بنت مسعود احمد۔ کراچی
بڑی پھرتی اور مہارت سے اس نے روٹی بیلی، اس پر دیسی گھی پھیلا کر تھوڑی خشکی چھڑکی پھر روٹی کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک لپیٹ کر بل دئیے اور پیڑا بنا کر ٹرے میں رکھا۔ ایسے سات پیڑے پراٹھوں کے لیے بنا کر اس نے جلدی جلدی بیل کر تلنے شروع کیے۔ دوسرے چولہے پر فرائی پین میں تیل گرم کیا اور انڈے فرائی کرنے لگی، دونوں چیزیں تیار کرکے دستر خوان پر رکھیں اور ساس سسر کو ناشتے کے لیے بلایا۔
اخبار کے مطالعے میں غرق سسر ابا فوراً بولے: ’’حنا اور آسیہ کو بھی بلا لو ساتھ ہی ناشتہ کرلیں وہ لوگ بھی۔‘‘
’’آسیہ کے لیے تو آملیٹ بنانا، وہ شوق سے کھاتی ہے۔‘‘ ساس امی نے فرائی انڈے کی پلیٹ اپنے آگے کرتے ہوئے ہدایت دی۔
’’جی امی! میں نے پیاز کاٹ کر رکھی ہے جب اٹھے گی تو بنادوں گی۔‘‘
’’رات کے کھانے کا بھی اسی سے پوچھ لینا جو وہ کہے وہ ہی پکالینا۔‘‘
سسر ابا نے ایک اور اہم ہدایت نمرہ کے گوش گزار کی۔
بیٹیوں کے معاملے میں اس کے ساس سسر نہایت حساس تھے مگر صرف اپنی بیٹیوں کے بارے میں!! بیٹی کے ناز نخرے بہو سے کہہ کر اٹھوائے جاتے۔ شادی شدہ بیٹی آسیہ رہنے آتی تو نمرہ کے کام مزید بڑھ جاتے۔ چھوٹی نند حنا ایک وقت کی صفائی بڑی دقتوں سے کرتی یا کبھی موڈ میں ہوتی تو کپڑے دھو کر ڈال دیتی۔ نمرہ صبح ناشتے سے لے کر رات تک کا کھانا پکاتی اور دن بھر کے برتن دھونے کی ذمہ داری بھی اسی پر تھی۔ نمرہ کا سات ماہ کا بیٹا علی خوب ہی چلبلا تھا۔ ہر وقت ماں سے چپکا رہتا وہ کس مشکل سے کام کرتی تھی یہ وہی جانتی تھی گھر کے کاموں اور علی کی ذمہ داریوں میں وہ ہلکان ہو کر رہ جاتی ۔
٭
’’تمہارے ابو نے دیکھ لیا کہ خالدہ اکیلی لگی ہے تو تمہیں بھی ڈانٹ پڑے گی اور مجھ سے بھی خفا ہوں گے۔‘‘ ماضی کے دریچوں میں جھانکتی مہرو کو اماں کی آواز نے حال میں کھینچا، وہ جو داستانِ مجاہد پڑھنے میں محو تھی رج کے بدمزہ ہوئی۔
’’کیا اماں؟ آج میری باری نہیں بھابی کی باری ہے پکانے کی۔‘‘ وہ کتاب کو سینے سے لگائے منہ بسور کر بولی۔
’’بیٹی وہ کوئی عام روٹین کا کھانا نہیں پکا رہی تمہاری پھوپی کی فیملی کے لیے دعوت کا انتظام کر رہی ہے۔ منیب کو میں سنبھالے بیٹھی ہوں تم جاکر بھابی کا ہاتھ بٹائو۔‘‘ اماں نے رسان سے سمجھایا۔
’’اماں پتا ہے کبھی کبھی میںکیا سوچتی ہوں؟‘‘ اس نے کھوئے کھوئے لہجے میں ماں سے کہا۔
’’کیا بھلا؟‘‘ اماں نے اس کے معصوم چہرے کو نظروں میں سمو کر پوچھا۔
’’یہی کہ میں آپ کی سگی بیٹی ہوںیا خالدہ بھابی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خود ہی کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
’’فضول بات…‘‘ اماں نے پیار سے گال پر چپت لگائی۔
اور پھر کچن میں جاکر اس نے بھابی کے ساتھ کتنے ہی کام نمٹا ڈالے۔ ’’واقعی! اماں ٹھیک کہہ رہی تھی روٹین کا کھانا پکانا اور بات ہے جبکہ دعوت کا اہتمام ایک محنت اور وقت طلب کام ہے۔‘‘
