Editor Ke Qalam SE

بزمِ خواتین

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

٭شمارہ ۱۱۰۶ میں قرآن و حدیث کے بعد ’خواتین کے دینی مسائل‘ پڑھے اس سے بہت زیادہ فائدہ ’آئینہ گفتار‘ کے والے صفحے پر بڑھے تو اس پر محمد فضیل فاروق صاحب کو براجمان پایا۔ ’زمین، درخت اور ننھی سی بیل‘ صبیحہ عماد کی گزشتہ سے پیوستہ کہانی بہت ہی زبردست لگی۔ صبیحہ عماد کو ہماری طرف سے ڈھیروں سلام ماں جیسی ہستی دنیا میں ہے کیا۔ دل سے دعا نکلی یااللہ سب کے والدین کی صحت و عافیت والی لمبی عمر عطا فرما۔ آمین۔ (گڑیا رانی۔ خانیوال)

٭شمارہ ۱۱۰۵ میں سب سے پہلے بزمِ خواتین والے حصے پر نظر دوڑائی میری امی جی کے دو خط شامل تھے ایک میرے ابو جی کا اور چوتھا ہمارا خط بھی شامل تھا۔ زندگی میں پہلی بار ہمارے چار اکٹھے خطوط شائع ہوئے ہیں۔ چاچو جی آپ کا بہت شکریہ لیکن خطوط کے جوابات نہ دے کر آپ نے اچھا نہیں کیا۔ آپ کے جوابات سے جو خوشبوئیں آتی ہیں یہی ہمارا حوصلہ بڑھاتی ہیں۔ لگتا ہے آپ کو پریشانی ہوتی ہے۔ پریشانی کی وجہ بھی مجھے معلوم ہوگئی وہ یہ کہ اس بزم میں جھنگ والے چھا گئے دل چھوٹا مت کیجیے۔ ہم پھر بھی تبصرہ کرتے رہیں گے۔ چاہے آپ روکھے پن کے ساتھ ہمارے خطوط شائع کریں۔ (منیبہ جاوید۔ احمد آباد 18 ہزاری، جھنگ)
ج:اللہ تعالیٰ آپ کے چاچو جی کو اپنے حفظ و ایمان میں رکھے، آمین!

٭میری بیٹی منیبہ جاوید بڑے زور و شور سے مجھے آوازیں دینے لگی آپ کے لیے ایک خوش خبری ہے اپنے پاس بلا کر مٹھائی کھانے کی ضد کرنے لگی جونہی ہم نے حامی بھری ساتھ ہی ہمارے دو عدد خط شائع ہونے پر مجھے مبارک باد دینے لگی اور ساتھ ہی اپنا اور اپنے ابو جی کا خط بھی پڑھ کر سنانے لگی۔ لیکن آپ کے جوابات نہ پاکر غمگین ہونے لگی۔ فوراً خط نہ لکھنے کی دھمکی دے دی۔ آپ کی آئینہ گفتار میں بڑی نصیحت پوشیدہ تھی غور و فکر کی ضرورت ہے۔ یک جان دو نام کی تحریر پہلے بھی شائع ہوچکی ہے۔ بھائی حاجی سب خطوط کے نیچے اپنے پیارے ہاتھوں سے جوابات لکھ دیا کریں۔ شکریہ (زوجہ حاجی جاوید ساقی۔ احمد آباد 18 ہزاری جھنگ)
٭’بے ثمر ہی رہا اس کا شجر‘ اگر ہماری اپنی ترجیحات ہمارے حالات کے موافق ہوں تو دنیا و آخرت سنور جائیں گی۔ ’خوف‘ میں تو وہی ہوا کہ جس کا ڈر تھا۔ ’اف یہ برتن‘ یہ تو آفت کے پرکالے ہیں۔ دن میں دو سے تین مرتبہ ہی ان سے واسطہ پڑتا ہے۔ ’بزم خواتین‘ میں جگہ تو ہماری بھی بنی تھی لیکن لگتا ہے کہ بزم سجانے والے کا موڈ آج کچھ صحیح نہیں تھا کیونکہ بعض خط بغیر جواب کے ہی رہے۔ باقی رہ گیا ۱۱۸۴ چنانچہ اس میں موجود کہانی ’خوف‘ نے تو بہت انتظار میں ڈال دیا۔ ’میرے رہبر میرے ہم راز‘ بھی باپ پر لکھی منفرد تحریر تھی۔ ’اعلان جنگ‘ نئی نویلی دلہن‘ دونوں کا واسطہ کچن سے تھا۔ ۱۱۸۴ کی بزم میں میری جگہ بھی بنی اور بنی بھی اچھے طورپر مدیر چاچو آپ کا تہ دل سے شکریہ آپ نے مجھے اپنے پیارے رسالے میں جگہ بخشی آئندہ بھی یہ کوشش کرکے خوشی دے کر دعائیں بانٹ لیجیے گا۔ (خدیجۃ الکبریٰ بنت مولانا محمد امتیاز فاروقی۔ رسول پور)

