بنت شکیل اختر۔ حیدر آباد
’’یہ دیکھو پندرہ ہزار کا بل آیا ہے۔‘‘
’’پندرہ ہزار!!!‘‘
’’جی ہاں اتنی بچت کے باوجود!!‘‘
’’لیکن کیوں؟‘‘
’’بجلی والے میٹر کی ریڈنگ دیر سے لے کر گئے عید کی وجہ سے۔ پھر یونٹ جب تین سو ہوگئے تو ہر یونٹ کی قیمت تیس روپے ہوگئی۔ اب بتائو میں کیا کروں، جھلستی ہوئی گرمی بھی برداشت کروں… وہ اچھے ہیں جن کے گھر میں چار چار ائیر کنڈیشن چلتے ہیں… بل پھر بھی چھ ہزار آتا ہے۔‘‘ ضِمام نے جھنجھلا کر کہا۔ بریرہ اس کا اشارہ سمجھ کر بھی خاموش تھی۔ ہر بار کی طرح حلال کا درس دینے کی ہمت نہ ہوئی۔
’’اب تو اس بارے میں کچھ لوگوں کے فتوے بھی آگئے ہیں، ظلم سے بچنے کے لیے کرسکتے ہیں سب۔‘‘ضمام نے اسے خاموش دیکھ کر کہا۔
’’کسی ایک کا نام بھی بتائیے اور پھر فتویٰ تو ہے لیکن تقویٰ کیا کہتا ہے؟‘‘ بریرہ نے نرمی سے کہا۔
’’اب تم چاہے کچھ کہو ہر کمرے میں اے سی لگے گا، کچن میں بھی لگے گا۔ میں ترس کر زندگی کیوں گزاروں؟‘‘
’’ہوش میں آ ضمام کیا بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے۔‘‘ ضمام کی والدہ جو پندرہ ہزار بل کا سن کر صدمے کی حالت میں تھیں ،بالآخر بول اٹھیں۔
’’نہیں امی! آپ کو نہیں پتا آج کل اس سب کے بغیر گزارا نہیں۔ گزارا کرنے ہی نہیں دیتا کوئی۔ سیدھا چلنے والے کو سب ستاتے ہیں۔‘‘
بریرہ اس وقت تو خاموش رہی لیکن پھر چپکے سے نوافل پڑھ کر ضمام کی استقامت، صبر اور تنخواہ میں برکت کی دعائیں کرنے لگی۔ کبھی اچھا سا موڈ دیکھ کر یہ بھی کہہ دیتی۔
’’قبر کی گرمی سے تو بہتر ہے کہ یہاں گرمی برداشت کرلیں۔‘‘ کبھی کہتی: ’’جو آسائشیں غلط راہ پر چل کر حاصل ہوں ان سے وہ تکالیف زیادہ سکون آور ہیں جو حق اور حلال کے راستے میں ملیں۔‘‘ ضمام سنتا اور خاموش رہتا۔
’’چوری اور حرام سے انسان دنیا میں کتنا ہی کامیاب کیوں نہ ہوجائے آخرت کی کامیابی تو شک میں پڑ جاتی ہے۔‘‘ ضمام اب بھی خاموش رہا۔
بریرہ تنہائی میں اللہ سے گویا ہوتی۔ ’’یاالٰہی! غلط راہ کتنی آسان ہے چند روپے خرچ کرو اور جیسے چاہو بجلی خرچ کرو اور حلال کے لیے مجھے نوافل پڑھ کر دعا کرنی پڑ رہی ہے۔‘‘
پھر خود ہی اپنی اس سوچ پر استغفار کرکے کہتی: ’’اللہ آپ کا وعدہ ہے حلال پر چلنے والوں کے لیے آپ راہیں کھولتے ہیں۔ اللہ اگر میں نے اور میرے شوہر نے کسی غلط راہ پر چلنے والے کو دیکھ کر تکبر کیا ہو یا اسے حقیر سمجھا ہو تو ہمیں معاف کردے۔‘‘
ضمام کی مسلسل خاموشی اسے الجھا رہی تھی۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ ضمام کیا فیصلہ کرے گا۔
بالآخر ایک دن کہنے لگی: ’’بجلی چوری سے بھی چلائیں! بل تو تب بھی ادا کرنا ہی ہے تو بل جمع کرا آئیں۔‘‘
’’میں کچھ ایسا ویسا نہیں سوچ رہا۔ ان سب لوگوں سے مشورے میں ہوں جو بجلی کی بچت احسن طریقے سے کر رہے ہیں۔ غور کر رہا ہوں کیا حکمت عملی اختیار کروں۔ بل بھی جمع کرادوں گا۔‘‘ ضمام کے جواب پر بریرہ اندر تک سرشار ہوگئی۔
کئی بار اللہ کا شکر ادا کیا اور تصور میں کہنے لگی۔
’’اے میرے پیارے وطن میں تجھے اتنا بھی نہ دے سکی جتنا کہ ایک چڑیا چونچ میں پانی لے کر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مدد کے لیے گئی تھی لیکن رب کی توفیق سے رب سے مانگ کر تیرے اثاثوں کو ناجائز استعمال اور ضائع کرنے سے بچنے کی کوشش کرتی رہی۔
اے میرے پیارے وطن تو جو رب پاک کی طرف سے ہمارے لیے بہت بڑا انعام ہے معجزہ ہے۔ کل جو اس انعام کی بابت مجھ سے سوال ہوگا تو شاید یہ عمل جو اللہ نے مجھ سے اور ضمام سے کرایا اور ہم جیسے کئی ہم وطن کر رہے ہیں، ہمیں سرخرو کرسکے!!
کچھ دن بعد ضمام نے کچھ ایسے انتظامات کردیے جس سے مزید بجلی کی بچت بھی ہوسکے اور گرمی کا تدارک بھی ہوسکے۔ انتہائی ضرورت کے مواقع پر بجلی استعمال کی جانے لگی جس میں بظاہر مشقت اور نفس کوشی تو تھی لیکن تمنا کا خون کرنے پر اس تکلیف میں وہ راحت اور مزہ تھا کہ دونوں نہایت پر سکون نیند سوتے۔ اس آنے والے کل کے انتظار میں کہ جس کے بارے میں اللہ نے فرمایا انسان اس دن اپنی مشقتیں اتار پھینکے گا۔
٭٭٭