Bangladesh Protest

حسینہ واجد کی بے دخلی۔ پس منظر، پیش منظر

سہیل انجم

یہ دنیا جائے عبرت ہے۔ یہاں کسی کا ظلم دیرپا ہوتا ہے نہ غرور و گھمنڈ۔ ایک دن سب کو حساب دینا پڑتا ہے۔ آخرت سے پہلے دنیا ہی میں سزا کاٹنی پڑتی ہے۔ کیسے کیسے حکمراں آئے اور چلے گئے۔ جو خود سے نہیں گئے انھیں عوام نے ہٹا دیا۔ جو زیادہ سخت جان اور عوامی آوازوں کو کچلنے میں ماہر تھے انھیں عوامی انقلاب نے ان کی حیثیت بتا دی۔ تاریخ نے ایسے بے شمار مناظر دیکھے ہیں کہ ’رات کو سویا راج بھون میں صبح اٹھا تو بے گھر تھا‘۔ ایک وقت تھا جب مغربی پاکستان سے ٹکر لینے اور ایک نئے ملک بنگلہ دیش کی بنیاد ڈالنے والے شیخ مجیب الرحمن کو بابائے قوم کا خطاب دیا گیا تھا۔ ان کی اپنے ملک میں ایک طرح سے پرستش کی جاتی تھی لیکن پندرہ اگست 1975 کی علی الصبح ہونے والی ایک فوجی بغاوت میں ان کو تمام اہل خانہ کے ساتھ ہلاک کر دیا گیا۔ اس وقت ان کی بیٹی شیخ حسینہ ملک سے باہر تھیں لہٰذا بچ گئیں۔ وہ بعد میں بنگلہ دیش کی حکمراں بنیں اور انھوں نے پندرہ سال تک ملک پر راج کیا۔ انھوں نے کبھی سوچا نہیں ہوگا کہ ان کے خلاف ایسی بغاوت جنم لے گی کہ انھیں اپنے ہی ملک سے فرار ہونا پڑے گالیکن وہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھیں کہ مظاہرین کے ہتھے چڑھنے سے قبل ہی فوج نے ان سے استعفا لے لیا اور انھیں فرار کرا دیا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ان پر فوج کا احسان ہے۔ ورنہ اگر وہ پرتشد مظاہرین کی گرفت میں آگئی ہوتیں تو ان کا حشر بھی اپنے والد جیسا ہی ہوتا۔

شیخ حسینہ پر متعدد الزامات ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے اپوزیشن کو کچل کر رکھ دیا۔ جماعت اسلامی کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیا۔ ان کی دشمنی کی شکار سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا بھی بنیں۔ ان کی عمر 78 سال ہے۔ انھیں جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ انھیں فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ حسینہ کے خلاف بغاوت خالدہ کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی۔ وہاں عبوری حکومت بن رہی ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ موجودہ فوجی سربراہ جنرل وقار الزمان جنرل ضیاء الرحمن اور پاکستان کے جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیاء الحق کی تاریخ دوہراتے ہیں یا حکومت سیاست دانوں کے سپرد کرکے بیرک میں لوٹ جاتے ہیں۔ شیخ حسینہ پر یہ الزام بھی ہے کہ انھوں نے جنوری میں ہونے والے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی تھی۔ انتخابات سے قبل اپوزیشن کے رہنماؤں کو جیل میں ڈال دیا تھا۔ ایک طرح سے اپوزیشن کے بغیر انتخابات ہوئے تھے، لہٰذا ان کی جیت یقینی تھی لیکن ان انتخابات کو امریکا اور مغربی ملکوں نے پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا۔ وہ حسینہ سے ناراض تھے۔ بہرحال اب جبکہ شیخ حسینہ کا اقتدار ختم ہو گیا ہے، ہندوستان کو تشویش لاحق ہو گئی ہے۔ حکومتی سطح پر وہاں کی صورتحال پر غور و خوض کیا جا رہا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد حالات معمول پر آتو جائیں گے اور صورتحال میں استحکام بھی آ جائے گا لیکن وہاں کے موجودہ حالات ہندوستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔

بنگلہ دیش کو بی جے پی اور کانگریس دونوں کی حمایت حاصل رہی ہے اور دونوں کے ساتھ اس کے اچھے تعلقات رہے ہیں۔ حسینہ نے بنگلہ دیش میں موجود شمال مشرقی ریاستوں میں سرگرم شورش پسندوں کے خلاف سخت کارروائی کی اور انھیں گرفتار کرکے ہندوستان کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد سے شمال مشرقی ریاستوں میں امن ہے۔ یاد رہے کہ جب بھی ہندوستان میں اقلیتوں کے کسی معاملے پر بنگلہ دیش میں احتجاج ہوا ہے تو حسینہ حکومت نے ہند مخالف عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی۔ جب بھی ہندوستان میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے حقوق کی پامالی کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھا تو بنگلہ دیش میں بھی احتجاج ہوا۔ ایسے تمام مواقع پر شیخ حسینہ نے کارروائی کی اور احتجاج کو کچل دیا۔ مبصرین کہتے ہیں کہ اب وہاں ’اسلامی انتہاپسند‘ ابھر کر آگئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئی حکومت ان کے ساتھ کیسا رویہ رکھتی ہے لیکن اگر ان کے ساتھ نرمی کی گئی تو ہندوستان کی سیکورٹی کے لیے خطرہ پیدا ہو جائے گا۔

حسینہ حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں نے انقلاب کی صورت کیوں اختیار کی، اس کے محرکات کیا ہیں؟ دراصل طلبہ سرکاری ملازمتوں میں کوٹا سسٹم کے خلاف ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ تیس فیصد سرکاری ملازمتیں ان خاندانوں سے تعلق رکھنے والوں کے لیے مخصوص کر دی گئی ہیں جنھوں نے پاکستان سے بنگلہ دیش کی آزادی کی لڑائی لڑی تھی۔ طلبہ کے مطابق اس سے شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ سے وابستہ افراد کو فائدہ پہنچے گا۔ کیونکہ جنگ آزادی میں اسی جماعت نے حصہ لیا تھا۔ طلبہ کا مطالبہ تھا کہ کوٹہ سسٹم ختم کرکے میرٹ کی بنیاد پر ملازمتیں دینے کا نظام نافذ کیا جائے۔ حسینہ پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ اپنے والد کی قربانی کا حوالہ سے کر اپنے خاندان اور اپنی پارٹی کو فائدہ پہنچاتی رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے شیخ مجیب کے نام پر اس قدر بدعنوانی کی کہ عوام کے بہت بڑے طبقے میں شیخ مجیب کے خلاف بھی غصہ ابل پڑا۔ وہ منظر سب نے دیکھا کہ کس طرح شیخ مجیب کے مجسمے کو توڑا جا رہا ہے۔ دوسرے ملکوں میں بھی ان کے مجسمے کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔ اگر حسینہ مطلق العنان نہ ہوئی ہوتیں اور انھوں نے عوامی جذبات کا لحاظ و خیال رکھا ہوتا تو آج انھیں راہ فرار اختیار نہیں کرنی پڑتی۔