Sun Heat Graphic

پہلی جھلک

پروفیسر محمد اسلم بیگ

موسم گرما کی چلچلاتی دھوپ سے بلبلا کر من چلے مری کا رخ کرتے ہیں اور موسمِ سرما کی چمکیلی برف انھیں ایک بار پھر کھینچ کرمری لے جاتی ہے، جب کہ ہم برف باری شروع ہوتے ہی مری کو خیر باد کہہ کر راولپنڈی آجاتے تھے اور برف باری ختم ہوتے ہی واپس مری پہنچ جاتے تھے۔

دراصل مری کے تعلیمی اداروں میں باقی پنجاب کے برعکس جنوری، فروری میں موسم سرما کی طویل تعطیلات ہوتی ہیں اور بعض مرتبہ برف باری ختم نہ ہونے کی صورت میں یہ سلسلہ مارچ تک جا پہنچتا ہے۔
یہ ۲۸۹۱ء یا ۳۸۹۱ء کی بات ہے جب میں گورنمنٹ کالج مری میں تدریسی فرائض انجام دے رہا تھا۔ ہم لوگ موسمِ سرما کی تعطیلات کی وجہ سے راولپنڈی آئے ہوئے تھے۔ ایک کرم فرما کے کہنے پر لالہ زار میں رہائش پذیر ایک کرنل صاحب کے بیٹے کو دو تین ماہ کے لیے ٹیوشن پڑھانا شروع کی۔ طالب علم، جس کا نام مجھے یاد نہیں، لائق اور ذہین تھا لیکن اساتذہ کی طرف سے مناسب توجہ نہ ملنے کی وجہ سے وہ بس اوسط درجے کے نمبر لیتا تھا۔ اُس کے والدین کی خواہش تھی کہ وہ کسی طرح فرسٹ ڈویژن حاصل کرلے اور اس کے لیے وہ بڑے فکر مند تھے۔ چند دن پڑھانے کے بعد مجھے اندازہ ہوگیا کہ طالب علم میں نہ صرف فرسٹ ڈویژن حاصل کرنے کی استعداد موجود ہے، بلکہ اگر توجہ اور محنت سے پڑھائی کرے تو اعلیٰ فرسٹ ڈویژن بھی آسکتی ہے۔ یہ بات میں نے اس کے والد صاحب کو بتائی تو بہت حیران ہوئے اور انھوں نے مجھ سے درخواست کی کہ میں اسے روزانہ ایک گھنٹے کی بجائے دو گھنٹے پڑھایا کروں۔

طالب علم کے شوق، شرافت اور دلچسپی اور والدین کے لیے اس کے بارے میں فکر مندی کی وجہ سے میں نے ان کی بات مان لی۔
پڑھائی کو ابھی چند ہی دن گزرے تھے کہ میں نے اس کی پڑھائی کی میز پر دو تین جاسوسی ناول دیکھے۔ ناولوں کا بغور جائزہ لیے بغیر ہی میں نے اسے مشورہ دیا کہ آپ اگر اعلیٰ نمبر لینا چاہتے ہیں تو یہ ناول پڑھنا چھوڑ دیں۔

”سر! یہ ناول میرے امی اباو بھی پڑھتے ہیں اور وہ مجھے یہ ناول پڑھنے سے منع نہیں کرتے۔“
طالب علم نے بڑے ادب سے وضاحت پیش کی۔

مجھے اُس کا جواب سن کر بڑی حیرت ہوئی اور میں نے ایک ناول اٹھا کر دیکھا تو سرورق پر ناول کا نام لکھا تھا جو اب مجھے یاد نہیں ہے اور اس کے ساتھ انسپکٹر جمشید سیریز اور مصنف کے طورپر اشتیاق احمد نام درج تھا۔
انسپکٹر جمشید سیریز اور اس کے مصنف کے طورپر اشتیاق احمد کا نام میرے لیے بالکل نیا تھا۔ اُن دنوں لاہور سے شائع ہونے والے اردو ڈائجسٹ اور سیارہ ڈائجسٹ اور کراچی سے شکیل عادل زادہ کے زیر ادارت شائع ہونے والے سب رنگ ڈائجسٹ کے سوا کوئی رسالہ یا ناول میرے زیر مطالعہ نہیں تھا۔

