AirCraft Graphic

اونٹ رے اونٹ!(۱)

فوٹو: بشکریہ FreePik

اونٹ رے اونٹ!(۱)

اشتیاق احمد

”آخر ہم انشارجہ کس لیے جا رہے ہیں؟“ محمود نے الجھن کے عالم میں کہا۔

”بس…… سیر کا موڈ ہے۔“
”ابھی ابھی تو ہم جوہی بن کی سیر سے لوٹے ہیں …… ارے ہاں!…… آپ کو رات صدر صاحب نے بلایا تھا…… آپ بہت دیر سے آئے تھے…… ہم سو چکے تھے…… وہاں کیا معاملہ تھا؟…… کیا یہ سفر اسی ملاقات کے نتیجے میں تو نہیں ہو رہا؟“

فرزانہ نے جلدی جلدی کہا۔
”تم نتیجہ بہت جلد نکال لیتی ہو…… اتنی جلدی نہ کیا کرو…… ورنہ غلط نتیجے نکال لیا کرو گی۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔

”جی بہت بہتر! اب ہم بہت دیر لگایا کریں گے، لیکن اس سفر کے بارے میں تو بتا دیں۔“
”یار خان رحمان! تم انھیں بتا دو۔“

”مم…… مگر…… میں کیا بتا دوں؟“
”یہ کہ اِس بار ہم سفر پر ظہور کو کیوں ساتھ لے جا رہے ہیں۔“

”اوہ ہاں! تم نے کہا تھا…… انشارجہ میں کچھ دن گزاریں گے تو وہاں کھانوں کا مزا نہیں آئے گا…… لہٰذا ظہور کو ساتھ لے لو…… چنانچہ میں نے ظہور کو ساتھ لے لیا۔“
”سنا تم نے۔“ انسپکٹر جمشید نے انھیں گھورا۔

”جی ہاں! لیکن اس سے یہ بات ہرگز ثابت نہیں ہوتی کہ ہم سیر کرنے جا رہے ہیں۔“ فاروق نے منہ بنایا۔
”حد ہو گئی…… تم تینوں کو ہو کیا گیا ہے؟…… میری بات پر اعتبار نہیں کر رہے۔“

”آپ کم از کم انشارجہ کی سیر کا پروگرام نہیں بنا سکتے…… اس لیے کہہ رہے ہیں۔“
”ابھی دیکھ ہی لو گے…… اب ظہور سے بات کرو…… بے چارہ بیٹھا بور ہو رہا ہے۔“

”لیکن ابا جان! آپ پروفیسر انکل کو کیوں نہیں لائے۔“
”وہ ہم سے بھی پہلے انشارجہ گئے ہوئے ہیں۔“

”ارے! وہ کب گئے…… پتا ہی نہیں چلا۔“ محمود نے حیران ہو کر کہا۔
”جب ہم جوہی بَن گئے تھے…… وہ انشارجہ چلے گئے تھے۔“

”اور وہ انشارجہ کس سلسلہ میں گئے ہیں؟“
”کوئی بین الاقوامی سائنس کانفرنس ہو رہی ہے۔“

”ہمیں تو سر سے لے کر پیر تک کوئی چکر محسوس ہو رہا ہے۔“ فرزانہ نے کہا۔
”تو کیے جاؤ محسوس…… روکا کس نے ہے؟…… اب تم ظہور سے بات کرو۔“

وہ اس وقت جہاز میں تھے…… اور ایک ہی قطار میں بیٹھے ہوئے تھے،اس لیے بات چیت کرنے کے قابل تھے۔
”ظنکل اہور…… آپ ہی کچھ بتائیں۔“ فاروق اس کی طرف مڑا۔

”مم…… میں جہاز میں بیٹھا ہوں۔“ اس نے گڑبڑا کر کہا۔
”تو پھر…… اس سے کیا ہوتا ہے؟“

”جہاز میں تو میرا درست نام لیں۔“
”اوہ اچھا…… ظہور انکل…… آپ کو ساتھ کس لیے لایا گیا ہے؟“

