Photo : Internet
ام حمنہ۔ حیدر آباد
منو میاں اور بڑی بہنا کسی طور صلح پر آمادہ نہ تھے۔ بہنیں دو اور محمد عرف منو میاں ایک۔ بہنوں کے ساتھ بنے تو کیسے بنے؟ ان کے کھیل تتلیوں کے سے منو میاں کا مزاج شیر جیسا۔
بہنوں کو رنگ بھرنا پسند… منو میاں کو رنگ توڑنے کا شوق۔
بہنیں گھر بنائیں… منو میاں اس کی مرمت کردیں۔
بہنیں ٹیچر بنیں… منو میاں کو پرنسپل بننے کا شوق!!!!!
صلح ہو تو کیسے ہو؟ کون سا کھیل کھیلا جائے؟ طرہ یہ ہے کہ سامنے والے گھر میں بھی ان کی بہنوںکی طرح تین پریاں۔ پیچھے والے گھر میں بھی علیزے شانزے کی چٹ پٹی باتیں۔ منو میاں بے چارے تو ان لڑکیوں میں پھنس کے رہ گئے۔ بالآخر اماں جانی نے کہا: ’’آپ ہم سے دوستی کرلیں۔ دونوں بہنیں دوست میں اور آپ دوست۔‘‘
لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اماں کو یہ دوستی نبھانے کا وقت کم کم ہی ملتا۔ گھر کے ہزارہا کاموں کے ساتھ ان کو مدرسے بھی جانا ہوتا۔ پھر ان کی کتب بینی، تحریر نگاری، دستکاری کے شوق منو میاں کو بالکل نہ بھاتے لیکن منو بھی اپنے نام کے ایک ہی تھے۔ اماں کو متوجہ کرنے کے ان کے پاس ایک سو ایک طریقے تھے۔ مثلاً چینی کا ڈبا پھینک دینا، وکس آنکھوں پر لگانا، ہری مرچ چبالینا، ناک میں موتی پھنسانا اور اس جیسے کئی دل دہلا دینے والے کام کرکے وہ اماں کو دوستی نبھانے پر مجبور کردیتے۔
پھر ایسے ہی ایک موقع پر اماں نے دلار سے منو میاں سے پوچھاکون سی کہانی سناؤں؟ تو منو میاں نے کہا چوہے کی…!
اگرچہ اب تک اماں فی البدیہ کہانیاں سنانے کی ماہر ہوگئی تھیں اور یہ واحد شغل ایسا تھا جو روٹی پکانے، برتن دھونے کے دوران بھی جاری رہتا۔ لیکن کبھی کبھار اماں کا ذہن ایسا الجھا ہوتا کہ فوراً ہی کوئی کہانی سجھائی نہ دیتی۔ بالآخر اماں بولیں:
ایک بار ایک بچہ اپنے چاچا کے پاس بیٹھ کر کہانی سن رہا تھا۔ اس کی آنکھیں سامنے بڑی سی، پیاری سی گھڑی کو دیکھ رہی تھیں اچانک اسے گھڑی میںکوئی چیز حرکت کرتی نظر آئی۔ بچے نے غور سے دیکھا تو وہ تو ایک چھوٹا سا چوہا تھا، جو کبھی گھڑی کی سوئیوں پر لٹک جاتا کبھی گھڑی کے گھنٹے پر ابھی بچہ بہت حیرت سے چوہے کی حرکتیں دیکھ رہا تھا کہ گھڑی میں بہت زور سے آواز آئی… ٹن ن ن…!
