Birthday Cake

جب وہ ماں بنے گی!

ز۔ن بنت عبدالحق۔ اسلام آباد

’’کیک کھانے کا بہت دل چاہ رہا ہے۔ بیکری سے لادیجیے گا آج۔’’ امی، ابا سے کہہ رہی تھیں۔
’’بھئی پھر کبھی لادوں گا، آج نہیں جا رہا بیکری!‘‘ بڑی سفاکی سے کہتے ابا نے ٹانگیں پھیلالیں۔

امی برتن اٹھانے لگیں جبکہ ہمارا ننھا سا دل ٹوٹ گیا۔
’’ہائے! پیاری اماںکا کیک کھانے کو دل چاہ رہا ہے!‘‘ ہم نے بڑے دکھ سے سوچا…

’’کاش! ہم اماں کے لیے کیک لاسکتے ہوتے!‘‘
ہم نے حسرت سے سوچا، پھر ایک ’انوکھا‘ خیال آنے پر خوشی سے دل اچھلنے لگا اور ہم اماں کے سونے کا انتظار کرنے لگے۔

دوپہر کو ابا نوکری پر چلے گئے اور ہم سونے کی اداکاری کرنے لگے۔ دوپہر کو جب ہمیں یقین ہوگیا کہ اماں سوچکی ہیں تو دبے پائوں کچن میں داخل ہوئے۔ ترکیبوں والی کتاب نکالی اور چاکلیٹ کیک کی ترکیب پڑھی۔ اجزا کچن سے ڈھونڈ نکالے۔ سب سے پہلا مرحلہ تھا جی کہ انڈا توڑنا! انڈے کو زور سے سلیب پر دے مارا جیسے اماںہلکا مارا کرتی تھیں، مگر ناسمجھی کی وجہ سے زور سے مار دیا اور انڈے میاں ٹوٹ کر بہہ بہہ کر سلیپ سے نیچے جا گرے۔ لمحے بھر کے لیے تیز بدبو کا ’جھونکا‘ اٹھا۔

’’اوہ! یہ تو ضائع ہوگیا۔‘‘ لاپروائی سے سوچ کر ہم نے دوسرا انڈا توڑا جو خدا کا شکر ہے ٹھیک ٹوٹ گیا۔

میدے کا پیکٹ جونہی کھولا، کچھ ’سفیدی‘ سلیب کو چھو گئی، پھر بائول میں ڈالنے لگے تو لو جی! آدھا نیچے۔ انڈے کے ’تالاب‘ میں اب میدے کی ’مچھلیاں‘ بھی شامل ہوگئیں۔ فکر کیے بغیر ہم نے چینی اور نمک بھی ڈال دیا۔

اب بدقسمتی ہی کہہ لیں کہ جلد بازی کی وجہ سے ونیلا ایسنس صاحبہ بھی جان کی بازی ہار کر اپنے دونوں ساتھیوں (انڈا اور میدہ) سے جا ملیں۔ سیال سے مادوں میں چیونٹیاں بھی تیراکی کا شوق پورا کرنے لگیں۔ بدبو کچن میں پھیلنے لگی۔ اب جناب! آخری مرحلہ تھا مکھن ڈالنے کا۔ مکھن اتنا چکنا تھا کہ اس کی ٹکیہ ہمارے ہاتھوں سے سلپ ہوکر سلیب پر گر گئی۔ اٹھائی، تو اپنے چکنے نقش یاد گار کے طورپر محترمہ نے چھوڑ دئیے تھے۔ مکھن پگھلا کر شیشے کی چھوٹی پرچ اٹھا کر لے جانے لگے تو… اوہ! ارے برتن ٹوٹنے کی ہی کمی تھی باقی نقصان ہوگئے تھے… پرچ کرچی کرچی مکھن سمیت نیچے گری تھی… مگر ہم تو کیک بنانے میں مگن تھے۔ سارے اجزا بخوبی مکس ہوگئے۔ کیک کے سانچے میں ڈال کر اوون میں رکھا۔ کیک، بیک ہونے لگا تو ہم نے صفائی کی طرف توجہ دی۔ پرچ کے بڑے بڑے ٹکڑے اٹھا کر کچن کے کونے میں کیے۔ (گلوز پہن لیے تھے، شکر ہے ہاتھ نہیں زخمی ہوا) انڈے کا مادہ ہاتھ سے کونے پر کیا اور جہاں چکنائی تھی، وہاں ٹشو پیپر پھیرا۔ مکھن کے نقش و نگار پر بھی ٹشو پھیردیا۔

