Darul Uloom Deoband

*تحریک حریت کا جانباز سپاہی*

تحریر:بنت اخلاق کشمیری(ایم فل سکالر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد)

دنیا بھری پڑی ہے ایسی گمنام،عبقری اور نابغہ روزگار شخصیات سے جن کا عظیم کردار،بے مثال قربانیاں بلکہ زندگی کا لمحہ لمحہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک روشن راہ متعین کرتا ہے۔جن کے کارنامے باطل کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ پیدا کرتے ہیں۔یزیدی سوچ اور ابلیسی غرور کو پاش پاش کرنے کی ہمت دیتے ہیں۔

خطہ کشمیر کا شمار ان خطوں میں ہوتا ہے جہاں پر راہ حق و صداقت کے عظیم راہی اور عظمت و رفعت کے بے شمار روشن مینار نصب ہوٸے۔ایسے بلند کرادر کے حاملین نفوس کی صف اول میں ایک بہت بڑا نام مہاراجہ ہری سنگھ کے دور حکومت میں ریاست جموں کشمیر کے مسلمانوں کی سپریم کونسل کے مفتی اعلی کے منصب پر فائز حضرت مولانا مفتی عبد الکریم صاحبؒ کابھی یے۔آپ 1883ء میں تحصیل میرپور کے ایک قصبہ ”کوٹ قندوخان“ میں خانوادہ شہاب الدین غوری رح کے چشم و چراغ مولانا نظام الدین کے گھر پیدا ہوئے۔ ”کوٹ“ کا لفظ بلند جگہ کے لیے استعمال ہوتا ہے،اور ”قندوخان“ راجپوت خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک بابا ”قندوخان“ کے نام سے منسوب ہونے کی وجہ سے مشہور ہے جو کہ اس بستی میں آباد تھے۔”کوٹ قندوخان“ یعنی وہ اونچی جگہ جہاں بابا قندوخان رہتے تھے۔

آپؒ کے والد مولانا نظام الدینؒ ضلع میرپور کے نامور علماء میں سے ایک قابل ذکر شخصیت تھی اور اس وقت آپ نے ریاست کشمیر اور ایرانی حکومت کے درمیان سفارتی خط و کتابت کی ذمہ داری سرانجام دی۔مزید مولانا نظام الدین میرپور کے وزیر وزارت (ڈی سی) بھی رہے۔ مفتی عبدالکریم رح نے ابتداٸی تعلیم اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی۔مزید تعلیم کے لئیے مولانا ابراہیم سیاکھوی رح اور پنجاب کی مختلف درسگاہوں کا رخ کیا۔آپؒ کسب علم کی غرض سے کچھ عرصہ چکوال کی دھرتی میں بھی رہے۔آخر کار علمی تشنگی کی تڑپ آپ کو آفتاب فضل و کمال،چشمہ علوم و معرفت دارالعلوم دیوبند تک لے گی۔1918ء میں دارالعلوم سے سند فراغت حاصل کر کے واپس ”کوٹ قندوخان“ تشریف لے آٸے جہاں اپنے والد کے قاٸم کردہ مدرسے میں مختلف علوم کے چشمے جاری کرنے کے ساتھ ساتھ سماجی اور سیاسی میدان میں بھی نمایاں خدمات سر انجام دیں۔بعد ازاں آپ وادی بناہ کھوئی رٹہ تشریف لے آئے جہاں زندگی کا بیشتر حصہ گزارا۔

آپؒ ڈوگرہ حکومت کے ظلم و ستم کی چکی میں پس عوام کا درد لیے میدان عمل میں اترے۔آپؒ نے اپنے لفظوں کی فسوں کاری سے لوگوں کے حوصلے بلند کیے۔آزادی کی ایک ایسی تحریک چلاٸی کہ ڈوگرہ جبر و استبداد کے خلاف حریت پسندوں نے بغاوت کا پرچم بلند کر دیا۔ہزاروں کارکنوں کی یلغار نے اس تحریک میں اک نئی روح پھونک دی،اور پھر چشم فلک نے وہ وقت بھی دیکھا جب اس تحریک نے ڈوگرہ حکومت کی جڑیں کھوکھلی کر کے رکھ دیں۔