مہرو روزمرہ کے کھانے تو بنالیتی تھی لیکن دعوت کا انتظام ہمیشہ اماں اور بھابی مل کر کرتیں مگر اب اماں گھٹنوں میں درد کے باعث زیادہ دیر کھڑی نہیں رہ سکتی تھی اس لیے آج مہرو بھابی کے ساتھ لگی تھی اس طرح اسے بھابی سے بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملا تھا جو یقینا اس کی آئندہ زندگی میںکام آنا تھا۔
٭
’’لو بھئی اماں! ابھی ہمیں آئے دو دن ہی گزرے ہیں کہ تمہاری بہو بیمار پڑگئی۔‘‘ آسیہ نے آکر ماں کو اطلاع دی جو ان کے لیے نئی نہیں تھی۔
’’بیمار ہے تو ہونے دو، ٹھیک بھی ہوجائے گی تمہیںکاہے کی فکر؟ تمہارے کون سے کام رک رہے ہیں۔‘‘ اماں نے گویا ناک پر بیٹھی مکھی اڑائی۔
’’واہ اماں! خوب کہی… مجھے عجیب لگ رہا ہے وہ بخار میںہمارے لیے پکا رہی ہیں۔‘‘ آسیہ نے دل میں کھٹکتی بات ماں سے کہہ ہی دی۔
’’اتنا احساس ہے تو کرلو اٹھ کر کام… ہاتھ ہلا ہلا کر دے دوبھاوج کو آرام ’’مجھ سے کیا کہہ رہی ہو۔ میں بھی تو لگی ہوں کام میں…‘‘
اماں کا پارہ پہلے ہی ہائی تھا… صبح سے پوتے کو بمشکل سنبھال رکھا تھا اب بیمار بہو کا لحاظ کرکے رات کے لیے سبزی بھی کاٹ رہی تھی عام حالات ہوتے تو مجال ہے وہ سبزی کی طرف دیکھ بھی لیں بنانا تو دور کی بات۔
’’ہمم… آپ مجھے ہی کہہ رہی ہیں اپنی لاڈلی حنا کو نہ بولیں گی محترمہ ننھی بنی ہوئی ہیں… ہم اپنی سسرال میں کولہوں کے بیل کی طرح جتے رہتے ہیں یہاں ہماری اماں بھی دشمن بن بیٹھیں۔‘‘ شدت جذبات سے اس کی آواز رندھ سی گئی۔
’’ہاں! اب اماں کو دشمن بنادو۔ تمہارے کتنے لاڈ اٹھاتے ہیں پورا ہفتہ تم مہارانی بن کر رہتی ہو۔ اس دفعہ وہ بیمار پڑ گئی تو قصور کس کا؟ اور حنا کو کیا بولوں؟ یہ لڑکی کسی کی سنتی ہے؟!!‘‘
اماں کو بھی غصہ آگیا۔ چھری سبزی کی ٹوکری میں پٹخ کر ٹوکری پیچھے سرکادی۔ آسیہ ماں کو غصہ کرتے دیکھ رونے لگی اور حنا کانوں میں ہینڈ فری لگائے سب سے بے نیاز اپنا فیورٹ ڈرامہ دیکھنے میںمشغول تھی۔
نمرہ کچن سمیٹ کر کمرے میں آئی تو گھڑی ساڑھے گیارہ بجا رہی تھی۔ رات کا کھانا کھا کر فارغ ہوئے ہی تھے کہ آسیہ کے شوہر اسے لینے آگئے اس دفعہ وہ تین دن میںہی واپس جا رہی تھی جبکہ وہ پورے ہفتے رکنے کے لیے آتی تھی۔ نمرہ کو نہیں معلوم تھا کہ اس کی ساس اور نند آسیہ کے درمیان ان بن ہوچکی ہے اور اس کی وجہ خود نمرہ ہے۔
نندوئی صاحب کے آنے پر نمرہ نے کھانا گرم کیا، شامی کباب تلے، چائے بنائی۔ وہ کمرے میں آئی تو تھکن اور بخار سے جسم دکھ رہا تھا۔ علی فہد کے ہاتھ پر لیٹا مزے سے سو رہا تھا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی لائٹ بند کرکے وہ خود بھی لیٹ گئی۔ ’’بخار کے لیے کوئی دوا لی تم نے‘‘ اس کے لیٹتے ہی فہد کا ہاتھ اس کے ماتھے پر آٹکا۔ فکر مندی اس کی آواز سے جھلک رہی تھی۔
’’دوپہر میں لی تھی گولی۔‘‘ محبت بھرا لمس پاکر اس نے فہد کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور آنکھیں آسودگی سے موندلیں۔ نمرہ کو اس پل ایسا لگا جیسے ساری تھکن کہیں دور جا سوئی ہو۔ شریک حیات کے مہربان لفظوں میں خدا نے جانے کیا مسیحائی رکھی ہے (جب مخلوق کی محبت اور مہربانی کا یہ عالم تو خالق کی محبت اپنے اندر کیا کچھ نہ سموئے ہوگی)
