Adyala Jail

عمران خان کا اعتراف، خوداعتمادی یا نادانی

رفیع صحرانی

خود اعتمادی بڑی اچھی چیز ہے۔ انسان کی شخصیت میں یہ ایک نمایاں خوبی ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے زندگی کے تمام شعبوں میں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہی لوگ زندگی کی دوڑ میں فاتح ٹھہرتے ہیں جو خوداعتمادی کی صفت سے متصف ہوتے ہیں۔ لیکن خود اعتمادی اسی وقت تک خوبی رہتی ہے جب تک یہ حدِ اعتدال کے اندر رہے۔ حد سے بڑھی ہوئی خوداعتمادی نہ صرف غیرمتوازن ہوتی ہے بلکہ شخصیت کا توازن بھی بگاڑ دیتی ہے۔ جس کا منطقی نتیجہ کسی بہت بڑی کامیابی کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے اور بندے کو تختہ دار تک لے جانے کا باعث بھی بن جاتا ہے۔

جناب عمران خان نے چودہ ماہ بعد بالآخر اعتراف کر لیا ہے کہ نو مئی کے ماسٹر مائنڈ وہی تھے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ اپنی گرفتاری کی صورت میں انہوں نے جی ایچ کیو جا کر پرامن احتجاج کی کال دی تھی۔ یہ آدھا اعتراف یا آدھا سچ ہے جو انہوں نے بولا ہے لیکن اس آدھے سچ کو لے کر پورے سچ تک پہنچنے کے لیے باقی نقاط کو ملانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ وہ تو اس سے پہلے نو مئی کے واقعات سے خود کو مکمل طور پر لاتعلق قرار دیتے آئے ہیں اور سارا ملبہ اپنی پارٹی کے دیگر رہنماؤں اور کارکنوں پر ڈالتے آئے ہیں۔ ان کا ہمیشہ یہی موقف رہا ہے کہ وہ تو جیل میں تھے، انہیں کیا پتا کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔ اب پیر 22 جولائی کو جناب عمران خان نے میڈیا کے نمائندوں کے سامنے یہ اعتراف کر لیا ہے کہ اپنی گرفتاری کی صورت میں کارکنوں کو جی ایچ کیو جا کر احتجاج کرنے کی ہدایت انہوں نے خود دی تھی۔ یہ ایک ایسا دھماکہ تھا جس کی پی ٹی آئی کے کارکنوں یا لیڈروں کو بالکل بھی امید نہیں تھی۔ جناب اسد قیصر تو جمعہ کے روز عمران خان کی رہائی کے لیے پورے ملک میں احتجاج کی کال دے چکے تھے لیکن عمران خان کے اعتراف کے بعد پی ٹی آئی کارکنوں کا نہ صرف جوش ٹھنڈا پڑ گیا ہے بلکہ احتجاج کی صورت میں انہیں اپنے انجام کی فکر بھی پڑ گئی ہے۔

ملک کے کئی معروف تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ عمران خان نے اعتراف کے بعد اپنے مقدمے کو فوجی عدالت میں لے جانے کی راہ مکمل طور پر ہموار کر دی ہے۔ ادھر ذمہ دار ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگست میں نو مئی کے مرکزی مقدمے کی سماعت شروع ہونے جا رہی ہے۔ یہ مقدمہ لاہور کی عدالت میں چل رہا ہے۔ یقینی طور پر اس مقدمے کی سماعت کے لیے عمران خان اور شاہ محمود قریشی سمیت دیگر ملزمان بھی لاہور منتقل کر دیے جائیں گے۔ دیکھتے ہیں کہ یہ مقدمہ جیل میں خصوصی عدالت لگا کر آگے چلایا جاتا ہے یا نئی پیش رفت کے بعد اسے فوجی عدالت میں منتقل کیا جاتا ہے۔ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے میڈیا نمائندگان سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے نو مئی کے ملزمان کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے دو ٹوک موقف اختیار کیا ہے کہ نو مئی کے ملزمان کو عدالتی ڈھیل دینے سے انتشار پھیلے گا۔