باطل کی آنکھوں میں آنکھ ڈالنے والے اس مرد مجاہد نے وقت کے فرعون سے ٹکر لینے میں کبھی دریغ نہ کیا۔جب ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے گٸے،ملک میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ مسلمانوں کو غلاموں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیا تو اس وقت صلاح الدین ایوبی رح اور محمد بن قاسم رح کا یہ روحانی فرزند ظلم کی آندھیوں کا رخ موڑنے جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں اتر آیا۔قندوخان سے جب آپ نے گوڑہ بلیال نقل مکانی کی تو اس وقت وہاں کا حال یہ تھا کہ مہاراجہ کے گھوڑے مسلمانوں کی فصلیں تباہ کرنے کے لیے چھوڑے جاتے تھے۔خوف و ہراس کی وجہ سے کوٸی آدمی حرف شکایت منہ پر نہیں لا سکتا تھا۔مفتی صاحبؒ کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے مہاراجہ کے تمام گھوڑوں کو کھیتوں سے نکلوایا اور مہاراجہ کے غلاموں کو سزا دی۔لوگ مہاراجہ کے خوف سے چھپ گے مگر مفتی صاحبؒ کھلم کھلا لوگوں کو مہاراجہ کے خلاف ابھارتے رہے۔مہاراجہ کو جب اس بات کا علم ہوا کہ یہ تمام کارواٸی مفتی صاحبؒ کی وجہ سے ہوٸی ہے تو اس نے مفتی صاحبؒ کی شخصیت اور مفتی صاحبؒ کے کہنے پر عوام کےغیض و غضب کو دیکھ کر کوٸی کارواٸی نہ کی۔آپ رح نے لوگوں کے دلوں میں باطل کے سامنے ڈٹ جانے کا جوش و جذبہ پیدا کر دیا تھا۔میرپور اور کوٹلی میں مولانا عبداللہ سیاکھوی مرحوم،مولانا ابراہیم سیاکھوی مرحوم اور مولانا مفتی عبد الکریم مرحوم نے مسلمانوں کو ڈوگروں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے،ان کا مقابلہ کرنے اور ان کے ساتھ مقاتلہ و محاربہ کے لیے تیار کیا۔

ڈوگرہ کے خلاف آزادی کی تحریک کے سلسلے میں آپؒ نے”مسلم کانفرنس“ کی تشکیل میں بھی بنیادی کردار ادا کر کے اس کے بانیوں میں نام لکھوایا۔ 1931ء میں تحریک عدم اداٸیگی مالیہ کا آغاز ہوا جس میں مولانا عبد اللہ سیاکھوی اور مفتی عبد الکریم کا رول قاٸدانہ ہے۔ان حضرات نے عوام کے دلوں میں جوش و جذبہ پیدا کر کے تحریک کو کامیاب کیا۔پروفیسر عبد الواحد قریشی رح(سابق پرنسپل پوسٹ گریجویٹ کالج میرپور) لکھتے ہیں”راجہ محمد اکبر خان، مولوی عبد اللہ سیاکھوی،مولوی عبدالکریم،راجہ لعل خان عرف پیر لعل بادشاہ اور مولوی عبد المجید وہ قابل ذکر کردار ہیں جنہوں نےتحریک عدم ادائیگی مالیہ میں روح پھونکی اور اپنے جوش و جذبے سے وہ مقام دلایا جو تاریخ میرپور میں صدیوں تک زندہ و جاوید رہے گا۔(تاریخ میرپور کا ایک اہم دور صحفہ 158)

