اسماء اشرف منہاس
ابا سونے کے لیے لیٹ چکے تھے جب وہ ان کے پاس آبیٹھا تھا۔
’’ابا! آپ سے ایک بات کرنا تھی۔‘‘
’’ہاں کہو بیٹا!‘‘
انھوں نے پیار سے اپنے ہونہار سپوت کو دیکھا جو ان کی امیدوں کا مرکز تھا۔
’’آپ کو پتا ہے میرے دوست جمال نے اپنی زمین بیچ دی ہے۔‘‘
’’زمین بیچ دی ہے؟‘‘ ابا اس کی بات سن کر اٹھ کر بیٹھ گئے۔
’’ایسا کیا ہوگیا کہ جمال احمد کو زمین بیچنا پڑگئی؟‘‘
’’دراصل جمال نے باہر جانے کے لیے ایجنٹ کو پیسے دینے تھے اس لیے، ابا آپ کو پتا ہے کہ ان کی زمین لاکھوں میں بکی ہے۔‘‘ وہ بڑے جوش سے بتا رہا تھا۔
’’وہاں پر کوئی نئی سوسائٹی بن رہی ہے۔ اس لیے سوسائٹی کا مالک منہ مانگی قیمت پر زمین خرید رہا ہے اور لوگ بھی بیچ رہے ہیں۔ جمال نے آدھے پیسے تو ایجنٹ کو دے دیے۔ اس کے بعد بھی اتنے پیسے بچ گئے ہیں کہ انھوں نے باقی بینک میں رکھوادیے ہیں، جہاں سے ہر مہینے اچھا خاصا منافع ملا کرے گا۔‘‘
جوش میں کہتے کہتے اس کی نظر ابا کے چہرے پر جا پڑی تھی جو غصے سے سرخ ہوچکا تھا۔ وہ خاموش ہوگیا۔
’’بینک سے منافع لیں گے یعنی سود کھائیں گے۔ سود جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف کھلی جنگ ہے۔‘‘ ابا بہت غصے میں کہہ رہے تھے۔
’’یہ تو اب سب کر رہے ہیں۔ آدھے سے زیادہ گاؤں اپنی زمینیں سوسائٹی والوں کو بیچ کر پیسہ بینک میں رکھوا چکا ہے۔‘‘
وہ آہستہ آواز میں کہہ رہا تھا مگر ابا کے تیور دیکھ کر وہ سمجھ چکا تھا کہ اب وہ اصل بات نہیں کہہ پائے گا۔ اتنے دن ہمت جمع کرنے کے بعد تو وہ ابا سے بات کرنے آیا تھا۔ مگر سود جیسا غلط موضوع چھیڑ کر اس نے گویا اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار لی تھی۔ وہ ساتھ والے بستر پر جا کر لیٹ گیا تھا۔ مگر وہ جب تک جاگتا رہا تھا۔ ابا ایک ہی دعا کرتے رہے تھے: ’’یا اللہ! اس بستی کو سود کے عذاب سے بچا، یا اللہ اس بستی کو سود کے عذاب سے بچا۔‘‘
اسے پچھتاوں نے گھیر لیا۔ کاش اس نے جمال کا ذکر ہی نہ کیا ہوتا۔
٭…٭
جو بات وہ ابا سے کئی دنوں سے کرنا چاہ رہا تھا اسے جلد ہی اس کا موقع مل گیا۔ وہ منڈی میں گندم بیچنے گیا تھا جس کی کوڑیوں میں قیمت لگی تھی۔ وہ شدید غصے اور افسوس کی حالت میں گھر آیا تھا، ابا آخر ہم کب تک زمین داری جیسے بے کار اور بے فائدہ کام میں جان مارتے رہیں گے۔ ہم پورا سال محنت کرتے ہیں پیسہ خرچ کرتے ہیں اور ہماری خون پسینے کی کمائی کا فیصلہ منڈی میں بیٹھا بے حس اور خود غرض سیٹھ کرتا ہے جو خود کبھی اٹھ کر پانی بھی نہیں پیتا اور بیٹھے بٹھائے لاکھوں کا مالک بن جاتا ہے۔ غصے سے اس کی آواز لرز رہی تھی۔
