Winter landScape

سنومین

عشرت جہاں۔ لاہور

نیر اور تاباں دونوں گھر سے نکلے۔
دادی اماں کی ہدایت کے مطابق نیر نے مضبوطی سے بہن کا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔

جوں جوں آگے بڑھتے گئے، تاباں مچلنے لگی، پھر وہ نیر کا ہاتھ جھٹک کر ہوا ہوگئی۔
”بہت بے چین بچی ہے، چلبلی اور نچلی نہ بیٹھنے والی۔“

یہ خطاب اسے دادی کی طرف سے ملے تھے۔
بستی کے پیچھے والا بڑا میدان برف سے اٹا ہوا تھا۔

”برف کا سمندر!“ تاباں کی کلکاری میں بے پناہ مسرت چھپی تھی۔
”بھائی! درختوں کو کیا ہوا ہے؟“ اس نے انجان بن کر سوال کیا، حالنکہ اسے معلوم تھا کہ برف کی چادر کے نیچے ٹنڈ منڈ درخت چھپے کھڑے ہیں۔

بستی کے دیگر بچے بھی یہاں وہاں دوڑتے نظر آرہے تھے۔ دور سے دیکھو تو یوں لگتا تھا چابی والے رنگ برنگ گڈے گڑیاں گھوم پھر رہے ہوں۔
نیر دوڑتے بھاگتے بچوں میں اپنے دوستوں کو تلاش کرنے لگا۔

میدان کے ایک کونے میں چند بچے برف کا آدمی بنا رہے تھے اور کچھ ساتھی بچے شرارت کے طورپر اسے بگاڑ رہے تھے۔ کسی نے برف کے گولے بنا بنا کر نشانہ بازی کی مشق شروع کررکھی تھی، پھر تو دیکھتے ہی دیکھتے دوسرے بچوں نے بھی یہ شغل اپنالیا۔ اب بے چارے سنو مین کا نہ ہاتھ تھا نہ ناک، تڑا مڑا سا کھڑا تھا۔
سنو مین بنانے والے بچے روہانسے ہوکر شرارتی بچوں کے پیچھے بھاگ کھڑے ہوئے۔ اب وہاں ایک اکیلا ادھورا سنو مین تھا اور نیر اور تاباں۔

”بھائی! آؤ اسے پھر سے بنائیں۔“ تاباں آگے بڑھی۔
جس طرح سمندر کی سیر کو جانے والے بچے ریت سے گھروندے بناتے ہیں اور کچھ بڑے بچے ریت سے قلعے بھی بناتے ہیں لیکن ریت سے بنے گھروندے اور قلعے ناپائیدار ہوتے ہیں۔ وقت اور حالات کی ہوائیں انھیں بڑی جلدی ڈھادیتی ہیں۔ اسی طرح برف باری سے لطف اندوز ہونے والے لوگ برف سے سنو مین بناتے ہیں۔

نیر نے ماموں سے سنو مین بنانا سیکھا تھا۔ نیر اور تاباں کا سنومین بہت اچھا بنا تھا۔ دونوں نے مل جل کر بڑی محبت اور توجہ سے اسے بنایا تھا۔ نیر نے اپنے گلے کا سرح مفلر سنو مین کے گلے میں ڈال دیا۔ تاباں نے سرخ گاجر اس کی ناک کی جگہ رکھ دی۔ اب تو سنو مین خوب نمایاں ہورہا تھا۔ تاباں نے ذرا دور کھڑے ہوکر اس کا جائزہ لیا اور کچھ سوچ کر اپنی جیکٹ اسے پہنانے لگی۔
”یہ کیا کر رہی ہو تاباں! تمھیں ٹھنڈ لگ جائے گی۔“ نیر نے ڈانٹا۔

”بھائی یہ سنو مین کو پہنادو ناں میں نے جرسی بھی تو پہنی ہوئی ہے۔“
تاباں ماننے والی کہاں تھی۔

جیکٹ پہن کر سنومین کی سج دھج ہی نرالی تھی۔ شام کے سائے پھیلنے لگے۔ فضا میں خنکی بڑھ رہی تھی۔ نیر نے واپسی کا ارادہ کیا۔ دونوں بچوں نے سنومین پر ایک نظر ڈالی اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ تاریکی یکدم ہی پھیل گئی۔ برف کا میدان خالی ہوچکا تھا۔ یہاں سے وہاں سفید چمک دار برف کے درمیان صرف سنومین کھڑا تھا۔
”مہربان بچے!“ سنو مین بولا۔

”ہوں …… ایک گھر بنانا چاہیے۔ ایسا گھر جو منفرد ہو اور جسے بچے بھی پسند کریں۔“
سنو مین نے خود کلامی کی۔ ”زبردست آئیڈیا۔ کل جب بچے آئیں گے تو میرا شاندار گھر دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔“

پھر اس نے اپنا کام شروع کردیا۔
”ونیلا کی بنیادوں پر اس نے ٹوٹی فروٹی کی دیواریں کھڑی کیں۔ اسٹرابیری کی ڈھلوان چھت نے گھر کو رونق بخش دی۔ چاکلیٹ کا دروازہ مہارت سے لگا کر اس پر پستے کے پھول ٹھونک دیے۔ کوکونٹ کا پردہ کھڑکی سے ہٹا کر جھانکیں تو مختلف سائز کی کونز سے کی گئی سجاوٹ نظر آرہی تھی۔

”بہت خوب!“ سنومین نے اندر باہر سے جائزہ لیا۔ ”گھر کے دروازے کے ساتھ ویفرز کی باڑ لگانی چاہیے۔“
وہ سوچتے سوچتے اپنا کام بھی کر رہا تھا۔

”اوہ اس کے ساتھ اگر آئس کریم کی نہر بہنے لگے مزہ دوبالا ہوجائے۔“
سنو مین نے چٹکی بجائی۔

سنو مین ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ دن کا اجالا پھیلنے لگا۔ سورج کی کرنیں یہ انوکھا گھر دیکھنے کو اتر آئیں۔
مگر افسوس! کرنوں کے دیکھتے ہی دیکھتے پہلے آئس کریم گھر پگھلا پھر رفتہ رفتہ سنومین بھی تحلیل ہوگیا۔

٭٭٭