بنت مشتاق احمد۔ پھول نگر
’’امی جان! ادھر دیکھیے۔‘‘ ننھے ایان نے خوشی سے چلاتے ہوئے فرح کو اپنی طرف متوجہ کیا جو باغیچے میں چہل قدمی کر رہی تھی۔
’’ماشاء اللہ یہ تو پودے کا ننھا سا بچہ ہے۔ بالکل ہمارے ایان جیسا۔‘‘ فرح نے ایان کو گود میں لیتے ہوئے کہا۔ کلیوں کی کیاری میں ننھی سی شاخ الگ سے نکلی ہوئی۔ ایان اس کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔
’’چلو ہم اس کو نئے گملے میں لگادیتے ہیں۔‘‘ فرح نے ایان کو گود سے اتارتے ہوئے کہا۔
’’کیوں امی جان!‘‘ اس نے تجسس سے پوچھا۔
’’بیٹا! پھر یہ جلدی بڑا ہوگا۔‘‘ فرح نے نئے گملے سے مٹی کھودتے ہوئے کہا۔ جب اس نے شاخ کو نکالنا چاہا تو وہ نازک سی شاخ بڑی شاخوں کے درمیان الجھ گئی۔ جیسے اس جگہ کو اپنے بڑے پودے کے ساتھ کو چھوڑنا نہ چاہتا ہو۔ یہ دیکھو کہ فرح کے دل کو کچھ ہوا پھر کہا میں یہ سب اس کی بہتری کے لیے کر رہی ہوں۔
’’امی، امی!‘‘ ایان نے صبح صبح ہی اس کو آواز لگانا شروع کردی۔
’’کیا بات ہے‘‘ فرح نے کچن سے جواب دیا۔
’’امی جان! وہ ننھا پودا مرجھا گیا ہے۔‘‘ ایان نے افسردہ سا ہوکر کہا۔ فرح نے ہنس کر ایان کو دیکھا وہ کل سے اس کے لیے فکر مند ہو رہا تھا۔
’’چلو بیٹھو ناشتہ کرو، کچھ نہیں ہوگا اسے۔‘‘ اس نے بات کو ختم کرتے ہوئے کہا۔
دو ہفتوں بعد
’’امی! یہ دیکھیے پودا بڑا ہوگیا ہے ناں۔‘‘ ایان نے جوس پیتے ہوئے کہا۔ فرح نے دیکھا ننھے پودے کے کئی پتے اور ایک نازک سی کلی کھلی ہوئی تھی۔ فرح کو اس پر اتنا پیار آیا کہ وہ اس کے قریب چلی آئی۔
کلی تمہاری زندگی اور لڑکیوں کی زندگی میں کس قدر مشابہت ہے ناں۔ جیسے کلی کا گملے میں جگہ کی کمی کی وجہ سے نئی گملے میں لگانا۔ فرح کا میکے سے سسرال آنا۔ پودے کا مرجھا جانا، فرح کا نئی جگہ دل نہ لگنا، پودے کا جڑوں کو نئی جگہ پر مضبوط کرنا، فرح کا اپنی ذات سے دوسروں کو تقویت دینا۔ نازک شاخ پر کلی کا کھلنا جیسے ایان کا اس کی گود میں آنا۔
پرانے دور کا فریج
پنجاب میں پُرانے وقتوں میں جب فریج نہیں ہوتا تھا تو یہ “چھجا “ رات کے وقت کھانے کی چیزیں محفوظ رکھنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا سالن ، دودھ وغیرہ کے برتن کو اس میں رکھ کر کھلی ہوا میں رکھا جاتا تھا اور چیزیں صبح تک کھانے کے قابل رہتی تھیں ۔( عبدالباسط میو)
نسخہ کیمیا:
مولانا شبلیؒ نے ایک حکیم سے کہا:
’’مجھے گناہوں کا مرض ہے اگر اس کی دوا بھی آپ کے پاس ہو تو عنایت کیجیے۔‘‘
یہاں یہ باتیں ہورہی تھیں اور سامنے میدان میں ایک شخص تنکے چننے میں مصروف تھا ۔اس نے سر اٹھا کر کہا:
’’جو تجھ سے لو لگاتے ہیں وہ تنکے چنتے ہیں۔شبلی! یہاں آئو میں اس کی دوا بتاتا ہوں۔ حیا کے پھول صبروشکر کے پھل، عجز ونیاز کی جڑ، غم کی کونپل، سچائی کے درخت کے پتے، ادب کی چھال، حسن اخلاق کے بیج… یہ سب لے کر ریاضت کے ہاون دستے میں کوٹنا شروع کرو اور اشکِ پشیمانی کا عرق ان میں روز جلاتے رہو۔ ان سب کو دل کی دیگچی میں بھر کر شوق کے چولہے پر پکائو۔ جب پک کر تیار ہوجائے تو صفائے قلب کی صافی میں چھان لینا اور شیریں زبان کی شکر ملا کر محبت کی تیز آنچ دینا۔ جس وقت تیار ہوکر اترے تو اس کو خوفِ خدا کی ہوا سے ٹھنڈا کرکے استعمال کرنا۔‘‘
شبلیؒ نے نگاہ اٹھا کر دیکھا ،وہ دیوانہ غائب ہوچکا تھا۔
(ن۔ب۔ خویشگی۔ خیبر پختونخوا)