ج: لیجیے ایک بار پھر آپ بزم میں موجود ہیں۔ آپ کے چاچو کو آپ کی دعائوں کا انتظار رہے گا۔
٭شمارہ ۱۱۰۸ کا سرورق جنگل کا حسین منظر پیش کر رہا ہے۔ ’چالاک عورت‘ تحریر دکھی کر گئی۔ خولہ غضنفر اللہ کا سفر نامہ بہت اچھا جا رہا ہے۔ تحریر پڑھتے ہوئے تصور میں، میں خود کو وہاں پر محسوس کرتی ہوں۔ ’کرب‘ تحریر اچھی تھی مگر اس کا اختتام سمجھ میں نہیں آیا۔ ’پیوند زدہ‘ آج کل کے ماحول کی عکاسی کرتی ہوئی تحریر تھی۔ ’پانی چوس کنواں‘ اور ’جب دل پر چوٹ لگی‘ بھی پیاری تحریریں تھیں۔ ’اماں جان کی مثالی شادی‘ پڑھ کر دل کرتا تھا کہ یہ مضمون ختم نہ ہو…! بزمِ خواتین کے بنا شمارہ سونا سونا لگتا ہے۔ (بنت مولوی شبیر احمد۔ وہاڑی)

٭شمارہ ۱۰۹۳ ٹائٹل پیج بہت کوب صورت دل چاہ رہا تھا کہ اس چھوٹے سے پیارے سے گھر میں ہم کسی طرح چلے جائیں۔ ’القرآن والحدیث‘ کے بعد ’مسائل‘ پڑھے۔ ’ایک منے کی سرگزشت‘ براہِ مہربانی ایسی تحریریں ’بچوں کا اسلام‘ میں لگایا کریں۔ ’آئینہ گفتار‘میں مدیر صاحب ایک کتاب کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے نظر آئے۔ یقینا یہ ایک بہت زبردست کتاب ہوگی کیونکہ خالہ ریحانہ صاحبہ کی ہے۔ ’یادیں ہم سفر میری‘ میں ایک داماد صاحب اپنی ساس امی کو اتنے اچھے الفاظ میں یاد کر رہے تھے ماشاء اللہ الفاظ نہیں موتی تھے۔ (اہلیہ ہاشم۔ ناظم آباد، کراچی)

ج: منے کی سرگزشت میں دراصل پیغام بڑے منوں یا منیوں کیلئے تھا، اسی لیے بچوں کی نسبت خواتین کا اسلام میں ترجیح دی گئی۔
٭’یوم شوہر‘ عفت مظہر کا نیا انداز اچھا لگا۔ شوہروں کی مظلومیت پر بہت افسوس ہوا صبیحہ عماد ہماری پسندیدہ لکھاری ان کی تحریر بہت سبق آموز تھی سائرہ کی ساس پر بہت دکھ ہوا ایک نیا سبق کے آگے بڑے۔ عائشہ تنویر محافظ پردے کے بارے میں بہت اہم سبق دے رہی تھی بزم خواتین میں تین خط جھنگ کے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی غرض سارا رسالہ بہت مزے کا تھا۔ ماشاء اللہ اب رسالہ دن بدن نکھرتا جا رہا ہے اور ہر ہفتے بہت کچھ سیکھنے کو مل جاتا ہے۔ (ثانیہ بنت محمد احمد۔ ٹھل نجیب)

٭ ’کہا سنا معاف کرنا‘ ایک بہترین کہانی تھی۔ ’عقل اور نقل‘ کا اختتام جیسے میں نے سوچا تھا ویسا ہی ہوا۔ ’چوں چوں چاچا‘ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور نواسیاں مجھے بہت پسند آئیں۔ ’فضا میں لبیک کی صدائیں‘ پڑھ کر دل سے دعا نکلی یااللہ ہمیں بھی اپنے در پر بلا لیجیے۔ ’گمان‘ بھی اچھی تھی۔ مدیر چاچو مجھے میری آپی نے کہا ہے جب سے تم نے خط لکھنا شروع کیا ہے۔ ’بزم خواتین‘ رسالے سے غائب ہوگیا ہے میں نے کہا میں لکھتی رہوں گی اور ان شاء اللہ میرے خط ضرور شائع ہوں گے۔ میری امی کے لیے دعا کریں اللہ انہیں اپنے گھر بلائے۔ (بنت لطف اللہ رحمانی۔ راجن پور)

ج:آمین،لکھنے لکھانے سے متعلق آپ کی مستقل مزاجی قابل تحسین ہے۔

٭ہماری تربیت میں خاص حصہ ہے آئینہ گفتار کا…!’’میں اپنے وعدے پر پورا اتروں گا‘ بہترین ناول رہا۔ حالات کی مناسبت سے اس ناول کی برکت سے غزہ والوں کے لیے بہت دعائیںہوئیں۔ دو قسطوں پر مشتمل ’کرچیاں‘ پڑھ کر دل دکھ سے بھر گیا۔ اس مہینے کی سب سے عمدہ تحریر ام محمد سلمان کی ’محبت کا سوالی‘ رہی۔ (بنت البحر۔ ٹنڈو آدم)

٭ ’وہ کہاں جائیں‘ فلزا وسیم کی یہ کہانی دکھ بھری سبق دیتی کہانی تھی۔ ’فضا میں لبیک کی صدائیں‘ کبھی تو آنکھیں نم کردیتی ہیں اور کبھی ایک اچھا سبق دے جاتی ہے، پڑھ کر بے اختیار دل سے دعا نکلتی ہے یا اللہ سب قارئین کو خولہ بہن کی طرح بنادے ماں کا دل پڑھ کر دکھ سے بھر گئے یااللہ ہم سب کو والدین کا قدر دان بنادے آمین۔ (حور عینا بنت محمد الیاس۔ ٹھل نجیب)
ج: بلاشبہ والدین دنیا کی حسین ترین نعمت ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے مشکلات بھی آسان ہوجاتی ہیں ۔ بدقسمتی سے اولاد کو اصل قدر والدین کے جانے کے بعد ہی آتی ہے۔

٭٭٭