Quran Graphic

مسکرانے والے قاریِ قرآن

مسکرانے والے قاریِ قرآن

دانش عارفین حیرت

ان کا نام عویمر تھا۔ ایک مرتبہ کہیں سے گزر رہے تھے کہ ایک ہجوم نظر آیا۔ ہجوم کے قریب سے گزرے تو انھوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ ایک شخص کو گالیاں دے رہے ہیں اور برا بھلا کہہ رہے ہیں۔
انھوں نے مجمع میں موجود ایک شخص سے سوال کیا:

”یہاں کیا ہوا ہے؟“
”اس نے کوئی گناہ کیا ہے۔“

اس شخص نے جواب دیا اور تفصیل بتائی کہ اس کے عمل سے لوگوں کو نقصان ہوا ہے۔
آپ نے اس شخص کی بات سن کر فرمایا:

”اگر کوئی شخص کنویں میں گر جائے تو اس کو وہاں سے نکال لینا چاہیے۔ گالی دینے سے کیا فائدہ؟اس کو غنیمت سمجھو کہ تم اُس(کے فعل) سے محفوظ رہے۔“
لوگوں نے پوچھا:

”آپ اس شخص کو (اس کے گناہ کی وجہ سے) برا نہیں سمجھتے؟“
جواب دیا:”اس شخص میں کوئی برائی نہیں ہے، ہاں اس کا یہ (گناہ والا) عمل (بہت) برا ہے۔ جب (یہ اپنا گناہ والا عمل) چھوڑ دے گا تو پھر میرا بھائی ہے۔“

لوگوں کو اس طرح بھرے مجمع میں نصیحت کرنے والے اِن صاحب کا نام تو عویمر تھا لیکن یہ مشہور اپنی کنیت ابو دردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوئے۔
جی ہاں! حضرت عویمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشہور صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔
بدن خوب صورت، ناک اٹھی ہوئی اور آنکھیں شربتی تھیں۔ سر اور ڈاڑھی کے بالوں میں سنہرے رنگ کاخضاب لگاتے تھے۔ عربی لباس پہنتے اور قلنسوہ (ایک خاص قسم کی ٹوپی) پہنتے۔ اگر عمامہ باندھتے تو اس کا شملہ پیچھے لٹکاتے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اسلام کی آواز آپ کے کانوں میں پڑی۔ آپ سلیم الفطرت تھے مگر فوراً اسلام قبول نہیں کیا، سوچ بچار کرتے رہے۔ جب مسلمان غزوہئ بدر سے واپس آئے تو آپ نے اسلام قبول کیا مگر اپنے دیر سے اسلام قبول کرنے پر ہمیشہ نادم رہے۔ اپنے اس فعل پر فرمایا کرتے تھے:

”ایک گھڑی کے لیے نفس کی خواہش پوری کی جائے تو وہ دیر تک رہنے والا غم دے جاتی ہے۔“
غزوہئ احد پیش آیا تو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ گھوڑے پر سوار ہوکر میدان میں آئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں دیکھا تو تعریف فرمائی: ”عویمر(کو دیکھو)! کیسے اچھے سوار ہیں۔“

غزوہئ احد کے بعد کے تما م غزوات میں آپ نے شرکت کی۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اسلام قبول کیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں ابو دردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھائی بنا دیا۔
جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا سے پردہ فرما گئے تو ابو دردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ سے شام چلے گئے۔

اِس کی کئی وجوہات تھیں۔ اُن میں سے ایک یہ تھی کہ آپ بہت ہی زبردست قاری قرآن تھے۔آپ نے اپنی یہ ذمے داری سمجھی کہ قرآن مجید کی لوگوں کو تعلیم دیں، پھر ایک بات یہ بھی تھی کہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سن رکھا تھا: ”جب فتنوں کی آندھیاں آئیں گی تو اُس وقت ایمان کا چراغ صرف شام میں محفوظ رہے گا۔“
جب ابو دردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منور ہ سے شامجانے لگے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے اور اجازت چاہی:

”میں شام کی طرف جانا چاہتا ہوں۔“
”اس کی اجازت تو میں نہیں دیتا۔“حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:”ہاں اگر حکومت کی کوئی خدمت قبول کریں تو میں اجازت دوں گا۔“