”کھانا پکانے کے لیے…… اور کیا مجھے سیر کرانے کے لیے لایا گیاہے، اپنے ایسے نصیب کہاں؟۔“
”سن رہا ہوں ظہور کے بچے۔“ خان رحمان کی آواز سنائی دی۔

”ارے باپ رے مروا دیا، اب اگر انھوں نے جہاز پر ہی کان پکڑنے کا حکم دے دیا تو؟“
اس نے کانپ کر کہا۔
”فکر نہ کریں، کم از کم جہاز پر تو ایسا حکم نہیں دیں گے۔“
”اور اگر جہاز سے اتر کر ائیرپورٹ پر دے دیا۔“

”وہاں بھی ہم منا لیں گے۔“
”چلیے پھر تو ٹھیک ہے، ویسے میں کچھ نہیں جانتا، مجھے تو سیر سپاٹے کے لیے ہی لایا گیا ہے، آپ لوگ سیر کے لیے نکل جایا کریں گے اور میں کھانے پکایا کروں گا۔“

”بہت افسوس ہوا…… لیکن ہم کیا کر سکتے ہیں؟“
”آپ…… بہت کچھ کر سکتے ہیں۔“ اس نے سرگوشی کی۔

”بتائیے…… ہم آپ کے لیے ضرور کچھ کریں گے۔“
”جہاں جائیں …… مجھے ساتھ لے کر جائیں۔“

”اور کھانا؟“ وہ ایک ساتھ بولے۔
”ہوٹلوں سے کھائیں …… ارے باپ رے…… وہ…… و ہ آدمی مجھے گھور رہا ہے…… جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں کھا جائے گا۔“

”کک…… کون؟…… جہاز میں کس کی مجال ہے…… آپ کو گھورنے کی اور اسے کیا ضرورت پڑ گئی، ایسا کرنے کی۔“ فاروق نے جلدی جلدی کہا۔
”وہ سامنے دائیں طرف…… کالے سوٹ والا آدمی۔“

”کالے سوٹ والا؟“
انھوں نے دبی دبی آواز میں کہا اور پھر اس طرف دیکھا۔
واقعی وہ شخص ظہور کو گھور رہا تھا۔

”کیا آپ اسے پہچانتے ہیں انکل؟“
”نن…… نہیں …… زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔“
”خیر…… آپ اس کی طرف نہ دیکھیں …… ہم اندازہ لگانے کی کوشش کریں گے کہ یہ کیا چکر ہے؟“

”لیجیے! اب آپ جہاز میں بھی چکر شروع کر رہے ہیں۔“
ظہور نے حیران ہو کر کہا۔
”چکر ہم نہیں …… یہ شخص چلا رہا ہے۔“ فاروق نے منہ بنایا۔

”لیکن مجھے گھورنے سے کوئی چکر کس طرح شروع ہو سکتا ہے بھلا……؟“
ظہور کے لہجے میں حیرت تھی۔
”ایک منٹ! پوچھ کر بتاتا ہوں۔“ فاروق مسکرایا۔

”پوچھ کر بتاتے ہیں، لیکن کس سے پوچھ کر…… کیا ان صاحب سے؟“
ظہور نے گھبرا کر کہا۔
”نہیں …… اپنے بڑوں سے۔“

”ارے ارے…… ایسی بات بھی کوئی پوچھنے کی ہوتی ہے۔“
ظہور نے گھبرا کر کہا۔
”ہاں! کیوں نہیں …… پوچھنے کا کیا ہے…… کوئی بات بھی پوچھنے کی ہو سکتی ہے۔“

یہ کہہ کر فاروق بڑوں کی طرف مڑا۔
”کیوں ابا جان! کیا کوئی چکر انکل ظہور کو گھورنے سے شروع ہو سکتا ہے؟“
”بھئی شروع ہونے کو کیا شروع نہیں ہو سکتا۔“ وہ مسکرائے۔

”کیا مطلب ابا جان؟“
”پہلے یہ بتاؤ…… یہ بات تمھارے ذہن میں کس طرح آئی؟“
”آپ اس سیاہ سوٹ والے کو دیکھ رہے ہیں۔“ محمود نے دبی آواز میں کہا۔

