حافظ عبدالرزاق خان۔ ڈی آئی خان
’’جرنلزم کے ایک اسٹوڈنٹ کے منہ سے ایسی بے تکی بات… میرے تصور میں بھی محال ہے…‘‘ خاکی صاحب نے حیرانی سے کہا۔
’’آخر ایسی کون سی بے پرکی اڑادی عاکف نے؟‘‘ اقراش نے جواباً پوچھا۔
’’وہ جناب فرما رہے تھے کہ 7 اکتوبر 2023ء سے پہلے فلسطین کے حالات کتنے نارمل چل رہے تھے… نہ اسرائیلی تنصیبات کو چھیڑتے نہ انہیں ان حالات کا سامنا کرنا پڑتا…‘‘ خاکی صاحب نے عاکف کی بات ہو بہو نقل کی تو اقراش کے منہ سے بھی نکلا:
’’کہہ تو وہ ٹھیک ہی رہا ہے۔ اسرائیل ایک ایٹمی ملک ہے، وہ اپنی ہتک کیسے برداشت کرسکتا تھا۔ ‘‘
’’انا للہ… اقراش میاں تم بھی گئے کام سے۔‘‘ خاکی صاحب نے عینک اتارتے ہوئے تاسف سے کہا۔
کچھ توقف کے بعد خاکی صاحب نے اپنے شاگردِ رشید احسن خلیل کو آنکھوں سے اشارۃً حکم دیا کہ کچھ بولے۔ احسن خلیل نووارد طالب علم تھا۔ جبکہ عاکف اور اقراش اپنی ڈگری مکمل کرنے والے تھے۔
’’فلسطین میں اسرائیلی درندگی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کشمیر میںہندوؤں کے غاصبانہ قبضے اور مظالم کی تاریخ… جسے اتنا بھی پتا نہ ہو کہ فلسطینی کب سے اسرائیلیوں سے برسرِ پیکار ہیں… تو ایسی پڑھائی کا کیا فائدہ؟‘‘ احسن خلیل نے عاکف کو گھورا۔
’’اوپر سے اقراش صاحب کہہ رہے ہیں کہ عاکف نے ٹھیک کہا۔ گویا یہ بھی مسئلہ فلسطین کے بارے میں معلومات نہیں رکھتے۔‘‘ احسن خلیل نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
’’ارے نہیں! میرا مطلب یہ نہیں تھا… میں تو یہ کہہ رہا تھا کہ موجودہ خونیں حالات کا سبب تو یہ سات اکتوبر ہی تو ہے ناں!‘‘ اقراش نے صفائی پیش کی۔
’’بھئی جب آپ کے گھر میں آکر کوئی دشمن زبردستی آپ کو نکالے، یا یہ کہے کہ اس گھر کو آدھا آدھا تقسیم کرلیتے ہیں تو اس وقت آپ کا ردِ عمل کیا ہوگا؟‘‘ خاکی صاحب نے اقراش سے سوال کیا۔
’’میں اس کا منہ نہ توڑ دوں گا بھلا!‘‘
’’تو پھر فلسطینی، اسرائیلی فوجیوں کو دعوت کھلائیں گے کہ آؤ آؤ یہ ملک ہم سے لے لو۔‘‘ خاکی صاحب نے اقراش کی سوچ پر ضرب لگائی۔
’’ ہمیں پتا ہونا چاہیے کہ پہل فلسطینی مسلمانوں نے نہیں کی، بلکہ اسرائیل کب سے درندگی دکھا رہا ہے، کب سے دھمکیوں کو عملی جامہ پہنا رہا ہے، اس نے کب سے فلسطینی کو جدید اسلحے کی تجربہ گاہ بنا رکھا ہے…‘‘ احسن خلیل نے تدبر سے کہا تو دونوں نے شرم کے مارے سر جھکالیے۔
’’76 برس سے فلسطینی نوجوان اینٹ اور پتھر سے دشمن کا مقابلہ کر رہے ہیں… اب جاکر انہوں نے ایک ضرب کاری لگائی تو اسرائیل کے ہوش ٹھکانے آگئے… اتنے آپے سے باہر ہوئے کہ قتل عام شروع کردیا۔‘‘ احسن خلیل نے حقیقت بیان کی۔
عاکف اور اقراش کو چپ لگ گئی۔ خاکی صاحب نے بڑی دیر سے خاموش بیٹھے شیراز کو کریدا: ’’آپ بھی تو کچھ فرمائیں!‘‘ شیراز کے ہاتھ میں ایک مجلہ تھا: ’ماہِ نو‘ وہ بولا: ’’سر جی میں کیا کہوں؟ اتفاق سے اس مجلے کی ورق گردانی کر رہا تھا تو یہ نظم ہاتھ لگی۔ فلسطینی بچے کا شبیہ مادر سے مکالمہ‘‘ یہ مجلہ 2002ء کا ہے جو لاہور سے شائع ہوا۔ یہ نظم بتا رہی ہے کہ بائیس برس قبل بھی فلسطینی مسلمان کرب سے گزر رہے تھے۔
اے مادرِ اقدس یہ تم ہو
اس چاند کے سیمیں گھونگھٹ میں
تاروںکے حسیں تر جھرمٹ میں
جو اک صیہونی ظالم کی
گولی سے بہا تھا دھرتی پر
اس خون کی اجلی دھاروں سے
اب چاند کا دامن سرخ ہوا!
