Editor Ke Qalam SE

آغاشورش کاشمیری کی موت سے واپسی!

انورغازی

بہت ساری چیزوں کا تعلق خداداد صلاحیت سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جو فن جس میں ودیعت کردے وہی اس فن میں کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ کوئی بھی شخص اپنے اختیار اور کسب سے وہ فن حاصل نہیں کرسکتا ہے، وہ سیکھا سکھایا نہیں جاسکتا۔ ان میں سے ایک شاعری ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایک شخص نے سیکڑوں کتابیں لکھی، ہزاروں تحقیقی مقالے لکھے، لیکن پوری زندگی ایک شعر بھی نہ کہہ سکا۔ دوسری چیز ”مصوری“ ہے۔ اس کا تعلق بھی خدا کی ودیعت کردہ صلاحیتوں سے ہوتا ہے۔ اس کا تعلق بھی ”وھب“ سے ہے، ”کسب“ سے نہیں۔ مصوری بھی ”وھبی“ صلاحیت ہے۔ ایک شخص کمرے میں بیٹھے بیٹھے کسی چیز، کام اور منظر کی ایسی منظرکشی کرتا ہے، ایسی تصویر اور ایسا نقشہ کھینچتا ہے کہ دیکھنے والا عش عش کر اُٹھتا ہے۔ یہ مصور کا کمال ہوتا ہے۔ وہ پینٹنگ اور لکیروں کے ذریعے وہ بات آپ کے ذہن میں بٹھااور سمجھادیتا ہے جو نثرنگار سو سو صفحات لکھ کر بھی نہیں سمجھا سکتا۔ مثل مشہور ہے ایک اچھی تصویر ایک ہزار الفاظ سے زیادہ معنی رکھتی ہے۔ یعنی ایک چیز اور کام کو نثرنگار اگر ایک ہزار الفاظ میں سمجھا سکتا ہے تو مصور چند لکیروں اور خاکوں کے ذریعے دو منٹ میں سمجھا سکتا ہے۔

تیسری چیز ”تقریر“ ہے۔ تقریر اور اندازِ بیان بھی ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔ اس کا تعلق بھی خداداد صلاحیت سے ہوتا ہے۔ یہ بھی فنونِ لطیفہ میں سے ہے۔ جس شخص میں یہ قدرتی اور فطرتی طور پر موجود نہ ہو وہ اس میں کمال نہیں دکھاسکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ”اِنَّ مِنَ الْبَیَانِ لَسِحْرا“…… ”بے شک بعض بیان جادو جیسا اثر رکھتے ہیں۔“ بعض لوگوں کے بیان کرنے کا انداز اور طریقہ کار اس قدر اثرانگیز ہوتا ہے کہ سننے والا گھنٹوں بیٹھا سنتا رہتا ہے، وہ اس میں لذت محسوس کرتا ہے، رتی بھر بوریت محسوس نہیں کرتا۔ حضرت داؤد علیہ السلام جب تقریر کیا کرتے تھے تو اس قدر متاثر کن انداز ہوتا تھا کہ انسان تو انسان، چرند و پرند بھی دیواروں پر بیٹھ کر سننے لگ جاتے تھے۔ وہ بھی محظوظ ہوتے تھے۔ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی موضوع پر تقریر اور بیان فرماتے تو اس قدر خوبصورت اور عمدہ اندازِ بیان ہوتا تھا کہ سننے والے مبہوت ہوجاتے۔ سب بات ماننے پر تیار ہوجاتے تھے۔ کفارِ مکہ نے جب دیکھا کہ آپ کا اندازِ بیان اس قدر متاثر کن ہے کہ جو ایک مرتبہ بھی آپ کی بات سن لیتا ہے وہ وہیں کا ہوکر رہ جاتا ہے تو انہوں نے اپنے بچوں کو منع کر رکھا تھا کہ ادھر نہ جایا کریں۔ وہ کہتے تھے نعوذباللہ! آپ ”ساحر اور کاہن“ ہیں۔ ان کی باتوں میں جادو کا سا اثر ہے۔

چوتھی چیز تحریر ہے اور تحریر سے مراد ”ادبی تحریر“ ہے۔ عام تحریر مراد نہیں ہے۔ عام تحریر ہر شخص لکھ سکتا ہے، کیونکہ عام تحریر کا مقصد صرف ابلاغ اور بات کا پہچانا ہوتا ہے، جبکہ ادب خاص تحریر کا نام ہے۔ عام و سادہ تحریر کو ”صحافت“اور مقفٰی مسجع تحریر کو”ادب“ کہا جاتا ہے۔ صحافت میں اصل ابلاغ ہوتا ہے، جبکہ ”ادب“ میں اصل ”زبان“ ہوتی ہے۔ ادب زندگی کی تطہیر و صفائی کرتا ہے۔ ادب ایک ایسا لطیف فن ہے جس کے ذریعے سے ادیب مختلف جذبات، افکار اور خیالات کو اپنے خاص نفسیاتی اور شخصیاتی خصائص کے مطابق نہ صرف ظاہر کرتا ہے، بلکہ خاص لفظوں، جملوں، ضرب الامثال، تشبیہات، تلمیحات، عمدہ تراکیب، محاورات، خیال انگیز فقروں، اعلیٰ مصرعوں، شعروں، مترادفات، متقاربات، متضادات، متقابلات جیسے اندازوں سے زندگی کے مختلف طبقوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ تعریف بھی ہوتی ہے اور تنقید بھی۔ یہ مدح بھی ہوتی ہے اور ذم بھی۔ ادب اور زندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ جہاں زندگی وہاں ادب اور جہاں ادیب وہاں خوشحال زندگی، ادیب خیالات اور تصورات پیش کرتے ہیں۔ خوبصورت آئیڈیاز دیتے ہیں۔

