احمر ایاز۔ گلگت
میری نگاہیں کسی پیٹرول پمپ کی تلاش میں سڑک کے آس پاس متحرک تھیں۔ آج کسی ضروری میٹنگ کی وجہ سے کراچی جا رہا تھا۔ ایک بیابان علاقے میں چل رہا تھا گاڑی میںپیٹرول بھی کم تھا۔
جیسے ہی شہر میں داخل ہوا تو کچھ فاصلے پر پمپ نظر آیا۔ میں نے گاڑی گھماتی اور پمپ میں لے گیا۔ جیسے ہی میں پیسے دے کر آگے بڑھا تو مجھے پمپ کے کونے میں ایک بھکاری دکھائی دیا۔ وہ مجھے کچھ جانا پچانا سا لگ رہا تھا۔میں نے گاڑی ایک طرف کھڑی کی اور اس بندے کے پاس گیا۔ اس کو پہچانتے ہی میرے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔ وہ میرا ہم جماعت تھا۔
٭
آج جب کلاس میں داخل ہوا تو عجیب سا سماں تھا ہر کوئی انگریزی کی کتاب ہاتھ میں لیے رٹا لگا رہا تھا کیونکہ انگریزی کے استاد ذرا سخت مزاج تھے۔ آج انہوں نے ٹیسٹ لینا تھا، اگر کوئی فیل ہوگیا تو اس کا اللہ ہی حافظ! خیر ہم بے فکر ہوکر سب کا جائزہ لے رہے تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بہت پھنے خان تھے لیکن ہم نالائق بھی نہیں تھے۔ جتنا آتا تھا اللہ کا شکر ادا کرتے تھے۔ ایک اور لڑکا بھی تھا جو نہیں پڑھ رہا تھا۔ وہ بہت لائق تھا۔ لائق ہونے کے ساتھ بدمعاش بھی تھا ۔لڑکوں کو تنگ کرنا اس کی عادت تھی۔ کسی کی مجال نہیں تھی کہ اس سے جھگڑا کرے۔ اس کا نام زارون تھا۔
خیر استاد جی آئے۔ انہوںنے اعلان کیا کہ لکھنے کی جگہ سننے کا امتحان لوں گا۔ سب لڑکوں کے رنگ اڑ گئے بشمول ہم!
استاد جی نے ایک کند ذہن لڑکے کو کھڑا کیا اور اس سے سوال کیا۔ وہ جواب نہیں دے پا رہا تھا۔ تو نیچے سے زارون نے اس لڑکے کو بتایا۔ استاد جی نے اسے دیکھ لیا اور پاس بلا کر ڈانٹا اور مرغا بننے کا کہا تو اس نے استاد جی کی طرف غصے سے دیکھا۔ استاد جی کو اس پر بہت غصہ آیا لیکن اس کو مارنے کے بجائے استاد جی پیچھے ہٹ گئے۔ ہم سمجھے وہ ڈر گئے ہیں زارون نے بھی یہی سمجھا۔ وہ بہت خوش ہوا۔ اس کے بعد کچھ سال اسی طرح ہوتا رہا وہ اساتذہ سے بدتمیزی کرتا رہا۔ ہم اس کی حرکتیں دیکھ کر اسے سمجھانے کی کوشش کرتے لیکن وہ باز نہ آیا۔ ہم نے پڑھائی مکمل کی اور عملی زندگی میں کود گئے۔
کچھ سالوں بعد ہم اپنے مادرِ علمی میں گئے وہاں اپنے انگریزی کے استاد سے ملے۔ استاد جی سے ہم نے اس دن کے بارے میں پوچھا تو استاد جی نے کہا کہ میں لڑکوں کو ذاتی دشمنی سے نہیں مارتا اس دن جب زارون نے مجھ سے بدتمیزی کی تو مجھے اپنی بے عزتی ہوتی دکھائی دی میرا دل تو کر رہا تھا کہ اسے ماروں لیکن مجھے یہ اچھا نہیں لگا کہ میں کسی لڑکے کو اس لیے ماروں کہ اس نے میری بے عزتی کی ہے۔ میں نے پوچھا: استاد جی! میں نے سنا تھا کہ استاد کی بے ادبی کرنے والا کامیاب نہیںہوتا لیکن وہ ہم سب سے آگے تھا اور ہمارے ساتھ تعلیم مکمل بھی کی۔ اس پر استاد جی خاموش ہوکر رہ گئے۔
٭
آج جب میں نے زارون کو سا حالت میںپایا تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں اس سے اس کی کہانی سننا چاہ رہا تھا لیکن وہ اس حالت میں نہیں تھا کہ مجھے پہچانے وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ کہاں گئی اس کی وہ جوانی جس کے بل بوتے پر وہ دوستوں کو تنگ کرتا تھا کہاں گیا اس کا علم جس کے بل بوتے پر وہ اساتذہ کے سامنے اکڑتا تھا!
٭٭٭