وہ شخص ہمت اور حوصلے کا پہاڑ تھا۔اس کی زندگی کامقصد پاکستان کے نوجوانوں کو مضبوط بناناتھا۔دینی مدرسے کا ایک طالب علم اتفاق سے اُس تک جاپہنچا، یوں شوق،لگن،جدو جہد اور عزم کے رنگین جذبوں سے سجی داستان زیبِ قرطاس ہوئی!
ایک ایسے شخص کا تذکرہ جو دولت پر فن کو ترجیح دیتا تھا…!
راوی: سیہان انعام اللہ خان مرحوم
تحریر:رشید احمد منیب
میں جب کسی سے فائٹ کرتاہوں تو پہلے اسے پڑھتا ہوں۔ میں اس کی باڈی ، آنکھوں ، چہرے کی ساخت اور قدم رکھنے کے انداز کو غور سے دیکھتاہوں اور پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ یہ بندہ کس داؤ میں کامل ہوسکتاہے اور حملے میں یہ کون سا پینترا جلد بدل سکتا ہے ۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ میرا مدِ مقابل مجھے نہ پڑھ سکے۔ دراصل بات یہ ہے کہ بندہ اپنے بارے میں فورا ً بتادیتا ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہے اور اس میں کتنا دم ہے۔بس ہمیں ہنر آناچاہیے ۔ مقابلے کی جگہ اور ماحول کو سمجھے بغیراور مدِ مقابل کو پڑھے بغیر بھی لڑائی کی جاسکتی ہے لیکن جو لڑائی دشمن کو اچھی طرح پڑھ کر کی جاتی ہے اس کا لطف ہی کچھ اور ہوتاہے۔
میں نے ماسٹرالطاف کو اچھی طرح پڑھ لیا تھا اور مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ لڑائی میں پہلا وار کس طرح کا کرسکتاہے ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اس نے فائٹ شروع ہوتے ہی مجھے کک مارکر گرانے کی کوشش کی ۔ وہ غوطہ خور بہت اچھا تھا اور بہت تگڑا بندہ تھا لیکن اسے ہاتھوں پیروں کی لڑائی میں ابھی تربیت کی ضرورت تھی۔ اس نے جونہی کک اٹھائی میں نے پہلے سے سوچے ہوئے منصوبے کے مطابق اسے انر کک ماری یعنی اس لات کے اندرونی حصے پر ضرب لگائی جس پر باڈی کا وزن تھا،ایک لات تو اس نے مجھے مارنے کے لیے اٹھائی تھی۔ میری یہ کک اتنی پاور فل ہے کہ ایک مرتبہ میں نے اسی سے گائے کو گرادیا تھا۔جب ماسٹرالطاف کوانرکک لگی تو اس کی دونوں ٹانگیں ہوا میں چلی گئیں اور اس کا توازن بگڑ گیا۔ وہ سر کے بل گرتا لیکن وہ غوطہ خور تھا اس لیے اس نے اپنی باڈی کو سنبھالنے کی کوشش کی اور اس کے دونوں ہاتھ زمین پر پہلے لگے اور اور بعدمیں اس کی باڈی کا وزن آیا۔دونوں ہاتھ زمین پر پوری طرح نہیں جمے تھے اور باڈی کا وزن فوراً ہی پڑگیا تھا اس لیے اس کے دونوں ہاتھوں کے گٹے اپنی جگہ سے ہل گئے اور وہ فوری طور پر اٹھنے اور مقابلے پر آنے کے قابل نہ رہا۔ دو ہی سیکنڈ میں لڑائی ختم ہوگئی۔