”تم کہتے ہو تو دیکھ لیتا ہوں۔“ یہ کہہ کر انھوں نے اس طرف دیکھا، پھر بولے۔
”ہاں! دیکھ رہا ہوں …… کیا بات ہے؟“
”یہ حضرت مسلسل ہمارے انکل کو گھور رہے ہیں۔“

”اوہ اچھا…… کمال ہے…… خیر…… اب میں دیکھتا ہوں …… تم اس طرف سے نظریں ہٹا لو…… اور اپنی باتوں میں مشغول رہو۔“
”جی بہتر!“ اس نے کہا۔
ایک منٹ بعد ہی انسپکٹر جمشید نے دبی آواز میں کہا۔

”تمھارا اندازہ بالکل درست ہے…… یہ شخص مسلسل ظہور کو گھور رہا ہے، ضرور کوئی بات ہے اور ہم اس بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں گے، بس تم باتوں میں لگے رہو۔“
”جی بہت بہتر۔“ وہ ایک ساتھ بولے۔
ایسے میں سیاہ سوٹ والا انھیں اپنی سیٹ سے اٹھتا نظر آیا اور پھر وہ یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کہ وہ ظہور کی طرف بڑھ رہا تھا۔

اُدھر ظہور نے اسے اپنی طرف بڑھتے دیکھا تو وہ گھبرا گیا۔
”ارے باپ رے…… یہ…… یہ تو میری طرف آ رہا ہے۔“
”آپ پریشان نہ ہوں، ہم بھی تو آپ کے ساتھ جہاز میں ہیں، معاملے کو خود دیکھ لیں گے۔“ محمود نے کہا۔
”اچھی بات ہے…… آپ کہتے ہیں تو نہیں گھبراتا۔ ورنہ اس وقت میرا بہت زیادہ گھبرانے کو جی چاہ رہا ہے۔“ اس نے جلدی جلدی کہا۔

”اوہو…… آپ بعد میں جس قدر جی چاہے، گھبرا لیجیے گا…… ہم کوئی اعتراض نہیں کریں گے۔“ فاروق نے برا سا منہ بنایا۔
اور پھر سیاہ لباس والا ظہور کے بالکل نزدیک پہنچ کر رک گیا۔

پھر وہ باادب انداز میں جھکا اور بولا:
”شہزادہ صاحب! آپ کو جہاز میں دیکھ کر بہت حیرت ہو رہی ہے۔ ریاست میں تو آپ کی گمشدگی نے کھلبلی مچا رکھی ہے…… اور آپ ریاست سے نکل کر نجانے کہاں کہاں گھوم پھر رہے ہیں …… لیکن شاید اب آپ کی سیر کا پروگرام ختم ہے کہ واپس جا رہے ہیں۔“
”آپ مجھ سے کچھ کہہ رہے ہیں؟“ ظہور مارے حیرت کے بولا۔

”لیجیے! آپ نے اپنے اِس خادم کو نہیں پہچانا، میں ہوں آپ کا پرانا خادم سرجان! اب پہچانا یا نہیں۔“
”نہیں تو……!“ ظہور بوکھلا اٹھا۔
”خیر خیر…… نہ پہچانیے…… میں ابھی اور اسی وقت ریاست میں آپ کے بابا جان کو پیغام دیتا ہوں …… وہ ائیرپورٹ پر آپ کے استقبال کا انتظام تو کر دیں گے۔“

”بب…… بب…… بابا جان!…… مم…… میرے بابا جان تو کب کے فوت ہو چکے ہیں۔“
ظہور گڑبڑا گیا۔
”مذاق نہ کریں …… بابا جان ایسی بات سنیں گے تو کس قدر ناراض ہوں گے۔“

”بے چارے قبر میں کیسے ناراض ہوں گے؟“
”اوہ آپ پر مذاق کا بھوت سوار ہے…… خیر…… میں دیکھتا ہوں۔“
سیاہ لباس والے نے مایوسانہ انداز میں کہا اور اپنی سیٹ کی طرف مڑ گیا۔