آج دنیا میں جتنے عمدہ، اچھے اور خوبصورت کام ہورہے ہیں، اچھی چیزیں بنی ہوئی ہیں کسی نہ کسی شاعر اور ادیب ہی نے ان سب کا تصور اور خیال پیش کیا تھا۔ علامہ اقبالؒ نے سب سے پہلے پاکستان کا خوبصورت تصور پیش کیا تھا۔ پاکستان کا تصور پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ فلاں فلاں علاقوں اور صوبوں کو ملا کر ایک نیا اسلامی ملک بنایا جاسکتا ہے۔ جب مسلمان لیڈروں کے سامنے یہ خیال آیا تو انہیں پسند آیا اور پھر پاکستان کے حصول کے لیے کوششیں شروع ہوگئیں، اور بالآخر مصورِ پاکستان کے خیالات کو تعبیر مل گئی۔ معاشرے میں ادیب کی اہمیت، حیثیت، ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہر دور میں ادیب کو ممتاز حیثیت دی گئی، قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ آج بھی تمام ترقی یافتہ ممالک اور قوموں میں جو مرتبہ اور مقام ادیب کو دیا جاتا ہے، وہ کسی اور کو نہیں دیا جاتا، کیونکہ ادیب ہی حالات کے نباض اور معاشرے کی آنکھ ہوتے ہیں۔ یہی ادیب ہوتے ہیں جو نئی نسلوں کی تربیت کرتے ہیں۔ رائے عامہ ہموار کرتے ہیں، خوبصورت تصور دیتے ہیں، عمدہ خواب دیکھتے ہیں۔ اچھے اچھے آئیڈیاز پیش کرتے ہیں۔ قابلِ عمل مشورے دیتے ہیں۔

اِس وقت میرے ہاتھ میں آغاشورش کاشمیری کی کتاب ”موت سے واپسی“ ہے۔ یہ کتاب ہمیں لاہور سے علامہ عبدالستار عاصم صاحب نے بھیجی ہے۔قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل لاہور فون نمبر 0300-0515101 نے انتہائی نرم ملائم کاغذ اور بامعنی ٹائٹل کے ساتھ شایع کیا ہے۔ ادبی ذوق رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب انتہائی خوبصورت تحفہ ہے۔ ہماری تجویز پر وہ اسے ضرور پڑھیں۔ علامہ عبد الستار عاصم صاحب اس کتاب کے مقدمے میں لکھتے ہیں: ”تحریکِ آزادی ہماری تحریک کا وہ روشن باب ہے جس میں آزادی کے چراغ جلانے کے لیے ہزاروں حریت پسندوں نے اپنے خونِ جگر سے لو بخشی ہے۔ ان مجاہدینِ آزادی کی ایک لمبی فہرست ہے۔ ان اکابرینِ ملت میں برِ صغیر پاک و ہند کے نامور صحافی، ادیب، شاعر اور خطیب، مجاہدِ ختمِ نبور جناب آغا شورش کاشمیری کا نام آج بھی صحافت، ادب اور سیاست کے سنہری اوراق میں سرِ فہرست ہے۔ اختلافِ رائے کی بنیاد پر مخالفین کو پابندِ سلاسل کرنا حکمرانوں کا دل پسند حربہ رہا ہے، جو ہر دور میں پورے جبر سے آزمایا جاتا ہے۔ جنرل ایوب خان کے دور میں آغا شورش کاشمیری صاحب نے 232 دن قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ پسِ دیوارِ زنداں آغا صاحب پر جو کچھ بیتی، وہ انتہائی حیرت انگیز داستان ہے، جسے آغا صاحب نے خود اپنے قلم سے صفحہئ قرطاس پر رقم کیا ہے۔ یہ داستانِ اسیری چشم کشا بھی ہے اور سبق آموز ہونے کے ساتھ ساتھ ظلم و زیادتی کے بھیانک چہرے پر زور دار طمانچہ بھی۔ اس کتاب میں آپ کو خون کا سمندر اور آگ کا دریا نظر آئے گا۔ جب یہ کتاب آپ ختم کریں گے تو پانچ دس منٹ کے لیے خاموش و ساکت ہو جائیں گے کہ یا رب! آغا صاحب کی موت سے واپسی کیسے ہوئی؟