آر-ایس-ڈبلیو-ایس کے ہمراہ ایک سال کی یاد

رائٹر : لائبہ تنویر

ایک اڑان اڑنی تھی مگر نہ سوچ کا پیمانہ لبریز تھا نہ ہی ارادے پختہ تھے ۔ حسین سفر کب اور کیسے شروع ہوا ۔ قدرت کا تحفہ جس کی خوشی ہر دن دوبالا ہو جاتی ہے۔ کا میابی کے پل پار کرتی ہوئی یہ دنیا اپنے عروج پر پہنچ رہی تھی اور میں اسی کشمکش میں تھی کہ کیا میں بھی زندگی میں وہ سب کر پاؤں گی جو میں نے کامیاب لوگوں کو کرتے دیکھا ، مگر زندگی کا رخ کچھ یوں پھرا کہ مجھے ایک ایسے عظیم فریضہ سونپا گیا، جس کا راستہ محض اللہ کی طرف جاتا ہے ۔

فروری ۲۰۲۳ دوپہر دو سے تین بجے کا وقت تھا سٹیٹس دیکھتے دیکھتے ایک پوسٹر یہ نظر ٹھہر گئی ۔ یہ پوسٹر رائل سٹوڈنٹس ویلفیئر سوسائٹی پاکستان کی جانب سے تھا ۔ جس کے مطابق رمضان المبارک کی فضیلت کے حوالے سے کونٹینٹ مقابلہ منعقد کیا جا رہا تھا۔ کبھی سوچوں کہ میں یہ نہیں کر سکتی اور کبھی خود کو ہمت دوں کہ ہاں میں کر سکتی ہوں۔ ایک دن سوچنے میں ہی لگا دیا ۔ آخر مس نشا شکیل کو واٹس ایپ مسج کیا اور مقابلے کی تفصیل پوچھی ۔ ایک چیز بہت مشکل لگ رہی تھی، وہ یہ کہ میں کیسے اپنا پرسنل نمبر کہیں بھی دے دوں مگر اس خوف کو اللہ کے حوالے کر کےقدم اٹھا لیا اور ریجسڑریشن کروائی۔

آر-ایس-ڈبلیو-ایس کی لیڈر لاریب لیاقت اور سر عدیل طوفیل نے اس مقابلے کی قیادت کی ۔ نتائج کا اعلان ہوا ، مگر میری پوزیشن نہ آسکی اور، دل بہت اداس ہوا مگر خود کو سمجھایا اور اپنی غلطیاں تلاش کی ۔ خیر چند لمحوں کے بعد موبائل کی سکرین پہ ایک مسج آیا جس میں مجھے آر-ایس- ڈبلیو-ایس
کے پلیٹ فارم پر آنے کی دعوت دی گئی ۔ میرا تعلق شہر ظفروال سے ہے مگر 2023 میں یہاں کوئی چیپٹر کام نہیں کر رہا تھا ۔ لہذا حالات کے پیش نظر مجھے رائل سیالکوٹ چیپٹر میں کونٹینٹ رائٹر کو ہیڈ کے طور پر شامل کیا گیا۔ چیپٹر سپروائزر مس ملیحہ شاہد اور چیپٹر پریزیڈنٹ مس نمرہ لیاقات کے ہمراہ پورے چیپٹر نے خوش آمدید کیا۔

