Apna Ghar Bachon Ka Islam 1109

اپنا گھر

یہ خوبصورت کہانی پڑھتے ہوئے آپ کو احساس ہو گا کہ یہ تو ایک سچی کہانی ہے!

اپنا گھر
علی اکمل تصور

”دُشمن سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ اُس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ مشکل سے بچنے کے لیے اپنا گھر چھوڑ دینا مشکل کا حل نہیں ہے۔ دُشمن تو نئے گھر میں بھی آسکتا ہے!“
اُنھوں نے اپنا یہ گھر خاص مٹی کی مدد سے بنایا تھا۔ اِس گھر میں داخل ہونے کے لیے بہت سے سوراخ تھے۔ وہ یہاں لاکھوں کی تعداد میں رہتی تھیں۔ اُن کا سلوک مثالی تھا۔ اُن کا آپس میں کبھی جھگڑا نہیں ہوا تھا۔ سب اپنے اپنے حصّے کا کام کرتی تھیں اور اطمینان سے زندگی گزارتی تھیں۔

مگر پھر ایک دن اچانک اِس گھر میں طوفان آگیا۔
مصیبت بیٹھے بٹھائے آئی تھی۔ یہ ایک لپ لپاتی دو شاخہ زبان تھی۔ وقفے وقفے سے یہ لیس دار زبان کسی سوراخ کے ذریعے گھر کے اندر داخل ہوتی۔ اُن میں سے بہت سی اُس زبان کے ساتھ چپک جاتیں اور پھر زبان باہر چلی جاتی۔

ایسا حملہ اُن کے گھر پر پہلی بار ہوا تھا۔ پہلے تو وہ سب گھبرا گئیں۔ اِس ہل چل میں جانی نقصان زیادہ ہوا، پھر وہ سب اپنے اِس گھر کے محفوظ کونوں میں دُبک گئیں۔ خوف اور صدمے کی وجہ سے اُن سب کا برا حال تھا۔
جب بہت دیر گزر گئی تو اُن میں سے چند ہمت کر کے اپنے گھر سے باہر نکلیں۔ باہر کوئی بھی نہیں تھا۔ ہاں ریتلی مٹی پر گھر کے چاروں طرف لکیریں سی نظر آرہی تھیں۔

وہ اپنے دُشمن کو دیکھ بھی نہیں پائی تھیں اور جنھوں نے دیکھا تھا وہ زندہ نہیں رہیں تھیں۔
اب وہ سب سر جوڑ کر بیٹھ گئیں کہ آگے کیا ہوگا؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا۔ انھیں سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ آخر دشمن کا مقابلہ کس طرح کریں؟

”جہاں تک میں سمجھتی ہوں، ہمارا دُشمن بہت طاقت وَر ہے۔“
سنہری سردار چیونٹی بولی۔

”جس کی زبان اتنی بڑی ہے، وہ خود کتنا بڑا ہو گا۔“ کالی چیونٹی بولی۔
”دُشمن نے ہمارے گھر کا راستہ دیکھ لیا ہے، اس لیے ہمیں یہ گھر چھوڑ دینا چاہیے۔“

سفید چیونٹی نے رائے دی۔
”اپنا گھر چھوڑ کر کہاں جائیں گے؟“ سنہری چیونٹی نے اعتراض کیا۔

”جان بچانی بھی تو ضروری ہے۔“ تمام چیونٹیوں نے اس خیال کو پسند کیا، پھر تمام چیونٹیاں قطار بنائے اپنے گھر سے نکل پڑیں۔
انھیں اپنا گھر چھوڑنے کا دکھ بھی تھا اور پھر سے نیا گھر بنانے کی فکر بھی۔ اب انھیں مناسب جگہ کی بھی تلاش تھی۔

چلتے چلتے وہ ایک کھیت میں داخل ہوئیں۔ یہ کھیت گاؤں کے ساتھ ہی تھا۔ انھوں نے دیکھا کہ ایک مرغی کھیت میں کُٹ کُٹاتی پھر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ایک درجن سے زیادہ چوزے بھی موجود تھے۔ وہ سب کھیت میں اپنی خوراک تلاش کر رہے تھے۔ نرم مٹی پر اپنی چونچ اور پنجے چلا رہے تھے تاکہ دانا دنکا اور ان کے جیسے حشرات کھا سکیں۔
چیونٹیوں کا قافلہ چلتے چلتے رک گیا۔ انھوں نے ایک عجیب منظر دیکھا تھا۔ ایک بلی چھپ کر مرغی کے بچوں کو تا ڑرہی تھی۔ وہ مناسب موقع کے انتظار میں تھی۔ جیسے ہی اسے موقع ملتا وہ چوزہ اُچک کر بھاگ جاتی مگر اسی وقت مرغی کو بلی کی موجودگی کا احساس ہو گیا۔ اِدھر بلی نے چوزے پر حملہ کیا ادھر مرغی پھڑپھڑاتے ہوئے اُڑی اور بلی سے پہلے اپنے بچے کے پاس پہنچ گئی اور اپنے پنجوں سے بلی کو نوچ ڈالا۔

بلی قدرے ہٹ کر کھڑی ہو گئی۔
”کُٹ… کُٹ… کٹاک…“ مرغی کے پَر کھڑے ہو گئے تھے۔

اُس کی آنکھوں میں غصّہ تھا۔
پھر مرغی نے دفاع پر اکتفا کرنے کی بجائے اقدام کرنے کا فیصلہ کیا اور بلی پر ایک زوردار حملہ کر دیا۔