جب قادیانیوں نے اپنے گھناٶنے اور شرمناک کردار کے ذریعے مسلمانوں میں زہر قاتل پھیلا کر ملت اسلامیہ کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی ناپاک چالیں چلیں تو اس وقت بہت سارے سادہ طبیعت مسلمان قادیانی بھیڑیوں کے نوکیلے دانتوں اور خونی پنجوں کا شکار ہو گے، اس وقت اس عظیم لیڈر نے قادیانیوں کو آڑے ہاتھوں لیا اور تحفظ ختم نبوت کو زندگی کا مقصد بنا لیا۔مرزاٸیوں کی خطرناک سازشوں اور پوشیدہ اغراض و مقاصد کا پردہ چاک کر کے مکروہ چہروں کو بے نقاب کیا۔آپؒ نے سید عطاء اللہ شاہ بخاری رح اور ان کی جماعت ”مجلس احرار اسلام“ کے ساتھ مل کر دشمن کی ریشہ دوانیوں اور مکاریوں کے سامنے سینہ سپر ہو کر تاریخ میں اپنے کارہائے نمایاں سے ایک درخشاں باب تحریر فرمایا۔آپؒ نے بےشمار تقریروں اور مناظروں کے ذریعے ختم نبوت کی جنگ لڑی۔ ہندوستان کے چپے چپے پر پروگرامات کیے اور مسلسل چھ ماہ تک عوام کو مسئلہ ختم نبوت سمجھایا۔اس عقیدے کی خاطر بےچین اس مرد قلندر نے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کے نام پر مرزاٸیوں کے دجل و فریب کو واضح کرنے میں ایک لیڈر کا کردار ادا کیا۔انہی کاوشوں کا ثمرہ تھا کہ بالآخر 07 ستمبر 1974ء کو مرزائی غیر مسلم اقلیت قرار دئیے گئے۔

مفتی عبدالکریم رح کی مذہبی، سیاسی،سماجی اور تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر خدمات کی ایک طویل داستان ہے جس کا احاطہ ایک مضمون میں ناممکن ہے۔

تحریک حریت کے اس جانباز سپاہی نے بالآخر 13 دسمبر 1963ء گوڑہ بلیال کھوئی رٹہ کے مقام پر داعی اجل کو لبیک کہا۔

آج کروڑوں دلوں کی دھڑکنیں آپؒ کو خراج عقیدت پیش کرتی ہیں۔کروٹ کروٹ پر خدا باران رحمت نازل فرماٸے۔آمین

آپؒ کے کارناموں کو تفصیل سے جاننے کے لیے کتاب ”تذکرہ مفتی عبد الکریم“ از محمد علی کوٹلوی بےحدمفید ہے۔

مگرافسوس! صد ہزار افسوس کہ ہمارا قابل فخر اور شاندار ماضی ہماری بے حسی اور غفلت کی وجہ سے امتداد زمانہ کے بے رحم ہاتھوں مٹتا جا رہا ہے۔ میرے اسلاف کے درخشندہ اور تاب ناک کارنامے پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اٹھ نوجوان! اٹھ!نسلوں کی نظریاتی،علمی اور فکری پرورش کے لیے تاریخ کے سینے پر عروج و ارتقا ٕ پر محیط ماضی کو استوار کر تاکہ تیرا معاشرہ اپنے محدود داٸرے سے نکل کر دنیا افق پر اپنی پہچان بناٸے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ان عظیم لوگوں کی لازوال قربانیوں کو قلم کے زریعے ایسی زبان دی جاٸے جس سے ہماری نوجوان نسل آشنا ہو کر ماضی کی قندیلوں سے ایسی راہیں متعین کرے جن کی منزل آنے والی نسلوں کے لیے مستقبل کی روشن تاریخ ہو،کیونکہ جو لوگ ماضی کی حفاظت نہیں کرتے ان کا مستقبل خطرے میں ہوتا ہے۔مگر ہمیں تو غفلت کی دبیز چادر اوڑھ کر سونے کی عادت ہے۔

تم نے جو بزرگوں کی بھلا دیں شکلیں
تم کو بھی بھلا دیں گی نسلیں