”مجھے حاکم نہیں بننا۔“ ابو دردا رضی اللہ عنہ نے حکومت کی خدمت کرنے سے انکار کر دیا۔
”پھر تو اجازت لینے کی امید بھی فضول ہے۔“

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کا انکار سن کر اجازت نہیں دی۔
اب ابو دردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے درخواست کی:”حکومت کرنے کے بجائے لوگوں کو قرآن و حدیث سکھاؤں گا اور نماز پڑھاؤں گا۔“

”ہاں یہ بات قابل قبول ہے۔“
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اور جانے کی اجازت دے دی۔

ابو دردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام روانہ ہو گئے۔ وہاں ان کا وقت زیادہ تر قرآن و حدیث سکھانے میں گزرتا۔
حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بہت اچھے تاجر تھے۔ اچھا کماتے اور کھاتے تھے۔ ایک روز تجارت کرنا بند کر دیا۔

کسی نے پوچھا:”آپ تو اچھا کماتے تھے اب تجارت کیوں بند کر دی؟“
حضرت ابو دردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے:
”مجھے اب ایسی دکان بھی پسند نہیں ہے جس میں چالیس دینا ر کا منافع روزانہ ہو، ان دیناروں کو صدقہ کردیتا ہوں، اور نماز بھی قضا نہ ہوتی ہو۔“

اس شخص نے حیرانی سے پوچھا: ”اس کی کیا وجہ ہے؟“
حضرت ابو دردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا:

”قیامت کے روز حساب تو دینا ہی پڑے گا۔“
ایک مرتبہ کسی اور نے بھی تجارت کے متعلق سوال کیا تو ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے: ”مجھے اِس بات سے خوشی نہیں ہو سکتی کہ مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر خرید و فروخت کروں۔ روزانہ مجھے تین سو درہم نفع ہواور میں تمام نمازیں مسجد میں جماعت سے ادا کروں۔“

پھر ایک وقفے کے بعد کہنے لگے:”میں یہ نہیں کہتا کہ اللہ میاں نے تجارت کو حلال نہیں کیا اور سود کو حرام کیا ہے بلکہ میری خواہش ہے کہ ان لوگوں میں سے ہو جاؤں جنھیں خرید و فروخت اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہیں کرتی۔“
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے زمانہئ خلافت میں تمام بزرگ صحابہ کرام کی تنخواہیں مقرر کیں تو بدری صحابہ کرام کی تنخواہیں سب سے زیادہ تھیں۔ حضرت ابو دردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ بدری نہیں تھے، اُس کے باوجود آپ کی تنخواہ بدری صحابہ کرام کے برابر مقرر کی گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگوں کو قرآن مجید پڑھاتے تھے اور بہت بڑے عالم دین تھے۔
ان کے شام چلے جانے کے بعد ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے اور دیگر صحابہ کرام سے ملنے کا ارادہ کیا، جو شام میں اپنی ذمے داریاں ادا کر رہے تھے۔

آپ حضرت ابو دردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر پہنچے، دروازے کو کھٹکھٹانے کے لیے ہاتھ جو مارا تو وہ ایسے ہی کھل گیا۔ دروازے میں کنڈی تک نہیں تھی۔ آسائشوں کا سامان تو رہنے ہی دیجیے، ان کے گھر میں ضرورت کی چیز یعنی چراغ تک نہ تھا۔ اندھیرے گھر میں ابو دردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک کمبل اوڑھے لیٹے تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اندر جا کر دیواروں کو ٹٹولنا شروع کیا، یہاں تک کہ ان کا ہاتھ ابو درداء رضی اللہ عنہ کو لگ گیا، انھوں نے ان کے تکیے کو ہاتھ لگایا تو وہ پالان کا ایک کمبل تھا، پھر ان کے بچھونے پر ہاتھ رکھا تو وہ کنکریاں تھیں جبکہ ان کے اوپر ایک باریک سی چادر تھی۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰعنہ نے حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس حالت میں دیکھا توآنکھوں سے بے ساختہ آنسو آ گئے، پوچھا:
”آپ اس طرح زندگی کیسے گزار رہے ہیں؟ اللہ میاں آپ پر رحم فرمائے کیا میں نے آپ پر(مال و دولت کی) وسعت نہیں کی؟“

حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب میں سوال کیا:
”اے عمر! (بالکل آپ نے تو مال سے وسعت کی تھی لیکن یہ بتائیں) کیا آپ کو وہ حدیث یاد نہیں ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے بیان کی تھی؟“

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ”کون سی حدیث؟“
ابو دردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک ارشاد سنایا کہ ”دنیا میں ہم کو اتنا سامان رکھنا ہے جتنا ایک مسافر کو چاہیے ہوتا ہے۔“

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارکہ کا یہ اثر ہوا کہ دونوں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یاد کرکے رونے لگے۔
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے پوچھا:
”امیرالمومنین! ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کیا کیا؟“

پھر دونوں حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں یاد کرکر کے روتے رہے، یہاں تک کہ روتے روتے نمازِ فجر کا وقت ہوگیا۔
(باقی اگلے ہفتے)

چھوٹا بڑا ……بچھو پانچ روپے!

حافظ محمد اقبال سحر، ہڑپہ ضلع ساہیوال

ایک گاؤں میں موجود ہر چھوٹی بڑی دکان پر اشیاء کی قیمتیں شہر کی بنسبت بہت مہنگی تھیں۔ چینی ہو یا سوجی، آلو ہوں یا پالک گاجر، ہر چیز کی قیمت کم ازکم بھی دو گنی تھیں۔یوں لگتا تھا کہ تمام دکانداروں نے مہنگے داموں چیز فروخت کرنے پر ایکا کرلیا ہو،مگر گاؤں کے مکین کیا کرتے، مجبوراً مہنگے داموں خریدنے پر مجبور تھے۔
میں یہاں کچھ عرصے کے لیے آیاتھا، ایک عمر رسیدہ شخص سے پوچھا:

”بابا جی! شہروں میں تو صرف بڑی دکان پر چیزیں مہنگی ہوتی ہیں، یہاں تو ہر چھوٹی بڑی دکان پرقیمتیں دو گنی ہیں، انھیں کسی کا ڈر خوف نہیں؟“
بابا جی مسکرائے اور کہنے لگے:

”ایک آدمی بچھو بیچتے ہوئے صدا لگا رہا تھا: ’پانچ روپے…… پانچ روپے……!‘
بچھو فروش کی آواز سن کر ایک راہ گیر اس کے پاس آیا۔ اس نے دس روپے کا نوٹ نکال کر بچھو فروش کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے کہا: ’یہ لو دس روپے اور دو بچھو مجھے دے دو، مجھے اُن کی سخت ضرورت ہے۔‘

بچھو فروش نے دو بچھو نکالے اور پیک کر کے اسے دے دیے۔
ایک بچھو بڑا جبکہ دوسرا قدرے چھوٹا تھا۔

راہگیر نے پوچھا: ’بڑے بچھو کی قیمت کیا ہے؟‘
بچھو فروش نے جھٹ سے کہا: ’صرف پانچ روپے۔‘

’اور چھوٹا بچھو کتنے کا ہے؟‘
’اُس کی قیمت بھی پانچ روپے ہے۔‘ بچھو فروش نے اطمینان سے جواب دیا۔

’بڑے بچھو کی قیمت بھی پانچ روپے اور چھوٹے بچھو کی قیمت بھی پانچ روپے؟‘
راہ گیر نے حیرانی سے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
’جی ہاں بالکل…… پانچ پانچ روپے…… ہاتھ لگا کر دیکھو…… چھوٹا بچھو بھی اگر وہی کام نہ کرے جو بڑا بچھو کرتا ہے، تو پانچ روپے واپس۔‘

بچھو والے نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔“
بابا جی نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور کہا: ”یہی حال اس گاؤں کے ہر چھوٹے بڑے دکان دار کا ہے، جس دکا ندار سے مرضی سودا سلف خریدو، اس نے ڈنک مارنا ہی مارنا ہے۔“

باباجی چپ ہوئے تو مجھے بھی چپ لگ گئی۔
٭٭٭