ہر نئے لیڈر کی طرح مجھے بھی سوسائٹی کے کاموں کی سمجھ نہیں آتی تھی ۔ کبھی دل چاہتا تھا کہ میں یہ سوسائٹی چھوڑ دوں ۔ کام تو اچھا تھا اللہ کی رضا کی خاطر مستحقین کی مالی امداد کرنا اور دکھ درد کو بانٹنا ۔۔۔۔ مگر میرے لیے موبائل پہ اتنا کام کرنا بہت مشکل تھا ۔ پندرہ دن گزرے مگر میرا گروپ میں کوئی خاص کام نہ تھا کیونکہ میری دلچسپی ہی نہیں تھی ۔ اسی سوچ میں تھی کہ میں یہ سوسائٹی چھوڑ دوں گی اچانک مس نمرہ لیاقت کا مسج آیا اور اچھی خاصی ڈانٹ پڑی ۔ ڈانٹ بھی کچھ یوں کہ اس میں میرا ہی فائدہ تھا ۔ وقتی طور پہ تو ہم نہیں سمجھ پاتے مگر آہستہ آہستہ سمجھ آنے لگتی ہے ۔ مس نمرہ کی ڈانٹ سے دل بھر آیا اور رونے کو جی چاہا مگر میں کسی کو بتا بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ یہ میرا اپنا فیصلہ تھا ۔ خیر اس ڈانٹ کی وجہ سے چیپٹر چھوڑنے کا پختہ ارادہ کرلیا تھا مگر کچھ دیر بعد مس نمرہ کا مسج دوبارہ پڑھا ، ان کی بات کو سمجھا اور جیسا مس نمرہ نے کہا ویسا کیا ۔ ڈونیشن اکھٹی کرنا تو مشکل کام تھا اور ہر آنے والے لیڈر کے لیے یہ مشکل کام ہوتا ہے ۔ لوگ کہیں گے کہ یہ تو مانگنے آجاتے ہیں ۔۔۔۔ اس کے علاوہ طرح طرح کی ایسی باتیں ہوتی ہیں جس سے دل بھر آتا ہے ۔ مس نمرہ کہا کرتی تھیں کہ سٹیٹس لگاؤ اپنی ورکنگ پہ توجہ دیا کریں مگر مجھے سٹیٹس والا کام اچھا نہیں لگتا تھا ۔ مس نمرہ نے بہت اچھے سے ہر چیز کے بارے میں سمجھایا ، موٹیویٹ کیا ۔جس کے بعد میں نے سب سے پرسنل بات کرنا شروع کی اور کیس کے لیے ڈونیشن اکٹھی کی ۔ ہاں ! یہ بھی کہہ سکتے کہ اس طرح لوگوں کا مجھ پہ اعتماد بڑھتا جا رہا تھا ۔ اب سٹیٹس لگانے میں بھی کوئی مسئلہ درپیش نہ تھا ۔ اچھی ڈونیشن اکھٹی کرنا سیکھ گئی تھی ۔ سوسائٹی میں آنے کے بعد پہلا کونٹینٹ بھی مس نمرہ نے لکھوایا ، چیپٹر میں بھیجا اور حوصلہ افزائی کی ۔ آخر میں نام کے ساتھ رائٹر دیکھنے سے لکھنے کا شوق اور بڑھ گیا تھا ۔ اسی کوشش میں ہوتی تھی کہ اب مزید پوسٹرز ملیں اور میں لکھ سکوں ۔ رائل سیالکوٹ چیپٹر کے ساتھ ساتھ اکتوبر 2023 میں ایک نئے چیپٹر رائل سہاریئنز چیپٹر کی بنیاد رکھی گئی جس میں مجھے بطور سپروائزر عہدہ دیا گیا ۔ جنوری 2024 میں رائل سیالکوٹ اور سہاریئنز چیپٹر کی رائل مینجمنٹ لیڈر مقرر کیا گیا۔

شروع شروع میں مجھے سوسائٹی کے چیئرمین سر اسامہ چغتائی کا پتہ نہیں تھا بس چیپٹر میں ان کے بارے میں سنا تھا ۔

سر اسامہ چغتائی کے ساتھ رائل سیالکوٹ چیپٹر کی میٹینگ ہوئی، جس میں سر اسامہ چغتائی کے ساتھ میرا تعارف ہوا ۔ میٹنگ کا مقصد رمضان المبارک میں مدینہ شریف میں افطار کروانے کے حوالے سے بات چیت کرنا تھا ۔ خیر ہر ماہ کوئی نہ کوئی سرگرمی منعقد کی جاتی تھی ۔ اب چیپٹر میں کام کرنا اور سبھی ممبران کے ساتھ اچھی خاصی bonding بنانا مشکل نہ تھا ۔ چیپٹر لیڈر مس نمرہ لیاقت کی ایک خاصیت تھی کہ وہ اپنے لیڈرز سے پرسنل بات کرنے میں کبھی دو دن سے زائد کا وقفہ نہیں دیتی تھیں ۔۔۔۔۔ہاہاہاہا ( (ہر دو دن بعد مس نمرہ کا مسج آتا تھا کہ آپ کی طرف سے کام آہستہ کیوں ہوگیا ہے؟ کوئی مسئلہ ہے تو بتائیں , ہم حل کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ ) میرے خیال سے جس انسان کو ایک خاص منصب دیا جائے ، اس کو اپنی ذمہ داری کے لیے یوں ہی فکر مند ہونا چاہیے جیسے مس نمرہ کرتی ہیں ۔ ہر چیز کو اس کے ایک پرفیکٹ لیول تک لے کے جانا اور سب سے بڑھ کر ایک چیپٹر کی مین لیڈر اور پوری سوسائٹی کی ایکٹنگ سی-ای-او بن کر بھی کبھی غرور و تکبر نہیں کیا ۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے آس پاس بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جن سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے مگر وہ ہم ہی ہوتے ہیں جو اپنے سے بڑے رتبے کو یا تو انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور کچھ سیکھتے نہیں یا تو ان جیسا بننے کے لیے بہت کچھ سیکھ جاتے ہیں ۔