کچھ دیر بعد کیک کی خوشبو ہمارے نتھنوں سے ٹکرائی۔ جب پک گیا تو ہم نے باہر نکالا۔ اففف! کتنا لذیذ تھا کہ سرور دل میں سرایت کر گیا۔ آٹھ برس کی عمر میں کیا مزیدار کیک بنایا تھا! ہم نے خود کو سراہا۔ دل ہی دل میں خوش ہو رہے تھے کہ اماں گلے سے لگا کر دیر تک بلائیں لیں گی۔ انعام دیں گی اور بھی کیا کیا… ہماری سوچیں اونچی پرواز کرنے لگیں۔ ہم خوش تھے کہ ایسا کارنامہ انجام دیا ہے کہ اماںکی دعائوں کے مستحق بن جائیں گے۔ کیک سامنے رکھا اور خراماں خراماں چلتے کمرے تک آئے۔ خوشی سے قدم زمین پر ٹکتے نہ تھے۔

٭

شام کو اماں کمرے سے نکلیں، تو انڈے کی بو محسوس ہوئی۔
’’ہائے یہ کیا ہوا…؟‘‘

کچھ دیر بعد اماںکی گھن گرج پورے گھر میں گونج رہی تھی۔
’’بدتمیز ! کسی سے اجازت لینے کی بھی توفیق نہیں ہوئی۔ ساری چیزیں پھیلادیں۔ کس نے مشورہ دیا تھا تمہیں کیک بنانے کا، عمر دیکھو اپنی!‘‘

’’اور یہ انڈا! اف رمشا کی بچی تمہیں عقل نہیں ہے… پورے گھر میں انڈے کی بو پھیل گئی! ہائے! میری پرچ بھی توڑ دی! شکل گم کرو یہاں سے، ورنہ کھالوگی مجھ سے تین چار!…‘‘

پھیلاوا سمیٹتے ہوئے وہ مسلسل برا بھلا کہہ رہی تھیں اور ہمارے ارمانوں کا پرندہ جو بہت اونچی پرواز اڑ رہا تھا، زخمی ہوکر نیچے گر گیا۔

’’ہائے! اتنے مزے کا کیک بنایا، پھر بھی ڈانٹا۔‘‘

سارا کچن سمیٹ کر ’صفائی‘ تو کردی تھی۔
ہم اپنے ننھے ذہن پر زور ڈالنے لگے کہ غلطی کیا ہوئی ہے؟ لحاف اوڑھے ہم ٹپ ٹپ آنسو بہانے لگے۔ کچن سے آتی اماںکی ڈانٹ کی آواز کم از کم گھنٹے سے پہلے رکنے والی نہ تھی۔ سو ہم نے بے چارگی سے آنکھیں موند لیں۔ اور ہاں اماںپورا دن ناراض رہیں اور ہمارا ننھا ذہن سمجھنے سے قاصر رہا کہ غلطی کیا ہوئی! خیر شکستہ دل رہا پورے دن۔

٭
’’ارے واہ! کتنا مزیدار کیک ہے۔‘‘ آج پورے پچیس سال بعد دکان میں ایک کیک نظر آیا تو میرے منہ میںپانی بھر آیا۔