ان اشعار نے ثبوت کا روپ دھار کر اقراش اور عاکف کو گویا بالکل ہی گونگا کردیا۔ ’’اچھا چلیں یہ تو ثابت ہوگیا کہ ہمارے یہ بھائی عرصہ دراز سے صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں مگر یہ جو ایک سال سے مسلسل خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اس کے نتائج کیا نکلے؟‘‘ خاکی صاحب نے معنی خیز انداز سے ان سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ جب کوئی کچھ نہ بولا تو انہوں نے عاکف سے جواب چاہا۔
’’سر جی نتائج آپ دیکھ ہی تو رہے ہیں… غزہ تباہ ہوگیا… خان یونس کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی… چالیس ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے… رفح بھی بربادی کے دہانے پر ہے… جہاں امن تھا چین تھا سکون تھا… بے گھر افراد کے لیے مثلِ آغوشِ مادر تھا… اب اس پر آگ برسائی جا رہی ہے۔ اسرائیل کی دھاک پوری دنیا میں بیٹھ گئی ہے… ساری دنیا سراپا احتجاج ہے مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے… وہ اپنا مقصد پورا کرکے ہی دم لیں گے ایک گریٹر اسرائیل کا منصوبہ… انہوں نے امریکا پر کوئی ایسا جادو کیا ہے کہ وہ عیسائی ہونے کے باوجود اسرائیل کی کھل کر حمایت کر رہے ہیں۔‘‘ عاکف نے کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ یہ مافی الضمیر کے اظہار کی آزادی خاکی صاحب نے ہی انہیں سکھائی تھی۔
عاکف جب اپنی رائے دے چکا تو خاکی صاحب نے احسن خلیل کی طرف دیکھا:
’’یہ عاکف کی رائے ہے اور مجھے اس رائے سے اختلاف ہے کیونکہ صرف ظاہر کی آنکھ سے نتائج نہیں بتائے جاسکتے… پہلی بات تو یہ ہے کہ مسلمان تو جنگ کبھی ہارتا ہی نہیں ہے۔‘‘
ابھی احسن خلیل نے اتنا ہی کہا تھا کہ عاکف نے بیچ میں ٹانگ اڑائی: ’’لو جی سنیں ان کی بات… مسلمان جنگ نہیں ہارتا… تو کیا فلسطینی جنگ جیت رہے ہیں؟‘‘
’’عاکف حوصلہ رکھو… بات تو پوری ہونے دو…‘‘ خاکی صاحب نے اسے ٹوکا۔
’’جی ہاں مسلمان جنگ نہیں ہارتا… غالب آگیا تو غازی اور مارا گیا تو شہید… دونوں طرح سے کامیاب…اسرائیلی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے… وہ فلسطینیوں کی آواز دبانے آئے تھے مگر آج پوری دنیا میں سب سے اونچی آواز فلسطین ہی کی ہے… محبوبیت کا یہ عالم ہے کہ دیارِ غیر میں بے لوث حمایت کا سلسلہ جاری ہے۔ مسلمانوں کی خاموشی حیران کن سہی مگر غیر مسلم طلباء کا صیہونی جارحیت کے خلاف احتجاج اس سے بھی حیران کن ہے۔ کل تک شاید اہلِ فلسطین بھی حماس کے طریقہ کار سے اختلاف رکھتے تھے مگر آج ہر ایک کے ذہن میں مقابلے کا سودا سمایا ہے۔ وہ مسلمان امت جو اسرائیلی مصنوعات کی سب سے بڑی خریدار تھی… معاشی مقاطعہ کے لیے تیار ہوگئی ہے…اسرائیلی درندگی کھل کر پوری دنیا کے سامنے آگئی ہے ہر کوئی شیم شیم کہہ رہا ہے۔
فلسطینی مسلمان حسینیؓ قافلے کی طرح شہید کیے جا رہے ہیں۔ کوئی عام موت نہیں مر رہے… یہ اموات قدرتی آفات کی وجہ سے بھی ہوسکتی تھیں، کسی بڑی بیماری کی وجہ سے بھی ہوسکتی تھیں لیکن یہ تو عین شہادتیں ہو رہی ہیں… اور دل اتنے مضبوط ہیں کہ ان کی استقامت جدید ٹیکنالوجی کا منہ چڑا رہی ہے… اہلِ فلسطین یہ جنگ جیت چکے ہیں…
فَمِنْھُمْ مَنْ قَضٰی نَحْبَہٗ‘ وَمِنْھُمْ مَن یَّنْتَظِرْ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاo
’ان میں سے بعضے اپنی نذر پوری کرچکے اور بہت سے اس کے منتظر ہیں… ان کے ارادے اور جذبے نہیں بدلے۔‘
احسن خلیل نے منطقی باتیں کیں تو عاکف پھر لاجواب ہوگیا۔ احسن خلیل کی تائید میں شیراز نے لگے ہاتھوں یہ شعر کہا:
ہار کر بھی کچھ انسان مات دے گئے طاہر
جیت ساری جنگوں کا فیصلہ نہیں ہوتی
ارض فلسطیں!
فیض احمد فیض
تیری تذلیل کے داغوں کی جلن دل میں لیے
تیری حرمت کے چراغوں کی لگن دل میں لیے
تیری الفت، تری یادوں کی کسک ساتھ گئی
تیرے نارنج شگوفوں کی مہک ساتھ گئی
سارے ان دیکھے رفیقوں کا جلو ساتھ رہا
کتنے ہاتھوں سے ہم آغوش مرا ہاتھ رہا
دور پردیس کی بے مہر گذرگاہوں میں
اجنبی شہر کی بے نام و نشاں راہوں میں
جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم
لہلہاتا ہے وہاں ارضِ فلسطیں کا علم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد
میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد