Yellow Sports Car

تھوڑی سی ہمت

عامر شعیب ڈیروی
گاڑی پوری برق رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی۔پروفیسر زاہد، ڈاکٹروقار،سیٹھ عاصم آج خاص قسم کی دعوت اڑانے سرافضل کے گاؤں جارہے تھے ۔ سیٹھ عاصم نے ڈرائیور کواشارہ کیا ، ڈرائیور نے اشارہ پاتے ہی تینوں کی پسند کاگانا چلادیا۔روڈ کے دائیں بائیں بہت طویل بے آبادرقبہ شروع ہوچکا تھا، ڈرائیور مزاج شناس تھااس نے گاڑی کی رفتار کو مزید بڑھانے کے ساتھ گانے کی آواز کوبھی تیزکردیا۔گاڑی سیکنڈوں میں کلومیٹر طے کرنے لگی، اچانک گاڑی ڈرائیور کے ہاتھ سے چھوٹی اور سامنے سے آنے والی کار سے جاٹکرا ئی، اگلے ہی لمحے پانچ جانوں کے ٹکڑے ہوا میں لہرائے اورخون چھینٹوں میں تقسیم ہوکر بنجر زمین کو سیراب کرگیا۔
یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ آئے دن ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ گاڑی میں بڑے زوروشور سے گانے چل رہے ہوتے ہیں اور اچانک گاڑی حادثے کا شکار ہوجاتی ہے،اس کے ساتھ ہی درجنوں مسافر دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ کتنی بدنصیبی ہے زندگی کی آخری سانس بھی رب کی نافرمانی میں گزار کربندہ اپنے رب کے دربار میں حاضر ہوتاہے۔


افسوس کی بات تو یہ ہے کہ موسیقی کو روح کی غذا قرار دیا جاتاہے، اسے سکون و راحت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ حمدونعت جیسے بابرکت کلام میں بھی موسیقی کو شامل کرکے باعث ثواب سمجھ کر سنا جاتا ہے۔ رکشوں،بسوں اور دکانوں میںبلند آواز سے گانے چلا کر اہل محلہ کا سکون غارت کیاجاتاہے ،حالانکہ موسیقی اور گانے سننا انتہائی قبیح اور کبیرہ گناہ ہے۔ یہ روح کی غذا نہیں بلکہ اس کے لیے مہلک وبا ہے۔یہ انسان کو اصلی اور حقیقی روحانی غذا سے غافل اور ظاہری لذتوں میں مبتلا کرکے دین ودنیا کی بربادی کا سبب بنتی ہے۔ترقی یافتہ قوموں کو بلندیوں سے اٹھاکرذلت اور پستیوں کے اندھے کنویں میں گرادیتی ہے۔ معاشرے میں حیوانیت ، عریانیت اور بے حیائی کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ دل میں نفاق اور دوغلے پن کو جنم دیتی ہے۔


قرآن وحدیث میں موسیقی اور گانے سننے کو واضح طورپرحرام قرار دیتے ہوئے سخت وعید ارشاد فرمائی گئی ۔ارشاد ربانی ہے: اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریدار بنتے ہیں، تاکہ ان کے ذریعے لوگوں کو بے سمجھے بوجھے اللہ کے راستے سے بھٹکائیں اور اس کا مذاق اڑائیں، ان لوگوں کو وہ عذاب ہوگا جو ذلیل کرکے رکھ دے گا [لقمان:6] اس آیت کریمہ میں رب تعالی نے ’’ لھوالحدیث ‘‘ کا لفظ ذکر فرمایا۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قسم کھا کر فرماتے ہیں : ’’ لھوالحدیث ‘‘ سے مراد گانا ہے[تفسیر ابن جریر] حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی یہی تفسیر منقول ہے ۔ آپ ﷺ نے متعدد روایات میں گانے کی حرمت اوراس کے سننے پر سخت وعید فرمائی ہے۔ ایک موقع پر فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالی نے شراب، جوئے اورطبل کوحرام کیا ہے، نیز ہر نشے والی چیز حرام ہے[مسند احمد] ایک اور روایت میں ارشاد فرمایا: دو طرح کی آوازیں ایسی ہیں جن پر دنیا وآخرت دونوں جہانوں میں لعنت کی گئی ہے،ایک خوشی کے موقع پر باجے کی آواز ، دوسرا مصیبت کے وقت نوحہ کرنے پر [مسند بزار]ایک اورروایت میں ارشاد نبویﷺہے: اس امت میں بھی دھنسنے، صورتیںمسخ ہونے اور آسمان سے پتھروں کی بارش کے واقعات ہوں گے۔ایک صحابی نے عرض کیا یارسول اللہ! ایسا کب ہوگا؟ آپ نے فرمایا:جب گانے والی عورتوں اور باجوں کا رواج عام ہوجائے اور شراب کثرت سے پی جانے لگے[ترمذی] ایک دوسری حدیث میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا: گانا دل میں نفاق کوایسے اگاتا ہے جیسے پانی کھیتی کو اگاتا ہے[بیہقی] حضورﷺ نے اپنی بعثت کا ایک مقصد بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: میں بانسریاں (آلات موسیقی) کو توڑنے کے لیے بھیجا گیا ہوں[کنزالعمال]ان مذکورہ بالا روایات واحادیث سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ موسیقی اور گانے سننا کتنی قبیح اور بری چیز ہے۔ اگر گانا سنناجائزہوتااور موسیقی روح کی غذا ہوتی تو کیا اس طرح کی سخت وعیدیں اس کے متعلق آتیں؟ اگر حمدونعت میں موسیقی ملانا اچھا ہوتا تو کیا آپﷺ اپنی بعثت کا مقصد آلات موسیقی کا توڑنا ارشاد فرماتے؟


یاد رکھیے! یہ زندگی چند روزہ ہے، اگر غفلت اور خداوند قدوس کی نافرمانی میں گزاری توبھی گزرجائے گی۔ اگر خیر کے کاموں میں استعمال کی پھربھی ختم ہوجائے گی، مگر اس طرح کی زندگی گزارنے سے یہ بات یقینی ہے کہ ظاہری آنکھیں بند ہونے کے بعدکسی قسم کی حسرت اور کوئی غم نہ ہوگااور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ ہم میں سے ہرایک تھوڑی سی بھی ہمت کر کے اس کامیابی کو حاصل کرسکتا ہے۔