Palestine

استقامت کا ایک سال

ابو ولی ابو تقی

پوری دنیا دانتوں میں انگلی دبائے صدی کا حیران کن منظر دیکھ رہی ہے!
سپرپاور کے سائے میں پلنے ، عالمی معیشت کو اپنے شکنجے میں جکڑنے، جسموں ہی نہیں ذہنوں کو غلام بنانے کی صلاحیتیں رکھنے اور آنے والے زمانوں کی بھی جدید ترین ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں سے لیس ناجائز ریاست نہتے، بے سروسامان، خانہ بدوشوں کی سی زندگی جینے والوں، ہر لمحہ بموں میزائلوں کا شور سننے، بارود کی بو سونگھنے، جسموں کے چیتھڑے اڑتا اور خون کے فوارے ابلتا دیکھنے والوں کا سر جھکا سکی نہ ان کی آنکھوں میں خوف کی ایک رمق ہی لانے میں کامیاب ہوسکی!

آج سے ٹھیک ایک سال قبل بے رحم اسرائیل کو جو وسائل سے محروم فلسطینیوں کے ہاتھوں جو دھچکا لگا تھا وہ 41ہزار بے گناہ جانوں کو موت کے گھاٹ اتارکر بھی اس سے سنبھل نہیں پایا۔وہ وحشی درندے کی طرح اپنے زخم چاٹنے پر مجبور ہے۔ 7اکتوبر کا دن اسرائیلی کیلنڈر پر سب سےبڑی عید قومی چھٹی کے طور پر منایا جاتاہے،لیکن2023ء کی اس عید پرفلسطین کے متوالوں نے اسرائیل کو ایک ایسا سرپرائز دیا جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔حماس کی جانب سےاسے ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ آپریشن کا نام دیا گیا۔ اسرائیلی مظالم، طویل محاصرے اور مسجد الاٗقصیٰ کی بار بار بے حرمتی کے خلاف فلسطینیوں کے صبر کا پیمانہ ایسا لبریز ہوا کہ زمینی، سمندری اور فضائی حملوں سے اسرائیل کا سارا زعم خاک میں ملا دیا اور جس دیدہ دلیری سے اسرائیل پر تاک تاک کر حملہ کیا، اس سے مغربی ممالک کے سربراہان کے اندر بھی خوف کی لہر دوڑادی۔

اسرائیل نے اس کا انتقام پہلے ہی پابندیوں، ناکہ بندیوں اور مظالم کا سامنا کرنے والے غزہ سے لیا اور اب تک لے رہا ہے۔اس نے پوری وادی کو ملیامیٹ کردیا۔ وہ ننھی روحیں بھی سفید لباس اوڑھ گئیں جن پر دشمن بھی ہاتھ اٹھانے سے گریز کرتا ہے۔ کچھ غنچے بن کھلے ہی مرجھا گئے۔ کیا بچے، کیا خواتین اور کیا بوڑھے، کیا مسجد، عبادت گاہیں، کیا ہسپتال، اسکول اور کیا اخلاقیات کے خوشنما عالمی اصول، سب کی ایک ایک کرکے دھجیاں اڑادی گئیں ۔ اسرائیلی کبر وغرور کا پیکر مظلوموں کو پائوں میں گرکر رحم کی بھیک مانگتے دیکھنا چاہتا تھا مگر نہ جانے کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں یہ! یہ لوگ تو خاک سے جی اٹھے ہیں۔ ظلم جتنا زیادہ بڑھتا جاتا ہے یہ اپنے عزم میں مضبوط ہوئے جاتے ہیں۔ دشمن جتنا ان کی گردنیں خم کرنے کی کوشش کرتا ہے، یہ اتنا ہی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہونے لگتے ہیں۔ ایک قابض، جارح اور ظالم کے خلاف یہ جنگ پوری فلسطینی قوم مل کر لڑ رہی ہے۔ اس میں عام شہری ہی نہیں، ان کے قائدین بھی آگے بڑھ بڑھ کر جانیں دے رہے ہیں۔

بدقسمتی یہ کہ ایک طرف امریکا، برطانیہ اور ان جیسی عالمی طاقتیں دھڑلے یا خفیہ انداز میں اسرائیل کے دفاع میں لگی ہیں تو دوسری جانب مسلم قوتوں کی اپنی اپنی مصلحتوں، مجبوریوں نے انہیں صرف مذمتی بیانات تک محدود کررکھا ہے۔ شاید یہی حقیقت ہے جرات و استقامت تنہا ہوتی ہے۔ بدر کے میدان میں 313پاکیزہ نفوس جب اللہ کی رضا کی خاطر اپنا سب کچھ وار کر آئے تھے تو اللہ کے سوا کوئی ان کا ساتھ دینے والا نہیں تھا مگر جیت انہی کا مقدر ٹھہری تھی جنہوں نے خود کو اللہ کیلئے وقف کردیا تھا!

آج بظاہر جیسی بھی صورتحال ہو، نتیجہ وہی ہوگا۔ زخموں سے بدن سرشار ضرور ہیں مگر اُس طرف کے شکستہ تیر گنے جائیں تو خود ترکش والے گواہی دیں گے کہ بازی کون ہارا ہے!؟