نوجوان سوال حل کرنے میں مصروف ہوا تو میں نے وہ ناول کھول کر ابتدائی صفحوں پر نظر ڈالی اور پھر بقول اشتیاق صاحب علیہ الرحمہ مجھے حیرت کا ایک جھٹکا لگا جو خوف ناک نہیں بلکہ نہایت خوشگوار تھا۔
اس حیرت انگیز اور مسرت آمیز جھٹکے کی وجہ دراصل یہ عبارت تھی جو ناول کے تیسرے یا چوتھے صفحے پر درج تھی:

ناول پڑھنے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ:
O…… یہ وقت نماز کا تو نہیں۔
O…… آپ کو اسکول کا کوئی کام تو نہیں کرنا۔
O…… کل آپ کا کوئی ٹیسٹ یا امتحان تو نہیں۔
O…… آپ نے کسی کو وقت تو نہیں دے رکھا۔
O…… آپ کے ذمے گھر والوں نے کوئی کام تو نہیں لگا رکھا۔
اگر اِن باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی ہو تو ناول الماری میں رکھ دیں۔ پہلے نماز اور دوسرے کاموں سے فارغ ہو لیں، پھر ناول پڑھیں۔ شکریہ
مخلص: اشتیاق احمد
میرے لیے یہ ایک بالکل نئی بات تھی۔ میں نے آج تک کسی کتاب، ناول یا رسالے کے شروع میں ایسی عبارت نہیں دیکھی تھی بلکہ اس قسم کے ترغیبی جملے ہی دیکھے تھے کہ ایک بار یہ ناول آپ کے ہاتھ میں آگیا تو آپ اسے ختم کیے بغیر نہیں چھوڑیں گے۔ یہاں تو الٹا ناول کو ہاتھ میں آنے کے باوجود واپس رکھنے کی درخواست کی جا رہی تھی، لہٰذا چونکنا ایک فطری عمل تھا۔
میں نے تھوڑی سی ورق گردانی کے بعد ناول کا بیک ٹائٹل دیکھا تو اس پر مصنف کی پاسپورٹ سائز تصویر موجود تھی جسے دیکھ کر یہ بالکل معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ یہ کوئی مذہبی شخصیت ہے جس کے دل میں نماز کی اتنی فضیلت، والدین کی اس قدر اہمیت اور تعلیم کی اتنی قدر و قیمت ہے۔

تصویر کے ذکر سے کچھ قارئین کو عجیب محسوس ہوگا لیکن مجھے اس وقت عجیب محسوس نہیں ہوا کیونکہ یہ اُس دورکے ناول تھے جب اشتیاق صاحب کی طرح مجھے بھی تصویر کی حرمت سے آگاہی نہیں تھی۔ جونہی مرحوم کا علماء کرام سے رابطہ ہوا اور انھیں یہ بات معلوم ہوئی، انھوں نے تصویر شائع کرنا بند کردی۔ یہی وہ دور تھا جب میری طرح ان کی پنج وقتہ نماز بھی بے قاعدگی سے باقاعدگی میں داخل ہو رہی تھی۔ (میری کہانی صفحہ ۴۷۲)
بعد میں، ۳۱۰۲ء میں (یعنی تقریباً تیس سال بعد) جب مرحوم سے میری دوستی پروان چڑھ رہی تھی اور اُن کی آپ بیتی ’میری کہانی‘ کے نام سے شائع ہوئی تو انھوں نے یہ کتاب:

”برادرِ محترم پروفیسر محمد اسلم بیگ صاحب کے لیے میری کہانی“
کے الفاظ اور دستخط کے ذریعے مجھے ارسال فرمائی۔

کتاب کے مطالعے اور ان سے زبانی گفتگو کے ذریعے معلوم ہوا کہ ان کے کسی ناول کی پہلی بار زیارت اور ان کی شخصیت کی پہلی جھلک دیکھنے والا دور وہ دور تھا جب مرحوم کے جاسوسی ناول قارئین میں مقبولیت حاصل کر رہے تھے اور وہ لاہور میں مشترکہ کاروبار کے ذریعے اپنے ناول اور کتابیں شائع کروا رہے تھے۔
یکے بعد دیگرے دو تین پارٹنرز کی بد عہدی کی وجہ سے انھوں نے اپنا ذاتی ادارہ بنانے کے بارے میں سوچنا شروع کردیا تھا۔

