Bicycle

وہ بچہ

Photo : FreePik

محمد ابوبکر اسلم۔ قصور

دروازے پر ہاتھ رکھ کر اسے اندر کی طرف دھکیلا تو وہ اندر کی طرف کھلتا ہی چلا گیا اور پیچھے پیچھے میں بھی اندر گھس گیا، کیونکہ مجھے یہاں کسی اجازت کی ضرورت محسوس نہ ہوتی تھی اور یہ دوسرا گھر ہے جہاں مجھے دلی راحت میسر آتی ہے۔

سامنے صحن میں چارپائی پر خالہ جان بیٹھی دسمبر کی سردی میں دھوپ سے لطف اندوز ہو رہی تھیں، جبکہ ان کی گود میں ایک بچہ سر رکھے سو رہا تھا، خالہ جان نے اس کے چہرے کو اپنے ڈوپٹے سے ڈھانپا ہوا تھا تاکہ گاؤں کی آوارہ مکھیاں اس کی نیند میں خلل ڈالنے سے باز رہیں، مجھے اس بچے پر ترس آرہا تھا۔ اس ننھے مہمان کو اپنے اوپر ٹوٹنے والی قیامت کا ذرا بھی علم نہیں تھا۔ اسے بالکل معلوم نہ تھا کہ اس کی ماںہمیشہ کے لیے اس کائنات سے روٹھ کر کسی دوسرے جہاں میں چلی گئی ہے، جہاں سے آج تک کوئی لوٹ کر واپس نہیں آیا۔

دروازے کی چرچراہٹ سن کر خالہ جان نے چونک کر ہماری طرف دیکھا اور ان کے چہرے پر ایک دلفریب مسکراہٹ پھیل گئی جسے دیکھ کر میرا دل سرشار ہوگیا، وہ اٹھ کر ملنا چاہتی تھیں لیکن سوئے ہوئے بچے کی نیند خراب ہونے کے ڈر سے بیٹھے بیٹھے سلام کرتے ہوئے میرے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرا۔ مگر میں تجسس کے ہاتھوں مجبور اس کی معصوم صورت دیکھنا چاہتا تھا لہٰذا میں دیکھنے کے لیے جھکا تو خالہ نے اسے جھنجھوڑ کر پکارا: مٹھو… مٹھو… اٹھ جا (خالہ اسے پیار سے مٹھو ہی کہتی ہیں) وہ ہڑبڑا کر اٹھا گیا اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھنے لگا تو میں نے اسے دونوںہاتھوں میں بھر کر سینے سے لگالیا اور خالہ ہماری خواہش کے مطابق ضیافت کے لیے چائے کے بجائے آلو ابال کر لے آئیں جنہیں میں نے گھر کی سبز مرچوں اور دھنیا سے بنی کھٹی چٹنی سے چٹخارے لے کر تناول فرمایا اور خالہ پاس بیٹھ کر اپنے دل کا غم ہلکا کرنے کے لیے مٹھو میاں کے قصے سنانے لگیں جو صحن میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ اٹکھیلیاں کر رہا تھا۔

رات کو میرے بستر پر پہنچنے سے پہلے مٹھو بستر پر پہنچ جاتا ہے اور میرا انتظار کرتا رہتا ہے، جب میں بستر پر جاتی ہوں تو میرے ساتھ چپک کر سو جاتا ہے… خالہ نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا… (انہیں اس کی ماں کے یوں فوت ہونے پر شدید غم تھا)

خالہ جی! کیا یہ بستر پر پیشاب نہیں کرتا۔ میں نے سوال کیا تو خالہ بولیں: نہیں! میں رات کو اسے اٹھا دیتی ہوں اور اسے چارپائی سے نیچے اتار کر کہتی ہوں: جا مٹھو پیشاب کر آنو یہ خود ہی پیشاب کر آتا ہے ’’مجھے بہت حیرانی ہوئی۔‘‘ پھر پاس پڑی فیڈر نما بوتل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہم نے اس سے بھی دودھ پلانے کی کوشش کی لیکن یہ دودھ تو بالکل نہیں پیتا دن بہ دن کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ خالہ کی باتیں ابھی جاری تھیں اور میں آلو کھاتے ہوئے مزے سے سن رہا تھا کہ مسجد کی کے لاؤڈ اسپیکر سے عصر کی اذان کی مسحور کن آواز نے مجھے قریب آنے والی ’رات‘ کی خبر دی تو میں نے خالہ سے اجازت لی تاکہ شام سے پہلے اپنے گھر واپس پہنچ جاؤں ورنہ بابا جانی سے جو درگت بنے گی وہ بھی آپ کو بتانی پڑے گی پھر جب اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھا اسے اسٹارٹ کرنے کا ارادہ کرنے ہی والا تھا کہ خالہ نے مجھے ایک تھیلے میں مٹھو کی ماں کا گوشت لاکر دیتے ہوئے کہا: یہ تحفہ گھر لے جاؤ چنانچہ میں نے بخوشی تحفہ قبول کرلیا اور گھر کی راہ لی۔

گھر پہنچ کر ماں جی نے اس گوشت سے مزیدار قسم کی مٹن کڑاہی بنائی کہ کھانے کا مزا دوبالا ہوگیا۔ کیاکہا…؟ آدم خور…! !!!!

