Libya

پرچم (7)

لیبیا
پربھاامبارکر

لیبیا کا جھنڈا کئی دہائیوں تک صرف سادہ سبز رنگ تھا۔ نہ کوئی لکھائی، نہ کوئی ڈیزائن۔ ایسا 1977 سے 2011 تک رہا۔ یہ معمر قذافی کا “الجماهيرية العربية الليبية الشعبية الاشتراكية” کا وقت تھا۔ (عظیم سوشلسٹ عوامی عرب جمہوریہ لیبیا)۔ وہ خود کو عرب قائدین کا سکالر کہتے تھے۔ اپنے بارے میں ان کی رائے ایک عظیم فلسفی اور ادبی شخصیت کی تھی۔ یہ سبز رنگ اسلام کے علاوہ ان کی “سبز کتاب” کا تھا۔ کتاب الخضر کے نام سے ان کی مختصر کتاب ان کے سیاسی فلسفے کی تھی جو کہ 1975 میں شائع ہوئی۔ یہ ماؤ زے تنگ کی “سرخ کتاب” کی طرز پر تھی۔ سادہ زبان میں نعرے جو کہ ذہن نشین ہو سکیں۔ مثلاً، “خواتین اتنی ہی انسان ہیں جتنے کہ مرد۔ یہ ناقابلِ تردید سچائی ہے”۔

قذافی کا اقتدار 2011 میں ختم ہوا۔ اس وقت ملک بھر میں بغاوت پھیل چکی تھی۔ بہت سے مظاہرین ملک کا پرانا جھنڈا لہرا رہے تھے۔ سبز کتاب کو نذر آتش کیا جا رہا تھا۔ قذافی کی موت کے ساتھ ملک کا جھنڈا بھی ختم ہو گیا۔ پرانے کی واپسی ہوئی اور اسے قومی جھنڈے کے طور پر اپنا لیا گیا۔ ملک کا نام لیبیا رکھ دیا گیا۔ جھنڈا سرخ، سیاہ اور سبز پٹیوں پر مشتمل تھا جس کے درمیان میں چاند اور تارہ بنا تھا۔

یہ جھنڈا لیبیا کی بادشاہت کا تھا جس نے اٹلی سے 1951 میں آزادی لی تھی۔ اور اس کی بنیاد سینوسیہ خاندان کے جھنڈے سے تھی۔ یہ مصر کے مشرق میں حکمرانی کرنے والے مسلمان فرمانروا تھے جن کا سیاہ جھنڈا تھا جس کے درمیان میں چاند تارہ تھا۔ سینوسیہ کے اس سیاہ جھنڈے میں سرخ کا اضافہ ملک کے جنوب میں فزان کے علاقے کی علامت کے طور پر کیا گیا جبکہ سبز کا اضافہ جو کہ شمال کے طرابلس کے علاقے کا روایتی رنگ تھا۔ 1951 میں بنے اس جھنڈے میں ان تینوں علاقوں کی یکجہتی کی علامت پر یہ پرچم بنایا گیا تھا جو پہلی بار ایک ریاست کے طور پر اکٹھے ہوئے تھے۔ 2011 میں یہ جھنڈا تو واپس آ گیا لیکن یکجہتی نہیں۔

لیبیا کا موجودہ جھنڈا 1951 سے 1969 تک استعمال ہوا تھا۔ جب 1969 میں تخت الٹایا گیا تو عرب جھنڈا استعمال ہونے لگا۔ 1972 سے 1977 تک سیریا، مصر اور لیبیا کے اتحاد سے بننے والی ریاست کا جھنڈا قومی پرچم رہا جسے قذافی نے 1977 میں بدل کر سبز رنگ کا کر دیا۔ 2011 میں 1951 کے جھنڈے کی واپسی ہوئی۔

لیبیا تین الگ علاقوں پر مشتمل ہے۔ طرابلس، برقہ اور فزان۔

طرابلس (Tripoli) کا نام یونانی لفظ سے لیا گیا ہے جس کے معنی “تین شہر” (tri polis) کے ہیں۔ یہ شہر اویا، سبراتا اور لپٹس ماگنا تھے۔ انہی پر اس علاقے کا نام پڑا۔ جب یونانی اس علاقے کے قریب آباد ہوئے تو انہوں نے اس سے چار سو میل مشرق میں سائرین کا شہر بسایا۔ اس کی نسبت سے علاقہ سائرینکا (عربی میں “برقہ”) کہلایا۔ جغرافیائی، سیاسی اور قومیتی حوالے سے یہ طرابلس اور فزان کے علاقوں سے جدا تھا۔ رومیوں کے بعد عرب آئے۔ پھر عثمانی اور آخر میں بیسویں صدی میں اطالوی۔ انہوں نے اس خطے کا نام “اطالوی شمالی افریقہ” رکھ دیا۔ اور اسے دو کالونیوں میں تقسیم رکھا۔ اطالوی طرابلس اور اطالوی برقہ۔ 1934 میں اطالوی کالونیولسٹ نے پرانے نام کا استعمال کیا جو کہ یونانی کرتے تھے۔ مصر کو نکال کر باقی شمالی افریقہ کو مجموعی طور پر لیبیا کہا جاتا تھا۔

دوسری جنگ عظیم میں اٹلی کو شکست ہوئی تو طرابلس اور برقہ برٹش کے پاس آئے جبکہ فزان کا علاقہ فرانس کے پاس۔ اور جب 1951 میں اٹلی ان علاقوں پر اپنے حق سے دستبردار ہو گیا تو نیا ملک تخلیق ہوا جو لیبیا کہلایا جس میں یہ تینوں علاقے پہلی مرتبہ ایک ریاست میں اکٹھے ہو گئے۔

ملک کا زیادہ وقت آمریت میں گزرا ہے جو مشترک قومیت نہیں بنا سکی۔ اور اس وقت ایسا مشکل لگتا ہے کہ یہ ایک متحد ملک کے طور پر جلد کامیاب ہو سکے۔ آج کا لیبیا غیرمستحکم ہے اور ناکامی کا شکار ہے۔ مستقبل میں یہی تقسیم جاری رہ سکتی ہے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ آپس میں ڈھیلا ڈھالا وفاقی نظام ابھر کر سامنے آ سکے۔

جھنڈے میں تین رنگ اس بات کی نمائندگی تو کرتے ہیں کہ یہ تین قوموں سے بنی ایک ریاست ہے۔ عملی طور پر اسے ممکن کرنا لیبیا کا چیلنج ہے۔
٭٭٭