اُن دنوں اشتیاق صاحب علیہ الرحمہ کاروبار کے سلسلے میں پانچ دن لاہور میں اور دو دن جھنگ میں اپنے بیوی بچوں کے پاس جاکر رہا کرتے تھے۔ میں نے جب اُن سے ذکر کیا کہ میں ۷۶۹۱ء تا ۰۷۹۱ء طالب علم کی حیثیت سے اور ۵۷۹۱ء سے ۷۷۹۱ء تک ملازمت کے سلسلے میں لاہور رہتا رہا ہوں تو انھوں نے فرمایا کہ اس عرصے میں، مَیں بھی جھنگ کے علاوہ زیادہ تر لاہور میں ہی رہا ہوں۔ وہ اس پر افسوس کا اظہار کرتے کہ ہم کیوں اتنے قریب ہوکر بھی ایک دوسرے سے اتنے دور رہے۔
اُس پہلی جھلک کے بعد پورے تیس سال ہم ایک دوسرے سے اوجھل ہی نہیں بلکہ بے خبر بھی رہے، اور پھر وہ مبارک دن آیا جب ۰۲ جون ۲۱۰۲ء کو پہلی بار ایک من موہنی آواز اور دل میں اتر جانے والے لہجے نے میری سماعت میں گویا شیریں رس گھول دیا۔

یہ جناب اشتیاق احمد علیہ الرحمہ کی فون کال تھی۔ وہ خوشی اور جوش و خروش سے بطور مدیر بچوں کا اسلام مجھے سالنامے (۲۱۰۲ء) پر میرے تبصرے پر، شائع ہونے سے پہلے ہی، اوّل انعام کی خوش خبری سنا رہے تھے۔
اتنے عرصے کی دوری کے بعد جب ہمارا قربتوں کا سفر شروع ہوا تو یہ سفر نہایت مختصر (محض ساڑھے تین سال) ہونے کے باوجود بہت خوش گوار، بہت یاد گار اور پائدار تھا۔ ایسا کہ اتنے ماہ و سال گزرنے کے باوجود ابھی تک اس کی یادیں تازہ ہیں۔ یہ سطور میں اپنے اسی کمرے میں بیٹھ کر لکھنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں جہاں میں نے حضرت اشتیاق علیہ الرحمہ سے پہلی فون کال پر خوش خبری سننے کا اعزاز حاصل کیا تھا اور پھر بار بار اُن کے لہجے کی شیرینی کا لطف اٹھایا تھا اور پھر جہاں اپنے آخری ایام میں سے انھوں نے دو قیمتی دن مجھے شرفِ میزبانی بخشا تھا۔ اُس بابرکت کمرے کے در و دیوار میں ابھی تک ان کی یادوں کی خوشبو رچی بسی ہے۔

ان کے تعارف کی پہلی جھلک چونکا دینے والی، حیران کردینے والی تھی اور ان کی یادوں کی مہک فرحت بخش اور خوش گوار ہے، لیکن…… لیکن اُن کی دل نواز اور من موہنی آواز سے مسلسل محرومی مجھے سوگوار اور اشک بار بھی کردیتی ہے۔
٭٭٭

مناسب الفاظ کا انتخاب کیجیے

٭……’کھاؤ‘ کی جگہ ’کھالیجیے‘
٭……’کیوں آئے ہو؟‘ کی جگہ ’کیسے تشریف لائے؟‘
٭……’اندھے‘ کی جگہ ’نابینا‘
٭……’بوڑھے‘ کی جگہ ’بزرگ‘
٭……’فلاں مر گیا‘ کی جگہ ’فلاں کا انتقال ہوگیا‘
٭……’مصیبت میں پڑگیا‘ کی جگہ ’آزمائش آگئی‘
٭……’میرا فیصلہ یہ ہے‘ کی جگہ میری رائے یہ ہے‘
٭……’میں یہ کہہ رہا تھا‘ کی جگہ ’میں یہ عرض کر رہا تھا‘
٭……’مجھے تم سے کام ہے‘ کی جگہ ’مجھے آپ سے کام ہے‘
٭……’آپ میری بات نہیں سمجھے‘ کی جگہ ’شاید میں اپنی بات سمجھا نہیں پایا‘
٭……’آپ غلط کہہ رہے ہیں‘ کی جگہ ’مجھ ناچیز کی رائے میں تو یہ بات ایسی ہے!‘
(مولانا محمد اشرف۔ حاصل پور)
٭٭٭