Asal Jang BKI 1154

اصل جنگ

مہک ایوبی

مری چوک کے اس اونچے آنگن والے گھر میں سنہری دھوپ بھر چکی تھی۔ داخلی دروازے پر لگا سوخ نارنجی رنگ کا پردے کا رنگ دھوپ کی وجہ سے بجھ بجھا گیا تھا۔

چمکتی دھوپ میں گلہریاں اور چڑیاں مسلسل برگد کے پیڑ کا طواف کرنے میں مصروف تھیں، جب سیڑھیوں پر سے دھپ دھپ کی آواز کے ساتھ ہمایوں نیچے اترنے لگا تھا۔ کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبوؤں سے بھرے کچن میں چٹنی کے لیے دہی پھینٹتی مریم کے ہاتھ لمحے بھر کو رکے اور وہ تاسف سے سر ہلا کر دوبارہ سے کام میں مصروف ہوگئی۔

عین اسی وقت اس دھپ دھپ کی آواز نے برآمدے میں بیٹھے اخبار اپنے چہرے کے سامنے کھولے آدمی نے لحظہ بھر کر آنکھیں اٹھا کر اوپر دیکھا اور ایک گہری سانس بھر کر واپس سے اخبار کی طرف متوجہ ہوگیا۔

ہمایوں سیڑھیاں اتر کر برآمدے کے باہر لگے آئینے نیند سے بھری آنکھوں کے ساتھ دیکھتے ہوئے عادتاً بالوں میں انگلیاں چلانے لگا۔

’’اٹھ گیا شہزادہ!‘‘ مریم نے طنز کرنا ضروری سمجھا۔

’’امی کتنی بار کہا ہے آپ اتوار والے دن اتنی جلدی مت اٹھایا کریں ایک ہی تو چھٹی…‘‘

اور تبھی ہمایوں کی نظر سامنے صوفے پر بیٹھے آدمی پر پڑی اور اس کا جملہ ادھورا رہ گیا۔

’’ارسل ماموں…‘‘ ہمایوں حیرت کے مارے حلق کے بل چلایا۔

ارسل نے دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ اخبار میز پر ڈال دیا گویا اسی کی توقع تھی۔
ہمایوں تیزی سے آگے بڑھ کر ارسل سے بغل گیر ہوا۔ اسے آمنہ کے بار بار جگانے کی وجہ اب سمجھ آرہی تھی۔

ہمایوں نے ا نہیں کے ساتھ صوفے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
’’کب آئے آپ سیالکوٹ سے؟‘‘

’’آج صبح ہی… اور یہ تمہارے لیے لایا ہوں۔‘‘
ارسل ماموں نے برآمدے کے ایک کونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ جہاں ایک خوب صورت سا کینوس، کئی سارے برش اور رنگ پڑے تھے۔

’’واؤ!‘‘ ہمایوں کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ وہ اٹھ کر ان کے قریب چلا گیا۔
’’بہت شکریہ ماموں! آپ بالکل صحیح وقت پر میرے لیے یہ تحفہ لائے ہیں اگلے ہی ہفتے ہمارے اسکول میں پینٹنگ کا مقابلہ منعقد کیا گیا ہے اور میرے پاس کچھ چیزیں کم تھیں جو میں لینے کا سوچ رہا تھا۔ آپ نے انہیں پورا کردیا۔‘‘

ہمایوں کے لہجے سے خوشی چہک رہی تھی۔ ارسل ماموں نے سر کو ذرا سا خم دیا گویا ہمایوں کا شکریہ قبول کرلیا ہو۔
یوں تو ہمایوں کے چار ماموں تھے مگر ہمایوں کو سب سے زیادہ لگاؤ ارسل ہی سے تھا جس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ان کا مزاج بہت دوستانہ تھا اور دوسرا یہ کہ ان کے پاس ہمایوں کے ہر مسئلے کا حل موجود ہوتا تھا۔ کم از کم ہمایوں کو یہی لگتا تھا۔

