Boy Hide Face

بچوں کا خوف کیسے دور کریں؟

نیلم علی راجہ

مجھےا سکول میں، گلی میں کسی بچے نے مارا ہے… !
مجھے وہ بچہ تنگ کرتا ہے… !

میں نے گھر سے باہر نہیں جانا… !!!
اس جیسے ان گنت جملے بچے روزانہ کی بنیاد پر والدین کو بتاتے ہوں گے۔

ہر وقت ماں باپ کے ساتھ چپکے رہنے والے بچوں کو والدین کی توجہ اور مثبت حوصلہ افزائی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
والدین کا مثبت ردعمل بچوں کو ہمت دیتا ہے۔

اور اگر والدین ان کی بات پر دھیان نہیں دیتے یا والدین کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا کہ بچے کی بات سن یا سمجھ سکیں تو بچے بہت ہی خاموش طبع اور احساس کمتری کا شکار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
یاد رکھیے کہ ہر بچہ فطرتاً خوش رہنا چاہتا ہے… !

ہنستا مسکراتا، شرارتیں کرتا ہے۔
مگر خاموش طبع، شرمیلے یا احساس کمتری کا شکار بچوں کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔

ماہر نفسیات جان واٹسن کا خیال تھا کہ بچوں میں پیدائشی طور پر صرف چند فطری خوف ہوتے ہیں، جن میں سے دو سب سے اہم ہیں۔

1۔ اونچی آواز کا خوف

2۔ دیکھ بھال کے ختم ہونے کا خوف

دیگر تمام خوف وقت کے ساتھ ساتھ بچہ ماحول اور لوگوں سے سیکھتا ہے۔
ہمارے بچوں کو کون سکھاتا ہے کہ کس چیز سے ڈرنا ہے، کس سے نہیں ڈرنا۔کیا چیز خوفناک ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ بچہ جس ماحول اور ثقافت میں پروان چڑھتا ہے۔ اس میں اسے بتایا جاتا ہے کہ کیا خوفناک ہے اور کیا نہیں، کیا ضروری ہے اور کس سے ڈرنا چاہیے۔ کس سے نہیں۔

اکثر بچے صرف اسی بات سے ڈرتے ہیں جو ان کے والدین نے انہیں بتائی ہوتی ہے، اور وہ دوسری چیزوں کے ساتھ بغیر کسی خوف کے، توجہ، احتیاط اور دلچسپی کے ساتھ برتاؤ کرتے ہیں۔
ایک بچہ جسے والدین نے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیشہ ہمت بندھائی ہو۔ وہ بزدل نہیں ہو سکتا۔

وہ ذہین، پرعزم اور بہادر ہوتا ہے۔
اپنے بچوں کو سیلف ڈیفنس سکھائیے۔

بچہ سکول میں، محلے میں دوستوں میں ایک اجنبی ماحول میں ہوتا ہے۔
وہاں اسے اپنی جنگ خود لڑنا ہوتی ہے۔

اسے ہمیشہ اچھا اچھا بننے کا درس مت دیں۔
اگر کوئی اسے تنگ کرے یا مارے تو بچے کو جواب دینے کا حق حاصل ہے۔

بچے کو یہ ہمت اور حوصلہ ان کے والدین ہی دے سکتے ہیں۔
ورنہ یہ گبھرانا، ڈرنا اور خاموش رہ کر زیادتی برداشت کرنا ان کی شخصیت کا خاصا بن جاتا ہے۔

ایسی عادات بڑے ہونے کے بعد بھی ساتھ رہتی ہیں اور یہ خوف کے سائے انسان کی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
انھیں اپنی زندگی میں ایک پراعتماد اور مضبوط انسان بننے میں کردار ادا کیجئے۔

ہر جاندار کو اپنی اولاد سب سے زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ اور انسان تو ہے ہی اشرف المخلوقات۔ اسے تو خود سے بھی پیاری ہوتی ہے۔ رات دن اس کے لیے ایک کر دیتا ہے۔
مگر یاد رکھیں!

اگر آپ حیثیت اور قوت رکھتے ہوئے اپنی اولاد کو اس کا جائز حق نہیں دلوا سکتے… اس کی ہمت اور حوصلہ نہیں بن سکتے…
خواہ وہ وقت کی کمی کے باعث ہو یا عدم توجہ کے باعث…

تو پھر آپ ناکام ہو چکے ہیں… پھر آپ کسی رشتے کے لیے سٹینڈ نہیں لینے والے۔
٭٭٭