Photo : FreePik
واعظ سرکالوی
صبح کاذب کا وقت تھا۔ ایک شجر کی شاخِ ناتواں پر بنے گھونسلے میں موجود پرندوں کا جوڑا اپنے نومولود بچوں کی صحت و خوراک کے بارے میں پریشان تھا۔ اس فکر نے چڑیا اور چڑے کی نیند کو غارت کردیا تھا۔ ان دنوں گرمی بامِ عروج پر تھی۔ دن چڑھتے ہی سورج اپنا جوبن دکھلاتا اور اس کی چمکتی ہوئی شعاعیں آنکھوں کو چندھیا دیتی تھیں۔حدت کی شدت نے جہاں اولادِ آدم کا خون خشک کر رکھا تھا تو وہیں اس نے پیڑ پتوں سے بھی نمی کو چوس لیا تھا۔ بڑے بڑے تن آور اور پانی ذخیرہ کرنے والے درختوں کے پتے بھی یوں معلوم ہوتے تھے گویا خشک ہوکر تپِ دق کے مریضوں کی طرح زرد ہوگئے ہوں۔ بے رحم گرمی نے ایک طرف بالائے زمین مخلوقات کو بے حال کر رکھا تھا تو دوسری جانب اس کے پنجۂ ظلم سے زیرِ آب مخلوقات بھی نہ بچ سکی تھیں۔ پرندوں کے لیے اول تو پانی کہیں دستیاب نہ تھا اور اگر کوئی درد شناس ان بے نطق مخلوقات کے لیے پانی کا انتظام کرتا بھی تو وہ پلک جھپکنے میں ہی بخارات بن کر یوں غائب ہوتا گویا اپنے وجود کے مدھم ترین نشان کو بھی مٹا جاتا۔
ان دگرگوں حالات میں چڑیا، چڑے اور ان کے بچوں کی زبوں حالی کا اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں۔ ان گرمی کے ستائے پرندوں کے پاس جہاں آب و دانہ کی کمی تھی وہیں ان کے کم سن بچوں کی حالت بھی گرمی کے باعث خراب ہوتی چلی جا رہی تھی۔ جھلساتی ہوئی گرمی ان بچوں اور ان کے والدین کے کلیجوں کو چیرتی ہی جا رہی تھی۔ نقاہت کے آثار ہرگزرتے لمحے کے ساتھ واضح تر ہوتے جا رہے تھے۔ اتنے میں صبح صادق کا وقت قریب آن پہنچا۔
چڑا اور چڑیا آپس میں آہستگی سے مشورہ کرنے لگے کہ آج کھانے کا بندوبست کیسے کیا جائے؟ بالآخر یہ طے پایا کہ چڑا خوراک کی تلاش میں نکلے گا اور چڑیا اپنے نحیف بچوں کی رکھوالی کے لیے گھونسلے میں ہی رہے گی۔ آخر کار چڑے نے پرواز شروع کردی۔ اڑنے سے پہلے چڑیا نے معنی خیز، مضمحل اور خوف زدہ نظروں سے چڑے کو دیکھا گویا ایک ناقابلِ سماعت انداز میں دریافت کر رہی ہو کہ آخر آج کیا ہوگا؟
چڑے کو اپنے آشیانے کے پاس تو کچھ بھی نہ ملا۔ گویا حالات یوں تھے کہ
ویران ہوا باغ خزاں سے یاں تلک
چاہیں تو جل مریں تو کہیں خاروخس نہیں
بہر کیف! آگے تو بڑھنا تھا۔ جب سفر کافی طویل ہوگیا تو آخر کار قدرت کو بھی اس طائر نحیفی پر رحم آگیا۔ چڑے نے دیکھا تو ایک زمین دار کے گھر کا صحن جس میں اناج منوں کے لحاظ سے بکھرا ہوا پڑا تھا۔ گویا دھوپ لگوانے کے بعد ذخیرہ کرنے کا ارادہ ہو۔ قریب ہی کام کرنے والے مزدوروں نے اپنے لیے پانی کا انتظام بھی کیا تھا۔ نعائمِ فطرت کی یہ بہتات دیکھ کر یک لخت چڑے کی زبان سے کلماتِ تشکر بلند ہوئے لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ چڑا خود تو ان نعمتوں سے فیض یاب ہوجاتا لیکن اپنے خاندان کی کفالت کیسے کرتا کیونکہ اتنی دور واپس اڑ کے جانا اور پھر صعوبت یہ کہ بیک وقت اپنی چونچ میں ایک سے زیادہ دانہ نہ رکھ سکتا تھا۔ اولاد کی محبت تمام مشکلات پر غالب آچکی تھی۔ اپنے ننھے ننھے بچوں کا سوچ کر چڑے کو اپنی تشنگی کا احساس ہی نہ رہا۔ وہ خود کھانا پینا بھول گیا اور اپنی چونچ میں اناج لے کر گھونسلے کی طرف چلا۔ کافی دیر بعد پہنچا تو دانہ جاکر چڑیا کو جا دیا۔ اتنے میں چڑیا نے بھی چند قطرات پانی کے ارد گرد سے جمع کرلیے تھے۔ یہ سوچ کر چڑے کو کچھ ڈھارس ملی۔ دانا لاکر دیا تو چڑیا نے اپنے منہ میں ڈالا اور نرم کرکے اپنے بچوں کو کھلانے لگی لیکن وہ تھوڑی سی غذا آخر کس کس کا پیٹ بھرتی؟ لہٰذا چڑا پھر تپتی گرمی میں اڑا اور دوبارہ اسی جگہ جا پہنچا۔ پھر اولاد کی محبت نے اسے اپنے آپ سے غافل کردیا۔ اس بار بھی وہ اڑا اور بڑی محنت کے بعد کچھ غذا اور لے آیا لیکن بچوں کی خراب حالت نے اس پر وہ گہرا اثر کیا کہ وہ بے چارہ اس مرتبہ بھی کچھ اپنے منہ میں ڈالنا بھول گیا۔ بڑی تکلیف سے پھر گھونسلے تک پہنچا۔ اب کی غذا اسے ان کی طبیعت کچھ بہتر ہوئی۔ لیکن اس چڑے کی اپنی طبیعت بہت خراب ہوگئی۔ نقاہت کے آثار واضح تر ہونے لگے۔ بالآخر تھکاوٹ کی تاب نہ لاتے ہوئے بھوک اور پیاس سے نڈھال یہ پیکر الفت چند ساعتوں میں ہی لقمۂ اجل بن گیا۔ اس کے عیال پر جو گزری وہ قیدِ تحریر میں لانا چاہوں تو روشنائی آنسوئوں کا روپ دھارے۔
بہر حال! اس چڑے کے مانند ہم انسانوں میں بھی ایسے پیکر الفت موجود ہیں جو اپنے خون پسینے کو اولاد کے لیے ایندھن بناتے بناتے خود راکھ ہوجاتے ہیں۔ ان نفوس کو بھی جزا ملے گی۔ قرار ان کو بھی نصیب ہوگا۔
٭٭٭