’’ناں بیٹا! ایسا نہیں کہتے، زمین داری ہرگز بے فائدہ کام نہیں۔ اللہ نے ہمیں وسیلہ بنایا ہے رزق اگانے اور اللہ کی مخلوق کا پیٹ بھرنے کا۔ ارے ہم تو بادشاہ ہیں۔ اپنا رزق خود اگاتے ہیں۔ خود بھی کھاتے ہیں دوسروں کو بھی کھلاتے ہیں۔ ہم کسی کے محتاج نہیں۔‘‘
’’ابا آپ مجھے قائل نہیں کرسکتے۔ آج وہ کچھ سننے کو تیار نہیں تھا۔ اوپر سے آپ نہ کھاد ڈالنے دیتے ہیں، نہ زیادہ فصل دینے والا زہر لگا بیج استعمال کرنے دیتے ہیں، نہ ہی فصل پر کیمیائی چھڑکاؤ کرنے دیتے ہیں کہ یہ اللہ کی مخلوق کے ساتھ گھناؤنا جرم ہے۔ اسی وجہ سے ہمارا اناج سب سے کم ہوتا ہے اور قیمت بھی ایسی لگتی ہے کہ سن کر شرم آجاتی ہے۔ بس میں نے فیصلہ کرلیا ہے۔ ہم بھی سوسائٹی والوں کو زمین بیچ دیں گے وہی پیسے میں ایجنٹ کو دے کر ویزہ خریدوں گا اور باہر چلا جاؤں گا۔ پھر آپ کو ضرورت ہی نہیں پڑے گی اتنی محنت کرنے۔‘‘ وہ اپنی رَو میں بہہ کر ساری بات کہہ چکا تھا اور ابا دکھ اور صدمے سے اسے دیکھے جا رہے تھے۔ کتنی آسانی سے اس نے اپنے قدموں تلے کی زمین بیچ کر غیروں کی زمین پر جا بسنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ وہ اتنا نادان بھلا کیسے ہوسکتا تھا۔
’’بیٹا!میں بوڑھا ہوچکا ہوں۔ تم تو میرا بازو ہو۔ بازو جسم سے جدا ہوجائے تو جسم بے کار ہوجاتا ہے۔ تم پر بہت ساری ذمہ داریاں ہیں۔ تمہاری بہنیں بھی ہیں وہ بھی اب تمہاری ہی ذمہ داری ہیں۔ ابا بہت بے چارگی کے ساتھ اسے احساس دلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ مگر وہ اپنی ہی بات کیے جا رہا تھا۔
’’ابا مجھے جانے دیں یہاں کچھ نہیں رکھا۔ میں باہر جاکر خوب پیسے کماؤں گا۔ آپ میری بہنوں کی شادیاں بھی دھوم دھام سے کرسکیں گے اور آپ کو زمینوں پر مشقت کرنے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔ یہ زمین آپ کو کچھ نہیں دینے والی۔
ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا
اس دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ بخارا
ابا کو اقبال بہت پسند تھے۔ وہ بچپن سے ان کی زبانی اقبال کے شعر سنتا آرہا تھا۔ ابا کو جب کوئی بڑی دلیل دینی ہوتی۔ تب وہ اقبال کا سہارا لیتے
جس سمت میں چاہے صفتِ سیل رواں چل
وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
