محمد حذیفہ اکرام۔ راولپنڈی
’’مجھے آپ سے نفرت ہے۔‘‘ مجھے پیچھے سے آئی آواز نے رکنے پر مجبور کردیا۔ میں نے مڑ کر پیچھے دیکھا۔ ایک چھوٹے قد کا سانولا آدمی شلوار قمیص میں ملبوس میرے قریب آکر رک گیا، وہ میرے سے مکمل اجنبی تھا۔ میں ابھی حیرت سے نکل نہ پایا تھا کہ اس نے پھر سپاٹ لہجے میں کہا:
’’مجھے آپ سے نفرت ہے!‘‘
’’آپ کو… مجھ سے… نفرت ہے؟‘‘ میں نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔
’’جی!‘‘ اس نے مجھے حقارت آمیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’مگر کیوں؟‘‘ میں ابھی تک حیرت سے نکل نہ پایا تھا۔ ’’میں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے… میں تو آپ کو جانتا ہی نہیں۔‘‘
’’آپ نے میرا کچھ نہیں بگاڑا۔ اسی لیے مجھے آپ سے نفرت ہے کاش آپ میرا کچھ بگاڑتے!‘‘ وہ حسرت آمیز لہجے میں بولا۔ میری حیرت دو چند ہوگئی۔
’’ہے کوئی تک… تم پاگل تو نہیں ہو۔‘‘ میں جھلا اٹھا۔
’’نہیں!‘‘ وہ مسکرایا۔
’’یہ کیا بات ہوئی… لوگ محبت کا اظہار کرتے ہیں اور تم نفرت کا اظہار کرنے پہنچ گئے ہو۔ اور وہ بھی بالکل فضول بات پر… جو مجھے سمجھ تک نہیں آئی۔‘‘ میں نے غصے سے سر جھٹکا۔ ’’چلو وقت نہ ضائع کرو میرا!‘‘ میں نے کہا اور اس سے منہ موڑ کر چل دیا۔
’’کیا آپ مجھ سے نفرت کا سبب نہیں پوچھیں گے؟‘‘ وہ پھر میرے سامنے آن کھڑا ہوا۔
’’جب میں تمہیں جانتا ہی نہیں تو تمہیں مجھ سے نفرت کیوں ہونے لگی؟‘‘ میں زچ ہوکر بولا۔
’’میں نے آپ سے کہا نا کہ مجھے اس لیے آپ سے نفرت ہے کہ آپ نے میرا کچھ نہیں بگاڑا۔‘‘ وہ بولا۔
’’حد ہوگئی۔‘‘ میں نے سر پکڑ لیا۔ ’’چلو مجھے معاف کردو… آئندہ مجھے جب بھی موقع ملا یا تم نے جب بھی خواہش کی تو میں تمہارا سب کچھ بگاڑنے کے لیے تیار رہوں گا… وہ سامنے میرا گھر ہے… شوق ہے تو آجانا… میرے تین بیٹے جوان ہیں… امید ہے کہ اچھی طرح سے بگاڑ دیں گے، تمہارا حلیہ!‘‘
’’لیکن اب کوئی فائدہ نہیں۔‘‘ اس نے مایوسانہ انداز میں کہا۔
’’کیوں؟‘‘
’’کیونکہ اب وقت گزر چکا ہے۔‘‘ اس نے سرد آہ بھری۔
’’یار سیدھی سیدھی بات کیوں نہیں بتاتے۔‘‘ میں نے اکتا کر کہا۔
’’میں آج سے پچیس سال پہلے آپ کے پاس گورنمنٹ اسکول میںپڑھا کرتا تھا۔ آپ کو شاید اس لیے نہیں یاد کہ آپ استاد ہیں اور اساتذہ کو شاگرد کم ہی یاد رہتے ہیں اور آپ تو شاید بوڑھے بھی ہوگئے ہیں۔ بہر حال! مجھے یقین ہے کہ میں آپ کو یاد آجائوں گا۔‘‘
’’میں نے تمہیںپڑھا کر کون سا جرم کیا ہے؟‘‘ میں نے اسے گھورا، اب وہ میرا شاگرد تھا۔
’’میرے بابا آپ کے دوست تھے اور آپ اسی وجہ سے مجھے پاس کردیا کردیتے۔ کلاس میں شرارتوں پر بھی کچھ نہ کہتے۔ پھر وہ شرارتیں غنڈہ گردی میں بدلیں اور غنڈہ گردی ’اس میں‘ اس نے اپنی جیکٹ دکھائی… وہاں چمکتا ہوا پستول جگمگا رہا تھا۔
’’مجھے دنیا گوگا ڈاکو کے نام سے جانتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میرے والد کے فوت ہوجانے کے بعد آپ نے ہمارے ساتھ اچھا سلوک کیا مگر آپ نے مجھ پر تنکیر کیوں نہ کی؟ یہ کیوں نہ دیکھا کہ میری صحبت بری ہے؟ کیا صرف مالی امداد دوستی کے حق کے لیے کافی ہوتی ہے؟ سچ کہوں تو آپ کو ہماری مدد کرکے دنیا کو دکھانا مقصود تھا۔ اگر آپ کو سچی ہمدردی ہوتی تو آپ مجھے برائی میں گرتا دیکھ کر آنکھیں بند نہ کرتے!‘‘
وہ بولتا چلا گیا اور میں سن کھڑا رہ گیا۔
’’کامران تم!‘‘ میرے منہ سے نکلا۔
’’جی ہاں اور مجھے آپ سے نفرت ہے اور آپ جیسے نام نہاد تمام ہمدردوں سے بھی۔‘‘ وہ بولا اور چل دیا۔
وہ میری ساری زندگی کے فخر کو پاش پاش کر گیا تھا۔