ماسٹر الطاف جیسے بندے کے متعلق کسی کو خیال نہیں تھا کہ وہ دو سکینڈ بھی نکال نہ پائے گا۔ کلاس پر ایک ، دو لمحے کے لیے تو سکتہ طار ی ہوگیا۔میرا خیال تھا کہ اب کوئی مقابلے پر نہیں آئے گا لیکن یہ سوچ درست ثابت نہ ہوئی۔ چند لمحات کے وقفے کے بعد ماسٹر الطاف کا گہرا دوست میرے مقابلے پر آگیا۔میں نے اسے دیکھا تو اندازہ ہوگیا کہ وہ باڈی بلڈنگ کرتا رہاہے ۔ یہ قد میں ماسٹرالطاف کے برابر ہی تھا ۔ اس کے ہاتھ ،پیر بہت مضبوط تھے۔ شکل و صورت سے میں نے اندازہ لگالیا کہ پٹھان ہے اور غیرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر دوست کا بدلہ لینے میدان میں اتراہے ۔ میں نے سوچاکہ اس کو کچھ سبق سکھانا پڑے گا ورنہ ایک کے بعددوسرا غیرت کےچکر میں لڑنے کے لیے آتا رہا تو پوری کلاس ہی زخمی نہ ہوجائے۔ میں نے اندازہ لگالیا تھا کہ یہ مجھے مکوں سے مارنے کی کوشش کرے گا۔ اس لیے میں نے طے کرلیا کہ اسے کھلا کر مارنا چاہیے تاکہ اس کے دل میں کوئی حسرت یا خلش نہ رہ جائے ۔ جب فائٹ شروع ہوئی تو اس نے ایک دم مجھے مکوں پر رکھنے کی کوشش کی لیکن میں اتنا سیدھا ہوتا تو استاد کی جگہ پر کیو ں کھڑ اہوتا؟میں نے اسے کھلانا شروع کردیا۔ وہ مجھے دبانے کی کوشش میں آگے آرہا تھا اور میں انتظارکررہا تھا کہ وہ کوئی بڑی غلطی کرے ۔ میں نے اسے کوئی پنچ نہیں مارا بلکہ صرف بلاک کرتا رہا اور دائیں ،بائیں ہوکر بچتا رہا ۔ لڑائی شروع ہوئے ایک منٹ بھی نہ گزراتھا کہ اس نے غلطی کردی اور مجھے لات مارنے کی کوشش کی ۔ میں اسی وقت غلطی کا انتظار کررہاتھا ۔ ابھی اس کی فرنٹ کک سیدھی بھی نہیں ہوئی تھی کہ میر ی لو کک کافی رفتار سے اس کی ران پر پڑی اور وہ زمین پر گر گیا۔ اس سے اٹھا نہیں جارہا تھا کیوں کہ اس کی ایک ٹانگ جواب دے گئی تھی اور وہ کافی تکلیف محسوس کررہا تھا۔ اب میں تیزآواز میں کلاس سے کہا کہ اگرکسی اور کوبھی شوق ہے تو وہ میدان میں اتر آئے لیکن یہ بات یاد رکھنا کہ اب میں طبیعت کے ساتھ پٹائی کروں گا اور کسی کو ہلنے کا موقع نہیں دوںگا۔
کلاس کے سب لڑکے دو جوانوں کا حا ل دیکھ چکے تھے ۔وہ سمجھ گئے تھے کہ بندہ سفارش پر نہیں آیا۔ اس لیے وہ سب سیکھنے کے لیے تیار ہوگئے۔یہ ہماری پہلی کلاس تھی ۔ ماسٹر الطاف چند دنوں بعد کلاس میں آگیا۔ وہ بہترین شاگرد ثابت ہوا۔ ہر وقت کچھ سیکھنے کے لیےتیاررہتا۔ اس نے صرف کیوکشن ہی کی ٹریننگ نہیں لی بلکہ وہ سیلف ڈیفنس، اسٹریٹ فائٹ اور گوریلا طرز کے حملوں کی تربیت بھی لیتا رہا۔ اس طرح میرے شاگردوں میں وہ پہلا بندہ تھا جس نے مجھ سے پورا ہنر حاصل کرنے کی کوشش کی ۔