وہ شعر سنا کر خاموش ہوگئے تھے۔ مگر اسے اب کوئی چیز روک نہیں سکتی تھی۔ اس نے جو ٹھان رکھا تھا وہی کیا ابا جوان بیٹے کی خواہشوں کے سامنے مزاحمت نہ کرسکے زمین بک گئی اور وہ چلا بھی گیا۔ ابا کو لگتا تھا جیسے ان کے ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے ہوں۔ ان کی بادشاہت بھی گئی تھی اور طاقت بھی۔ انھیں اپنی زمین سے ہر چیز دستیاب ہوتی تھی۔ پھل، سبزیاں، اناج، مگر اس دفعہ گھر میں نہ سبزی تھی نہ پھل نہ دالیں نہ گندم۔ وہ بازار جاتے اور تھوڑی سی سبزی اور تھوڑا سا پھل خرید پائے۔ پتہ چلا سب کچھ انڈیا سے آرہا ہے اس لیے مہنگا ہے۔ پھر اس سے بھی بڑی آفت آگئی ملک میں آٹے کا بحران پیدا ہوگیا۔ آٹا موجود تھا ہر جگہ موجود تھا مگر اس قدر مہنگا کہ ایک چھوٹی بوری ہزاروں میں بکنے لگی۔ جو صرف چند ہی دن نکالتی اور آٹا بھی ناقص اور گھٹیا درجے کا ہوتا۔ ان کی قوتِ خرید دن بدن کم ہو رہی تھی یہاں تک کہ ایک دن انھیں سرکاری آٹے کے لیے جاکر قطار میں لگنا پڑا۔ صبح سے شام ہوگئی مگر ان کی باری آنے نہیں دے رہی تھی اور پھر پتہ چلا آٹا ختم ہوگیا ہے۔ اب دو دن بعد دوبارہ آئے گا۔ دو دن بعد وہ پھر قطار میں کھڑے تھے۔ کئی گھنٹوں کے بعد ان کی باری آئی۔ پھر نجانے کیا ہوا اچانک وہ چکرا کر گرے تھے اور اتنے میں کسی نے ٹرک پر سے آٹے کی بوری ان کی طرف پھینکی تھی۔ جو ان کے اوپر آگری۔ ان کا سر کسی سخت چیز پر لگا تھا اور پھر دنیا جیسے اندھیر ہوگئی۔ وہ جو کچھ عرصہ پہلے تک اپنا رزق خود اگانے پر قادر تھے۔ اب ذرا سے آٹے کے لیے ذلیل و خوار ہو رہے تھے۔ ان کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ نجانے کون انھیں کس طرح گھر لایا۔ جب وہ ہوش میں آئے تو دیکھا کہ بیوی اور بیٹیاں ان کی چارپائی کے پاس بیٹھی رو رہی تھیں۔ انھیں لگتا تھا وہ اب زندہ نہں رہیں گے۔ انھیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ زیادہ تکلیف سر کی چوٹ نے پہنچائی ہے یا محتاجی اور محرومی نے۔ پھر کہیں فون کی گھنٹی بجی تھی ان کی بیٹی نے فون ان کے کان کے ساتھ لگادیا تھا ابا بھائی ہے آپ سے بات کرنا چاہتا ہے۔ انھوں نے سنا وہ رو رہا تھا۔ پریشان تھا۔ ابا ایجنٹ نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا۔ میں واپس آرہا ہوں اب صحیح کہتے تھے۔ سب کچھ صحیح کہتے تھے میں ہی غلط تھا۔ میں بہت جلد واپس آرہا ہوں ابا میں آپ کی زمین واپس لے لوں گا آپ فکر نہ کریں۔ ہم پھر سے اپنے لیے اور اللہ کی مخلوق کے لیے رزق اگائیں گے۔ ہماری زمین پھر سے سونا اگلے گی۔ آپ بالکل فکر نہ کریں وہ بہت کچھ کہے جا رہا تھا۔ مگر ابا تو یہی سن کر دوبارہ جی اٹھے تھے کہ ان کا بیٹا واپس آرہا ہے۔ ان کی بادشاہت واپس آرہی ہے۔
٭٭٭