ازدواجی زندگی کا سکون بھی اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے اس کے دل نے چپکے سے خدا کا ڈھیروں شکر ادا کیا۔ دو آنسو پلکوں کو چھوتے اس کے گالوں پر پھسل گئے۔ فہد نے گرم دودھ کے ساتھ اسے دوا کھلائی اور اس کے سرہانے بیٹھ کر اس کا سر دبانے لگا یہاں تک کہ وہ نیند کی وادی میں جا اتری۔
٭
میکے اور سسرال کے درمیان نمرہ گھن چکر بن کر رہ گئی تھی۔ مہرو اور حنا کی رخصتی چند دن کے وقفے سے طے پائی۔ ایک طرف بہن کی شادی تھی تو دوسری طرف نند کی۔ دونوں پھوپی کے بیٹوں سے ایک ہی گھر میں بیاہی جا رہی تھیں۔ نمرہ خوش اسلوبی سے دونوں طرف حصہ لے رہی تھی۔شادی کے ہنگامے سرد ہوئے تو زندگی نارمل روٹین پر آگئی۔ مہرو اور حنا کا نہ صرف پورشن الگ تھا بلکہ کچن بھی پہلے روز سے ہی علیحدہ تھا۔
عذرا بیگم کے دو ہی بیٹے تھے شوہر پچھلے برس داغ مفارقت دے چکے تھے۔ وہ چاہتی تھیں کہ دونوں بیٹے باہم محبت سے ان کے ساتھ رہیں اور یہ تب ہی ممکن تھا جب گھر کی خواتین مل جل کر محبت سے رہیں۔ گھروں میں رنجشوں کی شروعات گھریلو کاموں کو لے کر ہی ہوتی ہے۔ کام میں تیر میر…اس کا کام کم اور میرا زیادہ وغیرہ وغیرہ یوں دل خراب ہوتے ہیں اور محبت کی جگہ نفرت سب کو اپنے حصار میں لینے لگتی ہے۔ان سب مسائل سے بچنے کا حل انہی یہی سمجھ آیا دو الگ پورشن بیٹوں کے لیے بنوا کر کھانا پکانا بھی الگ ہی کردیا۔
٭
دودھ چولہے پر رکھ کر اس نے آنچ تیز کردی دوسرے چولہے پر چائے کے لیے پانی رکھا ہی تھا کہ اس کا موبائل بج اٹھا۔ اماں کی کال تھی اس نے کال ریسیو کی اور باتوں میں مشغول ہوگئی۔ ’’اف! اتنا دودھ گرگیا۔ پھوپی بیگم کی آواز پر اس نے مڑ کر دیکھا اور زبان دانتوں تلے دبالی۔ کال کاٹ کر وہ چولہے کے پاس گئی تب تک وہ چولہا بند کرچکی تھیں۔ دودھ ابل کر گرچکا تھا اور چائے کے لیے پانی یوں ہی رکھا تھا۔
’’ناشتے کا انتظار کرتا احمد کب کا جاچکا ہے۔‘‘ عذرا بیگم افسوس اور غصے کی ملی جلی کیفیت سے دوچار ہوکر بولیں۔حنا اب شرمندگی سے سر جھکائے کھڑی تھی۔
’’پھپو جی…‘‘ مہرو نے کچن میں جھانکا۔
انہوں نے پلٹ کر اور حنا نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔مہرو کو کچھ غیر معمولی پن کا احساس ہوا مگر وہ نظر انداز کرتی عذرا بیگم سے مخاطب ہوئی۔ ’’آجائیں پھپو ناشتہ کرلیں۔ حنا تم بھی آجائو۔‘‘ وہ پھپو کا ہاتھ تھامے اپنے پورشن میں لے آئی۔ جہاں دستر خوان پرسلیقے سے ناشتہ سجا تھا۔
٭
دن گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں عذرا بیگم حنا کے پھوہڑ پن سے خوب واقف ہوچکی تھی وہیں مہرو کی سلیقہ مندی کی بھی معترف ہوچکی تھی۔ سعد کو جہاں نرم گرم پھولی روٹی میسر ہوتی وہیں احمد کچی پکی یا کبھی جلی ہوئی روٹی بد مزہ سالن سے کھانے پر مجبور ہوتا۔ موبائل پر لگی حنا کبھی سالن جلادیتی کبھی احمد کی شرٹ۔ ایک دن تو حد ہی کردی احمد کا سفید سوٹ اپنے رنگین سوٹ کے ساتھ دھوکر داغ دار کردیا۔