اووووو… مجھے قارئین کے ذہنوں میں ابھرتے ہوئے تصورات سے آدم خور… آدم خور… کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں قبل اس کے کہ کوئی ایمان دار قاری ہماری آدھی بات سے ہمیں ’آدم خور‘ سمجھ کر برے برے منہ بنائے مکمل بات (حقیقت) بیان کردیتے ہیں۔

تو گھبرائیں نا کیونکہ مٹھو ایک بکری کا بچہ ہے اور میری بائیک سے لٹکے ہوئے شاپر میں اس کی ماں (بکری) کا گوشت تھا جسے کسی انہوں کی بنا پر ذبح کردیا گیا تھا۔

مکڑی اور جالا
محمد احمد اسامہ

مکڑی چھوٹی ٹانگوں والی، بڑی آنکھوں والی ہوتی ہے، مکڑی کی چھے یا آٹھ ٹانگیں ہوتی ہیں، چھے آنکھیں ہوتی ہیں۔ افلاطون کے قول کے مطابق مکڑی سب سے زیادہ قانع ہوتی ہے اور اللہ نے اس کی خوراک مکھی بنایا ہے جو کہ سب سے زیادہ حریص ہوتی ہے۔

مکڑی کے جب بچے پیدا ہوں تو بغیر کسی تعلیم و تلقین کے جالا بننے لگتے ہیں، بوقت پیدائش چھوٹے چھوٹے کیڑوں کی شکل میںہوتے ہیں، تین دن بعد مکمل مکڑی بن جاتے ہیں، مکڑی اپنے لعاب سے جالا بنتی ہے۔ اس کے بارے میں آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک ارشاد کا مفہوم ہے کہ اپنے گھروں سے مکڑی کے جالے صاف کیا کرو، کیونکہ ان کو گھروں میں چھوڑ دینا فقر لاتا ہے۔ مکڑی کے شرف و فخر کیلئے یہی کافی ہے کہ اس نے غارِ ثور پر جالا بُن کر آپ علیہ السلام کو ان کے دشمنوں سے بچالیا تھا۔ دوسری مرتبہ مکڑی نے اس غار پر بھی جالا بُن دیا تھا جس میں عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ نے پناہ لی تھی، یہ وہ صحابی ہیں جن کو آپ ﷺ نے گستاخ رسول خالد بن نبیح ہذلی کا سر لانے کے لیے مقامِ عرفہ کی جانب روانہ کیا تھا، مقامِ عرفہ سے مدینہ کی طرف واپسی پر یہ صحابی ایک غار میں روپوش ہوگئے تھے۔

ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت زید بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب کو ۱۲۱ھ میں سولی پر لٹکایا گیا تھا تب بھی ان کے ستر مبارک پر مکڑی نے جالا بُن دیا تھا۔

مکڑی کے جالے کے بارے میں لکھا ہے کہ اگر زخم سے خون نہ رک رہا ہو تو اس پر مکڑی کا جالا لگانے سے خون بند ہوجاتا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ اگر گھر میں آس کے درخت کے پتوں کی دھونی دی جائے تو تمام مکڑیاں گھر سے فرار ہوجائیں گی اور فقر کا سبب نہیں بن سکیں گی۔ (حوالہ: حیات الحیوان)

سائنسی تحقیق
مکڑی کا تعلق عالمِ حیوانات کے ’فائیلم آرتھروپوڈا‘ سے ہے۔ اس کو حشرات کی بجائے جماعتِ عنکبہ (ایرا کنیڈ) میں رکھا جاتا ہے۔ یہ اپنے جسم میں پیدا ہونے والے ریشم کی طرح کے مائع سے اپنا جالا بُنتی ہے۔ مکڑی کے کئی طرح کے جالے ہوتے ہیں، ایک جالا بیضوی شکل کا ہوتا ہے اور یہ خاصا عام ہے۔ یہ جالا ایسے پہیے کی مانند ہوتاہے جس میں ارے لگے ہوتے ہیں، بیضوی جالا بننے والی مکڑی زمین سے بہت بلندی پر جالا بُنتی ہے۔ جالا بننے کے لیے یہ عموماً درخت یا پودے کا انتخاب کرتی ہے، اپنی پچھلی ٹانگوں کو استعمال کرتے ہوئے مکڑی اپنے ریشم کش کی مدد سے ایک دھاگہ کھینچتی ہے، جب تک یہ دھاگہ کسی درخت کی شاخ، ٹہنی، ڈال یا کسی دوسری چیز سے نہیں چمٹ جاتا، تب تک یہ دھاگہ ہوا میں جھولتا رہتا ہے، اس پل نما دھاگے کو مضبوط اور محفوظ بنانے کے بعد مکڑی جالے کا باقی ڈھانچہ مکمل کرتی ہے۔مکڑی ایک بیضوی یا بیچ دار لمبے دھاگے کا حلقہ بنالیی ہے۔ یہ دھاگہ چپچپا ہوتا ہے، جس میں کیڑے مکوڑے پھنس جاتے ہیں، مکڑی احتیاط سے کام لیتے ہوئے اپنے بنے ہوئے ان دھاگوں پر چلتی ہے جو خشک ہوں اگر مکڑی چپچپے دھاگوں میں گر جائے تو ان میں نہیں پھنستی کیونکہ اس کے جسم پر روغنی تہہ ہوتی ہے۔