔ وہ اتنا حلق پھاڑ کر روتا تھا کہ میرے ہی کان پھٹتے تھے اور خوف زدہ ہوکر میں بھی رونے لگتا تھا۔
البتہ چپکے چپکے چٹکیاں بھرنے کا کام میں نے دو تین سال آرام سے کیا ہے اور اس چور حرکت کے بعد جب امی مجھے کہتی تھیں کہ ’’نہیں بیٹا چھوٹے بھائی کو نہیںرلاتے بری بات‘‘ تو مجھے خودبخود اپنے بڑے ہونے کا احساس ہونے لگتا لیکن جیسے ہی امی یا ابو شہروز کو محبت بھری نظروں سے دیکھتے تو میں ایسی ہی کوئی چور حرکت کر بیٹھتا۔
سال دو سال تو شہروز میاں کو چٹکیاں بھرتے اور کھلونے چھینتے گزر گئے پھر میں اسکول جانے لگا اور تب سے آج تک شہروز صاحب میری چیزیں چھین چھین کر خوش ہوتے رہے۔
ایک عرصے تک میری کاپیاں اور کتابیں شہروز میاں مٹھیاں بھینچ بھینچ کر پھاڑتے رہے، ربڑ، پنسل منہ میں ڈال ڈال کر تھوک آلود کر کے میرا دل جلاتے رہے، ٹیچر سے مار کھانے کا خوف ہمارے دل میں ڈیرے ڈالے رہے اور امی سر پر کھڑی ہو کر ہمیں ہی دھمکاتی رہتیں۔
’’کہا بھی تھا اپنی چیزیں سنبھال کر رکھو پھر بھی کاپیاں پھیلائے بیٹھے ہو، وہ تو بچہ ہے اُسے کیا پتا۔‘‘
لو جی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے بلکہ چور کا حمایتی کہیے، چور خود تو آدھی زبان منہ سے باہر لٹکائے اتنی معصومیت سے آنکھیں پٹپٹا کر ہمارے بہتے آنسو دیکھتا کہ اگلے ہی لمحے ایک زور دار تھپڑ ہم اُس کے گال پر ثبت کر کے نو دو گیارہ ہو جاتے۔
ذرا بڑے ہوئے تو شہروز میاں بھی اسکول جانے لگے۔ اب ہر وہ چیز ان کو مطلوب ہوتی جو ہمارے لیے آتی اور اکثر ہمیں صرف اس لیے اس چیز سے ہاتھ دھونے پڑتے کہ شہروز صاحب کا سائونڈ سسٹم وقت کے ساتھ ساتھ مزید بلند ہوا تھا۔
اگر ہم شرافت سے نہ دیتے تو مار کھا کر بھی دینا پڑتی۔ ایک دو بار ہم نے بھی رو کر جیتنے کی کوشش کی مگر ابو نے ایسا دھمکایا کہ آج تک ہم کبھی نہیں روئے۔ شہروز کو کھلا رونے کی اجازت تھی اور ہمیں کہہ دیا تھا کہ اگر روئے تو منہ میں کپڑا پھنسا کر ہاتھ بھی باندھ دیں گے۔
’’شہروز کا جتنا دل چاہے روئے اور میں بالکل نہ روئوں ایسا کیوں؟‘‘
ہم نے بھی معصومیت سے پوچھا تو امی ابو دونوں ہنس پڑے جواب ندارد۔
’’تم بڑے ہو بیٹا !سمجھ دار ہو، بھائی چھوٹا ہے، سمجھتا نہیں ہے۔‘‘ بس بچپن سے ہمیں سمجھانے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا آج تک نہیں رکا۔
شہروز کی ضد کی وہی عادت تھی اور میری چپ کی عادت تھی۔ وقت گزرتا رہا میرے کانوں میں امی ابو کا یہ جملہ ایک تواتر سے پڑتا رہا:’’ تم بڑے ہو بیٹا بھائی چھوٹاہے۔‘‘ بس پھر اگر ایک طرف چھوٹے کے حق میں ہمیشہ دستبردار ہونا پڑا تو دوسری طرف بڑا ہونے کے اعزاز میں چھوٹے پر حکم چلانے کا اختیار بھی خود بخود مل گیا۔