سوسائٹی کی معزز ، قابل تعریف ، قابل داد اور بہترین شخصیت، جن سے میں نے اپنے قلم کے حوالے سے بہت سیکھا ہے، جن کو میں اپنا استاد مانتی ہوں وہ سوسائٹی کے چیئرمین سر اسامہ چغتائی ہیں ۔ میں نے سر اسامہ چغتائی کے سوسائٹی کونٹینٹ ، کچھ مزید تحریریں لکھنا شروع کی اور یہ سفر ، ادبی لحاظ سے بہت اچھا سفر رہا ہے ۔ میں نے سر اسامہ کے کونٹینٹ لکھے یہ چیز میرے لیے باعث فخر ہے ۔ ایک لاتعداد طالب علموں کی صف میں سے مجھے چنا گیا اور مجھے سیکھایا گیا ۔ الحمد للہ !

سر اسامہ کی خاصیت یہ ہے کہ جب بھی کونٹینٹ لکھنا ہوتا ہے تو سب سے پہلے ایک مسج آتا ہے (?available ) ، پھر وائس مجس میں ہر چیز کو عمدہ انداز میں سمجھاتے ہیں ۔ بہت بار مجھ سے کچھ نہ کچھ چھوٹ جاتا تھا مگر کبھی سر اسامہ کی طرف سے غصہ یا ڈانٹ نہیں پڑی ۔ ضرورت پڑنے پہ ایک کونٹینٹ کے لیے سر کو دس بار بھی وائس مسج کرنا پڑے تو وہ کرتے ہیں مگر مجھے ہر بار میری غلطی بتائی جاتی ہے کہ مجھ سے اس تحریر میں کیا غلطی ہوئی اور وقت کی مناسبت سے کیسے الفاظوں کا چناؤ کرنا ہے ، وغیرہ ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میرے قلم میں جو نکھار آیا ہے وہ سر اسامہ کی وجہ سے ہے ۔

رائل سٹوڈینٹس ویلفیئر سوسائٹی کے سب سے معزز اور قابل احترام ڈاکٹر اسد چغتائی پیٹرن ان چیف ، ایک عظیم شخصیت جو پوری سوسائٹی کے ایک ایک لیڈر کو آپس میں جوڑے رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں ۔ہر لیڈر کی کامیابی کو ہر طرح سے سراہتے ہیں اور چند گنے چنے الفاظوں سے کمال حوصلہ افزائی کرگزرتے ہیں ۔

رائل میڈیا کیبنٹ کے ڈائریکٹر سر الیاس خان ، قابل عزت شخصیت جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا خاص کر یہ کہ ہمیشہ زندگی میں مثبت طریقہ اپنایا جائے اور کبھی کسی ڈر کی وجہ سے اپنے مقصد سے ہٹا نہ جائے ۔ بہت دفعہ میں نے کیبنٹ چھوڑنے پہ اصرار کیا مگر سر الیاس کے بھرپور تعاون کی وجہ سے میں نے میڈیا کیبنٹ میں بطور رائٹر اور یوٹیوب ہیڈ کی ذمہ داریاں پوری کی ہیں۔

مس عائشہ فاطمہ فوکل پرسن جو کہ سیالکوٹ چیپٹر میں ہمیشہ میرے ساتھ رہی ہیں اور میری ہر کامیابی پہ حوصلہ افزائی کی۔
سر سفدر عباس آر ایم ایل آف رائل بھکر چیپٹر ، جن سے میں نے چیپٹر لیڈر شپ کے حولے سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔

رائل سہاریئنز چیپٹر کے ہونہار لیڈرز مس سمیہ رشید (پریزیڈنٹ) ، سر ملک اکبر (حالیہ سپروائزر) اور مس اریبہ فاطمہ (جنرل سیکریڑی) سمیت پورے چیپٹر کا تہہ دل سے شکریہ جن کے بھرپور تعاون سے ہمارا چیپٹر کامیابی کے دہانے کو پہنچا ہے ۔

رائل سیالکوٹ چیپٹر میں ایک رائٹر کے طور پہ اپنی خدمات سر انجام دینے کے ساتھ ساتھ اسلامک کورسز (تجوید کورس اور ، سورت الملک حفظ کورس ) اور مقابلہ جات کروائے ۔ علاوہ ازیں چند مقابلہ جات میں خود بھی حصہ لیا ۔ رائل سیالکوٹ چیپٹر کے زیر اہتمام 14 اگست کے حوالے سے لکھاریوں کے لیے منعقد ہونے والے مقابلے میں دوسری پوزیشن جبکہ رائل گوجرانولہ چیپٹر کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے اردو ادب مقابلے میں تیسری پوزیشن لی ۔ مزید براں رائل گرینڈ کیلیگرافی کمپیٹیشن میں دوسری پوزیشن لی۔ الحمد للہ !

بطور سپیکر چند سیشن جن میں رائل سیالکوٹ کی جانب سے سیشن بعنوان ” الطوفان الاقصی” ، رائل سہاریئنز کی جانب سے سیشن بعنوان ” میری پہچان پردہ “اور بطور ہوسٹ ” سانحہ پشاور اور دو لخت پاکستان” میں حصہ لیا۔ رائل ویمن چیپٹر باغ کی جانب سے سیشن بعنوان “شب معراج” اور ماہ رمضان میں سیشن بعنوان ” اعتکاف کی اہمیت” میں بطور سپیکر حصہ لیا ۔ علاوہ ازیں بطور ٹرینر ‘ رائل سلطان چیپٹر ، رائل ملتان، رائل انوویٹو فارم، رائل بھوانااور رائل چناب چیپٹر میں ٹریننگ سیشن منعقد کیے ۔

رائل سٹوڈنٹس ویلفیئر سوسائٹی پاکستان کے میگزین 2023 کے شمارہ نمبر ایک میں نثری نظم بعنوان “مجھے پسند ہے” ، شمارہ نمبر دو میں نثری نظم بعنوان ” حوا کی شہزادی” اور شمارہ نمبر تین میں نظم بعنوان ” ملاقاتیں ” شائع ہو چکی ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ اخبار تک رسائی حاصل کی اور کئی کالم اور آزاد نظمیں لکھی ہیں ، جس میں ” رائل کے ہمراہ ایک دن تھیلیسیمیا سے لڑتے بچوں کے نام ” اور ” جہاد بالقلم” جیسے کئی کالم لکھے۔

ایک سال کا یہ سفر نہایت یاد گار اور خوبصورت رہا ہے ۔

یہ وہ سفر ہے جس کی راہ پہ چلتے چلتے انسان نرم دل ، انسانیت کا درد رکھنے والا ، انسانیت سے محبت کرنے والا اور مخلوق خدا پہ رحم کھانے والا بن جاتا ہے ۔ جہاں حقوق العباد کی ادائیگی ہو جانے لگے، انسان حقوق اللہ کی ادائیگی کی طرف خود چل پڑتا ہے ۔

الحمد للہ ! میں سب سے بڑھ کر اپنے اللہ تعالی کی نہایت شکرگزار ہوں ، جس نے مجھے اپنی مخلوق کی خدمت کے لیے چنا ۔ میں اپنے والدین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے میرے تعلیمی سفر میں میرا بھر پور ساتھ دیا اور اس سوسائٹی کا حصہ بننے پہ سراہا ۔ میرا سارا دن بھی سوسائٹی کے کاموں میں گزر جائے مگر مجھے میرے کام سے کبھی نہیں روکا گیا۔ ہر طرح سے میرے ساتھ تعاون کیا اور مجھے سراہا ۔ میری کامیابیوں پہ میرے والدین کی مسکراہٹ ، یقین اور آنکھوں کی چمک میرے لیے باعث سکون قلب ہے ۔ الحمد للہ !

شکریہ ! رائل سٹوڈنٹس ویلفیئر سوسائٹی پاکستان