یسریٰ زبیر۔ چشتیاں
تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل چشتیاں سے مستورات کی جماعت گاؤں ہمارے گھر آئی۔ ان خواتین میں ہماری خالہ جان (جو چشتیاں رہتی ہیں) وہ بھی آئیں۔ میں ان تمام خواتین سے ملی تو میری خالہ نے بتایا کہ ایک خاتون کراچی سے آئی ہیں۔ میں بڑی حیران ہوئی تو انہوںنے بتایا کہ ان کی شادی کراچی میں ہوئی ہے اور وہ چشتیاں اپنے میکے آئیں تو پھر جماعت کے ساتھ سہ روزہ لگانے آگئیں۔
تمام خواتین انتہائی گرم جوشی سے ملیں لیکن ان کی بات ہی الگ تھی۔ ان سے ملتے ہوئے ایسا لگ رہا تھا گویا ایک عرصے سے جاننے والی ہوں۔ انتہائی نفیس طبیعت کی مالک، خوش اخلاق اور ملنسار خاتون تھیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کراچی بھی جاتی ہیں تو انہوں نے کہا کہ نہیں یہ میرا پہلا سہ روزہ ہے۔
وہ بتانے لگیں کہ ہم پر ایک بہت بڑی پریشانی آگئی۔ انہی دنوں کراچی میں ہمارے محلے میں مستورات کی جماعت آئی ہوئی تھی۔ میں ان کے پاس گئی اوردعا کیلئے کہا تو وہ کہنے لگیں کہ ہم دعا کریں گے، آپ بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں تین دن کے لیے ضرور نکلیے گا۔ تو بس پھر میں نے ارادہ کرلیا کہ اگر میرا یہ مسئلہ حل ہوگیا تو میں ضرور سہ روزہ لگاؤں گی۔ خیر اللہ تعالیٰ نے مدد کی اور ان کی پریشانی دور ہوگئی مگر اب مسئلہ یہ تھا سسرال میں کوئی جماعت کے ساتھ جاتا نہیں تھا۔اب جب یہ میکے رہنے آئیں تو والد صاحب سے کہا کہ ہمیشہ آپ کے ساتھ سہ روزہ لگانے کا ارادہ کرتی ہوں لیکن کبھی گئی نہیں اس دفعہ ضرور جاؤں گی۔
یقین مانیے! اس قدر اچھی خاتون تھیں۔ بات کرنے کا انداز بھی انتہائی باوقار تھا۔ ان کے اندر دین کو سیکھنے کا بہت جذبہ تھا۔ ان تین دنوں میں ہم سب نے بہت کچھ سیکھا سکھایا اور آپ کو پتا ہے ان میں ایک اور بہت اچھی عادت تھی کہ وہ کھانا بہت اچھا بناتی تھیں۔جو بھی ان کے ہاتھوں کا کھانا کھاتا انگلیاں ہی چاٹتا رہ جاتا۔ انہوں نے مجھے اور میری والدہ کو کوئی کام نہیں کرنے دیا۔ تین دن وہ ہی کھانا بنا کر کھلاتی رہیں۔ اتنے لذیذ کھانے میں نے آج تک اپنی زندگی میں نہیں کھائے۔ صبح کا ناشتہ بھی وہی بناتیں ۔ ان کی خاص بات یہ تھی کہ وہ چوکور پراٹھے بناتی تھیں۔میں اس پر بڑی حیران ہوئی کہ یہاں ہم سے گول پراٹھے نہیں بنتے اور وہ چوکور بنا رہی ہیں۔ دراصل مجھے پراٹھے کا پیڑا صحیح طریقے سے بنانا نہیں آتا لیکن جب ان کو چوکور پراٹھے بناتے دیکھا تو مجھے وہ طریقہ زیادہ آسان لگا۔ بس پھر ارادہ کرلیا کہ اب ہم گول نہیں چوکور پراٹھے بنایا کریں گے بلکہ میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ میں اپنی ساس صاحبہ کو بھی چوکور پراٹھے بنا کر کھلایا کروں گی تو وہ اس بات پر خوب ہنسیں۔
ایک دن انہوںنے چاول پکائے۔ وہ بھی انتہا کے لذیذ تھے۔ اب بھی سوچوں تو منہ میں پانی آجاتا ہے۔ خیر ہم نے ان سے گوشت پکانے، چاول اور چوکور پراٹھے بنانے کا طریقہ سیکھ لیا۔ اب آپ ہمیں پھوہڑ مت سمجھنے لگ جائیے گا۔ میں اچھے خاصے کھانے پکالیتی ہوں۔ بس ان کے طریقے سے بنانا چاہتی تھی۔ پھر میں نے بنایا بھی وہ ذائقہ تو نہیں آسکا لیکن کوشش اچھی تھی۔
ہماری والدہ نے بتایا کہ کراچی کے لوگ کھانے پکانے میں بہت ماہر ہوتے ہیں۔ ان خاتون نے اس بات کو ثابت کردیا۔ جاتے ہوئے ہم نے ان کے گھر کا ایڈریس اور فون نمبر بھی لیا اور وہ ہمیں اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دے کر گئیں۔ کراچی جانے کا دل تو بہت کرتا ہے لیکن بس کبھی پروگرام ہی نہیں بنا لیکن اب ضرور جائیں گے۔ جاتے ہوئے وہ ہمیں ڈھیروں دعائیں دے کر گئیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی ہمیشہ خوش رکھیں۔ آمین!
یہ تین دن میری زندگی کے خوب صورت ترین دنوں میں سے تھے۔ ارے یہ کیا پنجاب والے تو لذیذ کھانے کھانے کراچی جانے کی تیاری کرنے لگے۔ ابھی رکیے! ذرا مہنگائی کم ہوجائے پھر جائیے گا۔ ابھی فی الحال کسی کے گھر جاکر ان پر بوجھ نہیں بننا چاہیے۔ لیکن پھر بھی اگر آپ کا بہت دل کر رہا ہے لذیذ پکوان کھانے کا تو میں آپ کو دعوت دیتی ہوں آپ میرے گھر آجائیں۔ بے شک ان جیسے لذیذ کھانے تو نہیں ہوں گے لیکن پھر بھی آپ کو مایوس نہیں کروں گی۔ ان شاء اللہ، تو پھر کب آرہے ہیں آپ!!؟؟