اب شہروز میاں تھے اور ہمارے حکم، جو نہ ماننے کی صورت میں ہم شہروز کو باتھ روم میں بند کرنے کی دھمکی کے ساتھ صادر فرمایا کرتے تھے۔
چھوٹے بھائی سے چھوٹے چھوٹے کام کروانے کا بھی اپنا لطف تھا، ہم بچپن سے اس جملے سے چڑتے تھے کہ ’’بھائی چھوٹا ہے بیٹا سمجھا کرو‘‘ اب وہی جملہ ہماری رگوں میں دوڑتا خون تیز کرتا تھا۔ ہم صاحب بنے صوفے پر بیٹھے ہوتے اور ہوم ورک میں مگن شہروز کو پانی پلانے کا آرڈر جاری کرتے۔
اُس وقت جو اس کی شکل کے زاویے بگڑتے تھے وہ قابل دید ہوا کرتے تھے۔
جیسے جیسے شہروز میاں بڑے ہوتے جا رہے تھے وہ اپنے لیے بھی نئی چیزیں پسند کرنے لگے تھے لیکن شہروز بڑے ہو رہے تھے تو ہم بھی تو بڑے ہو رہے تھے لہٰذا اپنی استعمال شدہ چیزیں سخاوت کا اعلیٰ مظاہرہ کرتے ہوئے ہم ایک دیالو ہستی کی طرح شہروز کے مانگنے سے پہلے ہی اس کی جھولی میں ڈال دیا کرتے ،جس چیز سے ہمارا دل بھر جاتا وہ شہروز میاں کو دے کر ہم اپنی جان چھڑاتے اور چھوٹے بھائی کو ایسے پھنساتے کہ اگلے دو سال تک وہ اس چیز سے پیچھا نہ چھڑا پاتے۔
وقت گزرتا رہا اور اب ہماری شادی ہونے کا وقت آ پہنچا تھا۔ ایک سال ماموں کی بیٹی سے ہماری منگنی رہی اور ہمیں یہی دھڑکا لگا رہا کہ شہروز میاں امی ابو سے یہ مطالبہ نہ کر دیں کہ ان کی شادی بھی ہونی چاہیے۔
لیکن شادی کی تاریخ طے ہوتے ہی چھوٹے بھائی پر جو متفکرانہ خاموشی طاری ہوئی تھی وہ ہمارا دل دہلائے رکھتی تھی۔ ہماری چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ اس خاموشی کے پیچھے یقینا کوئی مطالبہ ہے اور ہمارا خدشہ بالکل درست ثابت ہوا جب شہروز میاں نے دولہا میاں جیسی ہی شیروانی لینے کا مطالبہ کر دیا۔
امی ابو حیران پریشان اور ہم سکون بھرا سانس لے کر بیٹھ گئے اور امی ابو کے مستقل انکا رپر چپکے سے ان کے کان میں اپنے اندیشے انڈیل دیے۔
’’شکر کریں امی! صرف شیروانی ہی مانگ رہا ہے ، شادی کرنے کی ضد نہیں کر رہا۔ ‘‘
امی نے ایک زور دار چپت رسید کرتے ہوئے مسکرانے پر اکتفا کیا تھا اور ابو نے جھٹ سے شیروانی دلانے کا وعدہ۔
اب آپ ہی بتائیے کیا بڑا بھائی ہونا اتنا بڑا جرم ہے کہ چھوٹا بھائی آپ کو شادی تک سکون سے نہ کرنے دے۔
اگر آپ بھی بڑے ہیں اور میری طرح بچپن سے چھوٹے بھائی کے حق میں دستبردار ہوئے آئے ہیں تو آئیے ہم بھی صدا بلند کریں شاید کہ چھوٹوں کو ہم پر رحم آ جائے اور اپنی شادی میں ہم اکیلے ہی دولہا نظر آئیں۔
ورنہ ابھی تو تصور کی آنکھ سے تو ہم لوگوں کو یہی سوال کرتے دیکھ رہے ہیں۔ ’’ارے ان میں سے دولہا کون ہے؟‘‘