پیغام بالکل واضح ہے کہ فوج اس وقت تک نو مئی کے سانحہ کے حوالے سے عدالتی کارکردگی پر مطمئن نہیں ہے۔ فوج ملزمان کو سزا دلوانا چاہتی ہے۔ چودہ ماہ گزر چکے ہیں۔ مقدمے میں خاص پیش رفت فوج کو نظر نہیں آ رہی۔ مگر یہاں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اس کی ذمہ داری صرف عدلیہ پر ہی عائد ہوتی ہے یا کوئی اور بھی اس کا ذمہ دار ہے۔ دیکھا جائے تو حکومت کی طرف سے نو مئی کے ذمہ داران کا تعین کرنے اور ثابت کرنے میں بھی سستی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ یہ قانونی موشگافیاں ہیں جن کا فائدہ بہرحال ملزمان اٹھایا ہی کرتے ہیں۔ مدعی مقدمہ یا پراسیکیوٹر کا کام الزام کو ثابت کرنا ہوتا ہے۔ عدالت نے اپنی طرف سے کوئی فیصلہ نہیں دینا ہوتا۔ فوج بغیر کسی ابہام یا شک کے عمران خان کو سانحہ نو مئی کا ماسٹر مائنڈ اور اس سانحہ کو سوچے سمجھے منصوبے کا شاخسانہ سمجھتی ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق گزشتہ سال نو اور دس جولائی کی درمیانی شب جناب عمران خان نے ایک مشترکہ دوست کے ذریعے فوجی قیادت سے رابطہ کر کے ’’غلط فہمی‘‘ دور کرنے کے لیے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن دوسری طرف سے واضح اور دوٹوک جواب دیا گیا تھا کہ ہمیں کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔ ہر چیز صاف اور واضح ہے۔

اپنی طرف سے شاید ’’غلط فہمی‘‘ دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ہی عمران خان نے میڈیا نمائندگان کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے تو صرف اپنے کارکنوں کو پرامن احتجاج کے لیے جی ایچ کیو جانے کی ہدایت کی تھی۔ وہاں جا کر کارکنوں نے جو کچھ کیا اس کی ہدایت انہوں نے نہیں دی تھی۔ کیا واقعی عمران خان اتنے سیدھے اور بھولے بھالے ہیں کہ ہجوم کو احتجاج کے لیے جانے کی ہدایت دیتے وقت انہیں یہ علم نہیں تھا کہ جذباتی ہجوم بے قابو بھی ہو سکتا ہے؟ دوسری طرف واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ جس میٹنگ میں جناب عمران خان کی زیرِ صدارت پلاننگ ہوئی تھی کہ ان کی گرفتاری کی صورت میں کس طرح اور کہاں کہاں احتجاج کرنا ہے اس کی تمام تر تفصیلات فریقِ ثانی کے پاس ڈاکیومنٹری ثبوتوں کے ساتھ موجود ہیں۔ اپنے آپ کو اس معاملے سے بالکل بری الذمہ قرار دینے والے عمران خان کو ان ثبوتوں کے بارے میں بتا دیا گیا ہے۔ شاید اسی لیے انہوں نے حسبِ عادت یو ٹرن لیتے ہوئے لاتعلقی ختم کر کے اپنی طرف سے ’’محفوظ اعتراف‘‘ کر لیا ہے مگر یہ اعتراف آگے چل کر ان کے لیے بڑی مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔

اس سے یہ بات تو واضح ہو ہی گئی ہے کہ جناب عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے فوجی تنصیبات کو جلاؤ گھیراؤ کے واقعات وقتی ردِ عمل کا نتیجہ نہیں تھے بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فوجی تنصیبات پر حملہ کیا گیا تھا۔