اور چوہا ڈر کے مارے گھڑی سے نیچے گر گیا۔بچے نے سہم کر کہا: ’’چو… چو… چو… چو… چوہا چاچا۔‘‘
چاچا: ’’اے نالائق! کیا ہم چوہے ہیں؟‘‘
پاس کھڑی پھپو کھلکھلا کر ہنس دیں اور کہنے لگیں:
’’چو چو چو چو چاچا
گھڑی پہ چوہا ناچا
گھڑی نے ایک بجایا
چوہا نیچے آیا‘‘
تب سے یہ نظم بچوں کی کتاب میں شامل کردی گئی۔ آج تک سب بچے پڑھتے ہیں۔
’’واقعی اماں؟‘‘ بڑی بہنا نے حیرت سے پوچھا… نجانے کب دونوں بہنیں اپنا کھیل چھوڑ کر اماں کے پاس آگئی تھیں۔
’’پتا نہیں بیٹا ہم نے تو ایک کہانی سنائی ہے۔‘‘
’’اماں اب بلی والی‘‘ منو میاں کو کہانی سننے میں لمحے بھر کا وقفہ برداشت نہ تھا۔
’’عید آنے والی تھی۔ بلی بیگم بلے میاں سے کہنے لگیںکہ کب سے میاؤں بچے گھڑی چشمہ اور پرس لینے کہہ رہے ہیں۔
’’چلو بھئی چلو! مگر بچوں کو بغیر موزوں کے جوتے مت پہنادینا ورنہ بچے گھر رہیں گے۔‘‘
بلے میاں بولے تو بلی بیگم نے پریشانی سے کہا: ’’اوہو موزے تو میں رکھ کے بھول گئی ہوں۔‘‘بچے رونے لگے۔
بلی کے بچوںکے موزے کھو گئے ہیں
اور وہ رونے لگے ہیں
میاؤں میاؤں میاؤں
ایک دم میاؤں بچے چیخے: ’’مانو ماں! ہمارے موزے مل گئے۔‘‘
بلی کے بچوںکے موزے مل گئے ہیں
اور وہ ہنسنے لگے ہیں
میاؤں میاؤں میاؤں
بلی بیگم نے مسکرا کر دیکھا اور اپنے کالے، سفید اور کتھئی بچوں کو سمیٹ کر بلے صاحب کے ساتھ شاپنگ کرنے چلی گئیں۔
’’اماںکیا جانوروں کی بھی عید ہوتی ہے۔‘‘ بڑی بہنا نے پوچھا۔
’’پتا نہیں بیٹا ہم نے تو ایک کہانی سنائی ہے۔
’’اور اب چاند والی‘‘ تین سالہ منو کی خواہش اماں کا گلا خشک کردینے کو تھی۔
’’ایک پیارا سا منو… اپنی اماں سے ایسے چمٹ کر سوتا تھا۔ ایک رات پری روشنیوں والی گاڑی میں بیٹھ کر منو کے صحن میں آئی ۔روشنی سے منو کی آنکھ کھل گئی۔ پری نے کہا: ’’السلام علیکم منو میاں! میں چاند کی پری ہوں۔ میرے ساتھ کھیلنے چلیں۔‘‘
’’نہیں بھئی میں اپنی اماں کے بغیر کہیں نہیں جاتا اور اگر تم نے مجھے چاند پر روک لیا، واپس نہ بھیجا تو؟‘‘
’’نہیں… نہیں! وہاں سارے ستارے، بادل اور ننھے پری زاد آپ سے کھیلنا چاہتے ہیں۔ ہم نے آپ کے لیے کھیر، دودھ ملائی، برفی بھی تیار کی ہے۔‘‘
منے میاں جلدی واپس آنے کا وعدہ لے کر پری کے ساتھ کار میں بیٹھ گئے، زوں ں ں کی زوردار آواز کے ساتھ کار ہوا میں اڑنے لگی اور کافی دیر بعد منو چاند پر پہنچ گئے۔ ستارے باریک سی آواز میں انہیں دیکھ کر ہنسنے لگے۔ منو میاں ان کے پیچھے بھاگے تو وہ بادلوں میں چھپ گئے۔ اس آنکھ مچولی میں انہیں بہت مزہ آیا۔ ایک نرم نرم سے سفید بادل پر اچھلے تو انہیں جمپنگ کیسل یاد آگیا۔ کھیل کھیل کر جب وہ تھک گئے تو چندا ماما نے انہیں دودھ ملائی اور بور کے کھلائے۔ نجانے کیسے ان کے ہاتھ سے پیالی گر کر ٹوٹ گئی۔ منو میاں ڈر کر رونے لگے ان کا رونا سن کر بہت ساری پریاں آگئیں۔ ایک بولی:
چندا ماما دور کے!
آپ کھائیں تھالی میں ،منے کو دیں پیالی میں
پیالی گئی ٹوٹ منا گیا روٹھ
منے کو منائیں گے ہم دودھ ملائی کھائیں گے
اڑن کھٹولے بیٹھ کے منا چندہ کے گھر جائے گا
تاروں کے سنگ آنکھ مچولی کھیل کے دل بہلائے گا
کھیل کود سے جب میرے منے کا دل بھر جائے گا
جلدی جلدی میرا منا واپس گھر کو آئے گا
چندا ماما دور کے !
اتنے میں منے میاں کو نیند آنے لگی۔ انہوں نے کار والی پری سے کہا اب انہیں گھر چھوڑ دے۔پری کی گاڑی زوں ں… کرکے اڑی اور واپس پہنچی۔ منو میاں جلدی سے کار میں سے اتر کر اماں کے ہاتھ پر سر رکھ کر سوگئے۔
’’کیا یہ نظم ایسے بنی تھی اماں؟‘‘ بڑی بہنا نے پوچھا۔
’’پتا نہیں بیٹا ہم نے تو ایک کہانی سنائی ہے۔‘‘
اماں نے دھیرے سے کہا اور تینوں کو سوچ میں ڈوبا چھوڑ کر باورچی خانے کی طرف چلی گئیں۔