’’واہ یہ تو بہت اچھی خبر ہے تو پھر کتنی تیاری کرلی ہے تم نے جیتنے کی؟‘‘ ارسل ماموں نے دلچسپی سے پوچھا۔
’’میری تیاری تو ہمیشہ کی طرح مکمل ہے مگر اس بار ایک مسئلہ ہے۔‘‘ ہمایوں کے چہکتے ہوئے لہجے میں پہلی بار پریشانی جھلکی۔

’’اور وہ کیا؟‘‘ ارسل ماموں نے اچھنبے سے پوچھا۔
’’اس مسئلے کا نام ہے برہان۔‘‘ ہمایوں نے گہری سانس بھر کر کہا۔

’’ہیں؟ یہ کیسا مسئلہ ہے پہلی بار نام سنا ہے حالانکہ میرا اور مسئلوں کا کافی مضبوط رشتہ رہ چکا ہے، مگر اس نام کا مسئلہ پہلی بار سننے میں آیا ہے۔‘‘ ارسل ماموںنے ہنسی اڑائی۔

’’ماموں! یہ کوئی ایسا ویسا مسئلہ نہیں ہے، اسے ہلکے میں مت لیجیے گا۔‘‘ ہمایوں نے ہاتھ نچا کر کہا۔
’’وہ واقعی ایک زبردست پینٹر ہے، اتنا زبردست کہ جب آپ اس کی پینٹنگز دیکھیں گے تو آنکھیں جھپکنا بھول جائیں گے۔‘‘

’’تم واقعی اس سے متاثر ہو؟ کیا وہ تم سے بھی اچھا پینٹر ہے؟‘‘
ارسل ماموں نے حیرت سے ایک ابرو اٹھا کر سامنے برآمدے کی دیوار پر لگی پینٹنگ کو دیکھتے ہوئے کہا جس پر بہت ہی خوب صورت شام کا منظر بنا ہوا تھا۔

ہمایوں نے ان کی نظر کے تعاقب میں اپنی پینٹنگ کو دیکھا اور سر جھٹک کر کہا:
’’ماموں میری پینٹنگز اس کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں اور اس بار مجھے اپنی جیت کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔‘‘ ہمایوں نے مایوسی سے کہا۔

ارسل ماموں صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر نظریں اس ک ے چہرے پر جمائے بالکل خاموش بیٹھے تھے۔
’’لیکن میرے پاس ایک پلان ہے۔‘‘ ہمایوں نے نظریں اٹھائے بغیر لہجے کو مضبوط بنانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا جس میں وہ بری طرح ناکام رہا۔

’’میں جانتا ہوں کہ آپ کہیں گے مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے، یہ غلط ہے مگر میں مجبور ہوں میں اتنے سالوں سے یہ مقابلہ مسلسل جیتتا آرہا ہوں اور اب کسی بھی صورت ہارنا نہیں چاہتا، میں برہان کی پینٹنگز خراب کردوں گا۔‘‘ آخری جملہ ہمایوں نے دھیمے لہجے میں کہا۔
وہ ارسل ماموں کی جانب سے کسی شدید رد عمل کی توقع میں ان کی جانب دیکھ رہا تھا جو بہت ہی سنجیدگی اور دلچسپی سے ہمایوں کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔

’’مطلب تمہیں اس بار دو مقابلوں کی تیاری کرنی ہے۔‘‘
’’دو مقابلے؟ میں سمجھا نہیں۔‘‘

’’ہاں دو مقابلے!‘‘ ارسل ماموں نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔

’’تم پر یقین نہیں ہو کہ تم برہان کی ڈرائنگز خراب کروگے یا نہیں۔‘‘ ہمایوں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔
’’یہ تمہارے لہجے کی کمزوری اور چہرے پر چھائی کشمکش بتا رہی ہے۔ تم الجھن میں ہو کروں یا نہ کروں؟ صحیح ہے یا غلط؟ یہ دراصل تمہارے نفس کی جنگ ہے جو واحد اور اصل جنگ کہلاتی ہے۔اگر تم غصے میں بے قابو ہوگئے اور سامنے میز پر پڑا گلاس اٹھا کر تڑ دیا تو تم ہار گئے، لیکن اگر تم نے خود پر قابو پالیا اور صحیح راستے پر آگئے گلاس نہ توڑ کر تو تم نے یہ جنگ جیت لی۔ تم اگر اپنی صلاحیتوں سے بدگمان ہوکر کوئی ایسا قدم اٹھالیتے ہو تو اس میں تمہاری شکست ہوگی اور تمہاری بدگمانی کی وجہ سے ہی ہوگی۔ کیونکہ تمہارے ساتھ کیا ہوگا اس کا اسی فیصد امکان تمہارے گمان پر منحصر ہے۔ اسے توقعات کا نظریہ کہتے ہیں۔‘‘ ارسل ماموں سانس لینے کو رکے۔

’’توقعات کا نظریہ!!!!‘‘ ہمایوں آگے کو ہوا۔
’’جی ہاں! اگر آپ کسی چیز کے خراب یا اچھے ہونے کی توقع کرتے ہیں تو یہ ان چیزوں پر، تم پر، تمہارے رویے اور طرزِ عمل پر اثر انداز ہوگا، وہ بھی اسی فیصد۔ اگر تم محنت کرنے کے ساتھ اچھی چیزوں کے رونما ہونے کی توقع کروگے تو تمہارا رویہ اور طرز عمل خود بخود تمہاری جیت کے امکانات کو بڑھادے گا۔ اگر تم توقع کروگے کہ تم اپنا بہترین دوگے تو تم واقعی اپنا بہترین دوگے۔ لیکن اگر تم اس کے برعکس سوچوگے چیزوں کے خراب ہونے کی توقعات کو تیار کرلوگے تو یقینا تمہارا رویہ اور طرز عمل تمہاری ہار کے امکانات کو بڑھادے گا۔

میں نے اپنی زندگی میں چار انٹرویو دئیے ہیں۔ جن میں سے میں نے تین انٹرویو میں زبردست کامیابی حاصل کی اور ایک میں فیل ہوگیا۔ یہ تین وہ ہے جن کے بارے میں میرا ذہن اچھے گمان سے بھرا ہوا تھا اور چوتھا وہ تھا جس کے بارے میں، میں نے پہلے ہی اپنا ذہن بنالیا تھا کہ مجھے اس میں فیل ہی ہونا ہے۔ تم اپنی توقعات خود تیار کرسکتے ہو۔ تم اچھی چیزوں کے ہونے کی توقع رکھ سکتے ہو۔ بری توقعات کا رکھنا ایک نہایت ہی مایوس کن اور منفی رویہ ہے اسے بار بار دہرا کر اپنی عادت مت بننے دینا۔
اگر تمہارے اندر کوئی تمغہ جیتنے کی صلاحیت ہے تو اس تمغے کو جیتنے کی کوشش کرو ہر ممکن کوشش کرو۔

تمہارے اور برہان کے درمیان مقابلہ، کوئی جنگ نہیں ہے، اسے تم نے جنگ بنادیا ہے۔ اصل جنگ تو تمہارے اندر چل رہی ہے۔‘‘
’’کیا یہاں کسی جنگ کے بارے میں باتیں ہو رہی ہیں؟ ‘‘ مریم نے گرم گرم پکوڑے میز پر سجاتے ہوئے دونوں کے چہروںکو مسکراتے ہوئے دیکھا۔

ارسل ماموں نے سوالیہ نظروں سے ہمایوں کی جانب دیکھا لیکن وہ تو کسی اور ہی سوچ میں غرق تھا۔ماموں نے مسکراتے ہوئے نظروں کا رخ پکوڑوں کی جانب موڑ لیا، انہوں نے ایک ’اصل جنگ‘ کی خبر ہمایوں کو دے دی تھی اور اب پوری توقع تھی کہ وہ یہ جنگ جیت جائے گا۔
٭٭٭