فوج کے ساتھ میرا تعلق تقریبا ًدس سال مسلسل رہا۔ بہت سے دل چسپ واقعات پیش آئے ۔ کئی معرکے لڑے ۔میں ملک کے دشمنوں کے ساتھ دوبدو لڑنا چاہتا تھا۔ بات یہ ہے کہ سقوطِ مشرقی پاکستان پر بہت رنج و غم تھا۔اس غم کو وہی سمجھ سکتاتھا جس کے دل میں خود بھی اس کادکھ موجود ہو۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ دشمن ملک کے ایک بڑے دستے نے ہمیں بارڈر کے قریب سے گرفتار کرلیا۔ اب اتفاق کی بات ہے کہ ہمارے ساتھ ہمارا نگران بھی گرفتار ہوگیاجس کا نام نشاط تھا۔ دشمن نے ہمیں پانچ ،پانچ کی تعداد میں تقسیم کرکے الگ الگ کوٹھریوں میں بند کردیا۔وہ اس سوچ میں تھے کہ انھیں مار ڈالا جائے یا انھیں بارڈر سے دور لےجاکرتفتیش کی جائے۔رات کے وقت انہوں نے ہمیں کافی ڈرایا دھمکایا کہ اپنے بارےمیں صحیح بات بتادو ورنہ ہم بہت تشدد کریں گے۔اگلے دن قیدیوں کو دال کا پتلاسا شورباتقسیم کیا جارہا تھا۔ سب لوگ اپنے اپنے برتن لے کر قطار میں ایک جگہ جار ہے تھے جہاں دشمن کا ایک فوجی ایک پتیلے سے ابلے ہوئے چاول کا چمچ اور دوسرے سے دال کا چمچ بھر کے ہر آدمی کی پلیٹ میں ڈال رہا تھا۔ میں اس کے قریب پہنچا تو نہ جانے میرے دل میں کیا آیا میں نے اس کی گردن کے ایک خاص حصے پر انگلی سے ضرب لگادی۔یہ میرا ایک خاص داؤ ہے جو خاص مواقع پر کام آتاہے ۔ انگلی کی ضرب لگتے ہی وہ فوجی گرا اور مرگیا۔ میرے ساتھی یکدم وہاں جمع ہوگئے اور شور مچ گیا۔ میں وہاں سے کھسک گیا۔ پہرے پر جو سپاہی موجود تھے ،انھیں سمجھ ہی نہ آئی کہ ہوا کیا ہے ؟وہ تیزی سے بھاگ کر آئے ۔ انھوں نے اپنے بندے کو دیکھاجو خلاص ہوا پڑا تھا۔انھوں نے میرے ساتھیوں پر لاٹھی چارج شرو ع کردیا۔ دو تین سپاہی مرنے والی کی لاش اٹھا کر لے گئے ۔ تھوڑی دیر میں اس جگہ کا انچارج آگیا ۔ اس نے بڑے غصے سے پوچھا کہ اسے کس نے مارا ہے ؟ ہم سب نے اسے بتایا کہ یہ تواچانک ہی گر ا اور مرگیا۔ معلوم نہیں کیا ہوا؟۔انچارج نے کہا میں اس کا پوسٹ مارٹم کروا رہا ہوں ۔اگر کوئی ضرب وغیرہ سامنے آئی تو سب لوگوں کو جواب دینا ہوگا۔ شام تک ڈاکٹروں کی طرف سے جواب آگیا کہ اس بندے کو برین ہیمبرج ہوا ہے ۔ اچانک دماغ پر خون کا دباؤ بڑھ گیا جس کی وجہ سے اس کے دماغ کی رگ پھٹ گئی ۔ کسی چوٹ یا تشدد کا کوئی نشان نہیں ہے ۔ انچارج نے یہ بات خود ہی آکر ہمیں بتائی ۔ اس کے بعد وہاں کی صورتِ حال معمول پرآگئی۔نشاط صاحب میری ہی کوٹھڑی میں تھے ۔ رات وہ میرےقریب آگئے اور کہنے لگے۔ مجھے معلوم ہے کہ اس بندے کو تم ہی نے مارا ہے ،لیکن براہ ِ کرم اب کوئی نئی حرکت مت کرنا۔ تم کسی بھی جگہ آرام سے نہیں بیٹھتے ۔ ابھی تو ہوسکتاہے کہ یہ لوگ ہمیں چھوڑ دیں لیکن تم نے کوئی گڑ بڑ کی تو سب ہی پھنس جائیں گے۔ میں نے کہا نشاط صاحب ! یہ خوش فہمی ہے کہ یہ لوگ ہمیں چھوڑ دیں گے ،یہ اوپر والوں کے آرڈر کا انتظار کررہے ہیں جو معلوم نہیں کیوں نہیں آرہا لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ ہمیں یہاں سے فورا ًً نکلنا ہے اور میں اسی کوشش میں ہوں کہ جیل توڑ کر نکل جاؤں ۔یہاں سے نکلنا اتنا مشکل نہیں ،لیکن ہمیں اندرونِ ملک کسی شہر میں بھیج دیاگیاتو ہم ساری زندگی واپس نہیں جاسکیں گے ۔ نشاط صاحب خاموش تو ہوگئے لیکن میں سمجھ گیا تھا کہ وہ افسروں والی سوچ میں ہیں۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم قیدیوں کے تبادلے میں چھوٹ جائیں گے لیکن میں سمجھ رہاتھا کہ ایسا نہیں ہوگا۔اس وقت وہ ہمیں سمگلر یا چورسمجھ رہے ہیں۔انھیں جونہی ہماری حقیقت معلوم ہوگی یہ فوراً ہمیں کسی خطرناک جگہ پہنچا دیں گے۔ اگلے دن میں نے دوتین لڑکوں سے کہا وہ میرےقریب رہیں ،میں کچھ کرنے والا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ بے فکر ہو جائیں۔ہمیں بھی معلوم ہے کہ یہاں سے واپسی مشکل ہے ۔ جو کرنا ہے کرگزرو۔جب ہم کھانا لینےکے لیے گئے تو میں نے ایک مرتبہ پھر وہی حرکت کردی ۔ دشمن کا ایک اور سپاہی کم ہوگیا۔ پہرے داروں میں کھلبلی مچ گئی۔چھ ،سات لڑکے پہلے ہی مرنے والےسپاہی کے پاس پہنچ گئے تھے ۔کسی کو اندازہ نہ ہوا کہ کس بندے نے اس پر ہاتھ صاف کیاہے ۔ لاش کودیکھتے ہی پہرے داروں نے ہم پر بندوقیں تان لیں اورجو لڑکے قریب موجود تھے ،انھیں ایک طرف کرکے ان کے ہاتھ باندھ دیے۔ میں ان میں شامل تھا۔ ہماری کافی پٹائی ہوئی۔ انچارج صاحب خو د بھی آگئے ۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ جس وقت ہمارا سپاہی گرا تو اس کے قریب ترین کون موجود تھا لیکن سب نے یہی کہا کہ وہ اچانک ہی گراہے ۔ہم سب تو اس کے بعد بھاگ کرآئے کہ اسے کیا ہوگیا؟پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں یہی آیا کہ سپاہی کو برین ہیمبرج ہوا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے انچارج سے کہا کہ یہ کوئی پراسرار چکر چل رہاہے ۔ اتنے صحت مند اورتگڑے فوجیوں کو برین ہیمبرج یوں نہیں ہوسکتا ۔ کوئی خاص بات ہے جس کا ہم سراغ نہیں لگا پار ہے ۔ شہر سے کوئی اچھی ٹیم بلوانی چاہیے ۔ یہ باتیں ہمیں انچارج کے ایک خاص بندے نے بتائی تھیں ۔ اسے یقین تھا کہ ہم اسمگلر ہیں اور جلد ہی یہاں سے رہا ہوجائیں گے کیوں کہ یہ لوگ پہلے بھی اسمگلروں کو پکڑتے رہے تھے۔ اسمگلروں کا خیال رکھنے والے افسروں او ر سپاہیوں کو بعد میں خصوصی تحفے ملتے تھے اس لیے وہ ہمارے ساتھ تعلقات بڑھا رہا تھا۔ میں اس بات سے واقف نہیں ہوسکا کہ ہمارے بارے میں وہ کسی نتیجے پر کیوں نہ پہنچ سکے تھے،خراب موسم بھی اس کی ایک وجہ ہوسکتی تھی اور کوئی اور چکر بھی ممکن تھا۔پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آنے کے بعد ہماری رسیاں کھول دی گئی تھیں ۔ انچارج نے کہا کہ یہ مار کٹائی تو اس لیے ہور ہی ہے کہ ہمارے دو بندے مارے گئے ہیں اور ہمیں اس کی وجہ معلوم نہیں ہورہی۔ میرے ساتھ جو لڑکے تھے ،وہ کہنے لگے کہ سر !آپ کے جوانوں نے ہمیں بہت مارا ہے ۔ اتنی مار تو گدھا بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ ہم واقعی اسمگلر ہیں۔آپ ہمیں رہا کردیں تو ہم آپ کو کافی فائدہ پہنچائیں گے۔ مجھے انچارج کے چہرے سے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ حقائق کو جاننے کی کھوج میں ہے اور ہمیں کسی خاص چکر میں پھنسا کر اپنے نمبر بڑھانے کی کوشش کررہا ہے۔تیسرے دن اعلان ہوا کہ قیدیوں کو باہرنہیں نکالا جائے گا۔ سب اپنی کوٹھریوں میں ہی رہیں گے ۔کھاناانھیں وہیں پہنچایاجائے ۔ یہ چھ،سات کوٹھریاں آمنے سامنے تھیں۔ جب کھانا ملنے لگا تو میں دروازے کے پاس پہنچ گیا۔نشاط صاحب نے میرے آگے ہاتھ جوڑے کہ خدا کا واسطہ ہے کہ معاملات کومزید نہ بگاڑو۔ میں نے سنی ان سنی کردی۔مجھے اندازہ تھا کہ کھانا دینے والا اکیلا ہی آگے آرہا ہے ۔ پہرےدار کچھ دور تھے ۔ جونہی وہ ہماری کوٹھریوں کے درمیان پہنچا، میں نے پلک جھپکنے میں اس کا کام تمام کردیا۔ ایک شور مچ گیا۔ پہرے داردوڑ پڑے۔فوراًہی انچارج صاحب پہنچ گئے ۔ انھوں نے ہم دوکوٹھریوںوالے تمام لڑکوں کو الگ کروالیا اور سب کی خوب پٹائی ہوئی۔ سب لڑکوں نے یہی کہا کہ ہم کچھ نہیں جانتے کہ یہ کیا ہورہاہے ؟ انچارج صاحب مجھے گھور گھور کر دیکھ رہے تھے۔ کیوں کہ میں خاموشی سے مارکھاتا رہتا تھا اور بے فکر سا بھی نظر آتا تھا۔ وہ کہنے لگے کہ تم مجھے سب سے خطرناک آدمی لگتے ہو۔ مجھے تم پر ہی شک ہے کہ تم کوئی خاص چکر چلا رہے ہو۔ میں نے سوچا کہ اب بہادر بننے کی ضرورت نہیں۔ اسے تعریف کے جال میں پھنسانا چاہیے ۔ میں نےاسے بھرپور مکھن لگا یا اور کہا کہ سر! یہاں تو آپ ہی بادشاہ ہیں ۔آپ جو سمجھیں گے ٹھیک ہوگا اور جو کہیں گے وہی قانون ہوگا ۔ آپ کو لگ رہا ہے کہ میں کچھ کررہاہوں تو واقعی میرا جرم ہوگا ۔ اب میں اپنی صفائی میں کیا کہہ سکتاہوں۔ جب کوئی شخص اسمگلنگ کے دھندے میں پڑتا ہے تو وہ اپنی جان داؤپر لگا چکاہوتاہے ۔ انچارج مجھے گھورتا رہا ۔پھر اس نے کہا کہ تم دونوں کوٹھری والوں نے صبح تک کچھ بتادیا تو ٹھیک ہے ورنہ کل تمھاری زندگی کا آخری دن ہوگا۔ہم تمھیں زندہ چھوڑنے کا رسک نہیں لے سکتے ۔
(جاری ہے)
٭٭٭