دوسری طرف مہرو روز نت نئی ترکیبیں آزماتی… محنت اور شوق سے پکاتی… گھر کو صاف ستھرا رکھتی اور ہر چیز کو ترتیب سے رکھتی۔ حنا جس دن کپڑوں کا جمع کیا ڈھیر دھوتی اس دن صفائی اور کھانا پکانے کی چھٹی ہوتی۔ اس دن احمد کو بازار کا کھانا لانا پڑتا۔
ایسی صورت حال عذرا بیگم کے لیے نہایت تکلیف دہ تھی۔ وہ ماں تھیں اور احمد کے لیے حنا کو چن کر وہ اپنے آپ کو احمد کا مجرم محسوس کر رہی تھیں۔ وہ سعد کو خوش اور مطمئن دیکھتیں تو ان کی ممتا احمد کے لیے ایسی ہی خوشی کو بے چین ہوجاتی۔ ان کا بس نہ چلتا کہ وہ ایسا کیا کرتیں کہ ان کے لاڈلے کی مسکراہٹیں واپس آجاتیں۔ وہ بے بس تھیں اور انہی سوچوں کے زیر اثر وہ اکثر گم صم رہتی۔ ہر نماز میں وہ احمد اور حنا کے لیے خصوصی دعائیں کرتیں۔
اس دن بھی وہ رب کی بارگاہ میں ہاتھ پھیلائے چپکے چپکے آنسو بہا رہی تھیں کہ مہرو نے آکر پیچھے سے ان کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ ان کے چہرے پر روتے روتے یکدم مسکراہٹ بکھر گئی۔
’’پھپو کیوں رو رہی ہیں؟‘‘ اس نے نرمی سے ان کے گالوں پر آئے آنسو صاف کیے۔
’’بس بٹیا…‘‘ انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری۔
’’میں جانتی ہوں آپ کی پریشانی کی وجہ۔‘‘ وہ سر جھکا کر افسردگی سے بولی۔
وہ ایک باشعور لڑکی تھی وہ بہت پہلے سے حنا کی عادتوں سے واقف تھی۔ علی کی پیدائش پر وہ چند دن نمرہ کے ساتھ رکی تھی… چچی اور چچا کے بے جا لاڈ پیار نے اسے ایسا بنادیا تھا۔
’’پھپو کیا میں آپ کی بیٹی نہیں؟‘‘
’’ہاں بالکل کیوں نہیں!…‘‘ عذرا بیگم نے اسے خود سے لگا کر کہا۔
’’اور حنا…؟‘‘ اس نے ان کے سینے سے لگے پوچھا۔
’’ہاں وہ بھی۔‘‘
’’پھپو بس پھر مسئلہ کا حل مل گیا۔ وہ آپ کی بیٹی ہے اور میری بہن جیسی، اب آپ کو اپنی بیٹی کی تربیت کرنی ہے اور مجھے اپنی بہن کی… ہم خلوص دل اور محبت سے جب کوشش کریں گے تو ان شاء اللہ سب کچھ ویسا ہی ہوجائے گا جیسا ہونے کی آپ دعائیں کرتی ہیں۔‘‘
مہرو کی باتوں سے عذرا بیگم خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھیں۔ وہ اکیلی ہی اب تک اس بوجھ کو سہتی آئی تھیں مہرو نے ان کا دکھ بانٹ کر پرسکون کردیا تھا۔
’’پھپو! ہمیں مل کر وہ کام کرنا ہے جو تھوڑ امشکل سہی پر ناممکن نہیں بے شک حنا غلطی پر ہے مگر ہم اکیلی حنا کو الزام نہیں دے سکتے اس میں کچھ قصور بڑوں کا بھی ہے۔ میں اور آپ اگر حنا کو اس کے حال پر چھوڑ دیں گے تو شاید ہم بھی انہی لوگوں میں شامل ہوجائیں گے جن کی وجہ سے حنا آج اس مقام پر پہنچی ہے۔‘‘
’’ہمم میری بچی تم نے میرے دل سے وہ بوجھ اتار دیا جس نے مجھے کتنے دن سے بے چین کر رکھا تھا۔ بے شک دعا کے ساتھ تدبیر بھی انسان کو نفع دیتی ہے۔‘‘ عذرا بیگم دبے دبے جوش سے بولیں۔
تو چلیں آج ہی سے نیک کام کی شروعات کرتے ہیں۔ مہرو نے اٹھ کر اپنا ہاتھ ان کے سامنے کیا۔
’’ہاں بالکل، نیک کام میں دیر کیسیـ؟‘‘ عذرا بیگم نے پر جوش انداز میں اس کا ہاتھ تھاما اور اٹھ کھڑی ہوئیں۔
ایک عزم سے دونوںنے حنا کے پورشن کی طرف قدم بڑھادئیے۔
٭٭٭