”کُٹ…… کُٹ…… کُٹ……!“
ڈر کے مارے بلی نے دوڑ لگا دی۔

اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے ایک ماں نے خود سے کئی گنا طاقت وَر دشمن کو بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔
چیونٹیاں حیرت سے یہ منظر دیکھ رہی تھیں۔

اِس منظر میں ان کے لیے ایک سبق تھا کہ دشمن سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ مشکل سے بچنے کے لیے اپنا گھر چھوڑ دینا مشکل کا حل نہیں ہے، کیونکہ دشمن تو نئے گھر میں بھی آسکتا ہے۔
اب چیونٹیوں کے اس قافلے کے لیے آگے کا سفر کرنا ناممکن تھا۔

ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ وہ پلٹ گئیں۔
اپنے گھر پہنچ کر انھوں نے سکون کا سانس لیا۔ اب انھیں دشمن کا انتظار تھا۔ اب وہ متحد ہو کر مقابلہ کرنے کے لیے تیار بیٹھی تھیں۔

رات سکون سے گزری، پھر نئے دن کا آغاز ہوا۔
اچانک انھوں نے سرسراہٹ کی آواز سنی اور پھر انھوں نے دیکھا کہ سوراخ میں سے لپ لپاتی لیس دار زبان گھر کے اندر داخل ہو رہی ہے۔

تمام چیونٹیاں ہوشیار تھیں، کوئی ایک بھی دشمن کے ہاتھ یعنی زبان پر نہ لگی اور وہ سب دوسرے سوراخو ں میں سے گھر سے باہر نکل آئیں۔
اور یہ دیکھ کر اُن سب کا دل دھک سے رہ گیا کہ ان کا دشمن ایک سانپ تھا۔ سانپ ان کے گھر کے اوپر ہی کنڈلی مارے بیٹھا تھا۔ وہ بار بار اپنی دو شاخہ زبان سوراخ میں داخل کر رہا تھا مگر ہر بار ناکامی کی وجہ سے اب اُسے غصّہ آرہا تھا۔

”حملہ……!“ سردار چیونٹی نے چیخ کر کہا۔
اور ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں چیونٹیاں سانپ کی طرف تیزی سے بڑھنے گئیں۔

دشمن چیونٹیوں کے حملے سے غافل اپنے دھیان میں تھا کہ اچانک لاکھوں چیونٹیاں اُس کے جسم پر چڑھ گئیں اور ایک ساتھ مل کر اسے کاٹنا شروع کردیا۔
اور سانپ تو اس اچانک آنے والی مصیبت سے گھبرا گیا۔ اس نے تیزی سے اپنا بل کھولا۔

چیونٹیوں نے اسے پھر سے کاٹا۔ سانپ نے زور سے اپنی دُم پٹخی۔ بہت سی چیونٹیاں نیچے گر پڑیں۔ بہت سی دُم کے نیچے آکر کچلی گئیں مگر ہزاروں ابھی بھی اس سے چپکی ہوئی تھیں۔ گرنے والی چیونٹیاں بھی اٹھ کھڑی ہوئیں اور پھر سے سانپ کے جسم پر سوار ہو گئیں۔
اب تو شدتِ تکلیف سے سانپ بہت زیادہ گھبرا گیا۔ اس نے کب ان معمولی چیونٹیوں کو کبھی اہمیت دی تھی جو اب متحد ہوکر آئی تھیں تو اسے موت سامنے نظر آنے لگی تھی۔

ایک ساتھ ہزاروں لاکھوں چیونٹیوں کے کاٹنے کی وجہ سے ہونے والی چبھن کا احساس بہت شدید تھا۔ سانپ نے ایک بار پھر زور سے دُم پٹخی مگر اب تمام چیونٹیاں ہوشیار ہو چکی تھیں۔ وہ سانپ کے جسم کے ساتھ چمٹی رہیں اور انھوں نے اپنے منہ کے شکنجے کا دباؤ بڑھا دیا تھا۔
اب تو سانپ تڑپ کر ایک سمت دوڑا۔ اُس کے دوڑتے ہی چیونٹیاں اُس کے جسم سے الگ ہونے لگیں۔ کوئی یہاں گری تو کئی وہاں۔

سانپ جو بھاگا تو اس نے پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔
سیکڑوں چیونٹیاں اپنے گھر اور قوم کے لیے قربان ہوچکی تھیں، لیکن ان کی قربانی کی وجہ سے لاکھوں چیونٹیاں اور ان کے بچے اب محفوظ تھے۔ چیونٹیوں کی تعداد کے حساب سے بہت کم جانی نقصان ہوا تھا۔ چند زخمی بھی تھیں مگر خوشی کی بات یہ تھی کہ اُنھوں نے اتحاد کی طاقت سے اپنے سے بہت ہی بڑے اور زہریلے دشمن کو بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا اور یوں خود کو اور اپنے پیارے گھر کو بچا لیا تھا۔

جب وہ تمام چیونٹیاں اپنے گھر میں داخل ہو رہی تھیں تو سنہری چیونٹی کے بیٹے نے معصومیت سے پلکیں جھپکاتے ہوئے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور پوچھا:
”امی! اب وہ سانپ دوبارہ تو نہیں آئے گا ناں؟“

”نہیں آئے گا…… اور اگر آیا بھی تو ہم سب مل کر پھر سے اُسے کاٹیں گے۔“
امی بولی۔

”میں بھی امی؟“ وہ معصومیت سے بولا۔
”ہاں …… تم بھی……“ سنہری چیونٹی نے مسکراتے ہوئے کہا۔

”جس قوم میں تم جیسے بچے ہوں، اس کا سامنا کوئی دشمن نہیں کر سکتا۔“
سنہری چیونٹی کے بیٹے کا سر فخر سے بلند ہو گیا۔

٭٭٭