”یہ…… یہ مذاق کا بھوت کیسا بھوت ہوتا ہے محمود صاحب؟“
”آپ تو بڑے چھپے رستم نکلے…… ہیں آپ شہزادے، اور کر رہے ہیں انکل خان رحمان کی نوکری۔“ فاروق نے مسکرا کر کہا۔
”کک…… کیا کہہ رہے ہیں؟“ اس نے بوکھلا کر کہا۔

”آپ نے سنا ابا جان! یہ شخص کیسی پراسرار باتیں کر گیا ہے۔“
”ایسا لگتا ہے جیسے اس کی ریاست کا شہزادہ گم ہو گیا ہے، اس کی شکل و صورت ضرور ظہور جیسی ہو گی۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”ارے باپ رے…… اب ائیرپورٹ پر کیا ہو گا؟ وہ تو موبائل فون پر رابطہ کر رہا ہے۔“ (اسے کوئی سیٹلائٹ ٹرانسمیٹر فرض کرلیجیے، کیونکہ ہزاروں فٹ بلندی پر موبائل فون سے آج بھی رابطہ نہیں ہوسکتا)ظہور نے بوکھلا کر کہا۔

”چلیے اچھا ہے، آپ مفت میں شہزادے بن رہے ہیں، ہمیں کوئی بنائے تو فوراً بن جائیں۔“
”لل…… لیکن…… وہ…… بب…… بابا جان۔“ ظہور نے گڑبڑا کر کہا۔
اور ان کی ہنسی نکل گئی۔

”حیرت ہے، یہ تو انشارجہ کی کسی ریاست کا شہزادہ نکلا…… اور میں اسے کان پکڑواتا رہا ہوں۔“ خان رحمان بولے۔
”اب تو نہیں پکڑوائیں گے نا۔“
”نہیں …… مم…… میری توبہ۔“ وہ گھبرا گئے۔

”ارے! ہم تو بھول ہی گئے…… ہم ابا جان سے یہ پوچھ رہے تھے کہ آخر اس اچانک سفر کا مقصد کیا ہے کہ انکل کا چکر شروع ہو گیا۔“
”اِس چکر پر حیرت مجھے بھی ہے، خیر دیکھا جائے گا، ہم اپنے سفر کا مزا کیوں خراب کریں۔“
”لیکن دھیان تو بار بار اُس سیاہ لباس والے کی طرف جا رہا ہے…… وہ دیکھیے…… وہ حضرت پھر اٹھ رہے ہیں …… غالباً ادھر ہی آئیں گے۔“ فاروق گھبرا گیا۔

”کوئی بات نہیں …… وہ کوئی ظہور کو کاٹ نہیں کھائے گا۔“
”یا اللہ رحم۔“ ظہور کانپ کر بولا۔
”اوہو! کیا مصیبت ہے بھئی…… تمھارے چہرے پر زلزلے کے آثار ہیں …… اور یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے…… خبردار…… ان آثار کو غائب کر دو…… ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔“
”جی بہتر…… ویسے بھی آپ سے۔“ ظہور کہتے کہتے رک گیا۔
”ہاں ہاں کہہ دو…… مجھ سے برا تو ویسے بھی کوئی نہیں ہے۔“

خان رحمان نے زہریلے انداز میں کہا۔
”نن…… نہیں …… میں یہ نہیں کہنے جا رہا تھا۔“
اتنے میں سیاہ لباس والا قریب آ گیا۔ پہلے کی طرح جھکا اور ادب سے بولا۔

”آپ کے بابا جان سے رابطہ ہو گیا ہے، وہ آپ کے بارے میں سن کر حد درجے خوش ہوئے ہیں اور انھوں نے کہا ہے کہ وہ پورے لاؤ لشکر کے ساتھ شہزادے کے استقبال کے لیے ائیرپورٹ پر پہنچ رہے ہیں۔“

”نن…… نہیں۔“ ظہور کانپ گیا۔ اُس نے گھبرا کر خان رحمان کی طرف دیکھا۔
”عین اس وقت جہاز پر اعلان ہونے لگا۔

”ہم انشارجہ پہنچنے والے ہیں اور ائیرپورٹ پر اتر رہے ہیں،اپنی پٹیاں باندھ لیں۔“
(جاری ہے)