’’لے دیں یہ کیک۔‘‘ میں اپنے میاں سے مخاطب تھی۔
’’بیگم! یہ اچھی بیکری نہیں پھر لادوں گا۔‘‘

(ہوں… یہ اچھی بیکری نہیں تو پھر اپنے لیے بسکٹ کیوں لیے؟)
ہم حسرت سے کیک کو گھورتے رہے۔

ہماری تقریباً آٹھ سالہ ننھی سی گڑیا پریشانی سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے بولی:’’مما! آپ نے کیک کھانا تھا۔‘‘
’’ہاں میری گڑیا! بووووہت ’زیادہ‘ مگر آپ کے پاپا نہیں دلا رہے۔‘‘ میں نے اس کی پریشانی کا لطف اٹھاتے ہوئے چھیڑا۔

’’پاپا، پاپا! مما نے کیک کھانا ہے لے دیں ناں ان کو۔‘‘ گڑیا نے اپنے پاپا کی پشت پر ہاتھ مار کر کہا۔
’’اری گڑیا! پھر لے دوں گا۔ مما کی جان!‘‘ انہوں نے ہنستے ہوئے اسے پیار کیا۔

’’چلو آئو۔‘‘ میں نے اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور ہم باہر آگئے۔
’’مما! آپ نے کیک کھانا تھا؟‘‘گاڑی میں بیٹھ کر پھر گڑیا بولی۔ اسے بہت بے چینی ہو رہی تھی۔

میںنے اسے گلے سے لگالیا۔
’’میری جانی! فکر مت کرو! شاباش میں نے ایسے ہی کہہ دیا تھا۔‘‘ میں نے اسے پچکارتے ہوئے کہا۔ گڑیا چپ تو ہوگئی مگر مجھے کیا معلوم تھا کہ اس کے ذہن میںکیا کھچڑی پک رہی ہے؟ہم گھر آئے تو پھر گڑیاصاحبہ نے سوال کرلیا۔

’’مما! پاپا کو کہوں کہ کیک لادیں۔ آپ کا دل چاہ رہا تھا۔‘‘ میں جھنجھلا گئی مگر ننھی سی گڑیا کو محسوس نہ ہونے دیا، پیار سے بولی۔
’’اری گڑیا، میں نے آپ کے پاپا سے فرمائش کیا کردی، آپ میرے اوپر ہی سوار ہوگئیں۔ جائیے کمرے میں جائیے۔‘‘

اچھے موتی
(عائشہ گل)

٭… موازنہ و مقابلہ انسان سے اس کا سکون چھین لیتا ہے، بے نیازی اور عاجزی پر سکون رکھتی ہے۔

٭… سجدوں میں گرنے والوں کو اللہ کبھی گرنے نہیں دیتا۔

٭… کسی کے برا کہہ دینے سے نہ ہم برے ہوتے نہ اچھے، اپنی زبان سے ہر شخص اپنا ظرف دکھاتا ہے دوسرے کا عکس نہیں۔

٭… دعا کرنے والا دوست ہمیشہ غریب ہوتا ہے۔

٭… دوسروں کے اچھے ہونے کا انتظار نہ کرے، بلکہ خود اچھا بن کر دکھائیں کہ اچھا انسان کیسا ہوتا ہے؟

٭… کچھ تکلیفیں ایسی ہوتی ہیں کہ جن پر دینے والوں کو معاف کیا جاسکتا ہے، مگر ان سے تعلق نہیں رکھا جاسکتا۔

٭… لفظ کہنے والوں کا کچھ نہیں جاتا، لفظ سننے والے کمال کرتے ہیں۔

٭… وہ وقت دور نہیں جب یہ وقت ختم ہوجائے گا۔

٭…کبھی بھی کوئی فیصلہ غصے کی حالت میں نہ کرنا، کیونکہ ابلتے ہوئے پانی میں تو اپنا عکس بھی دکھائی نہیں دیتا۔