بیٹی ہی تو ہے۔۔۔۔۔

تحریر: کنزہ رفیق ماہی راجپوت(فیصل آباد)

کیا ضرورت ہے اتنا پڑھانے کی؟ بیٹی ہی تو ہے کیا کرے گی اتنا پڑھ کر؟ آجا کر گھر ہی سنبھالنا ہے، چولہا ہی جلانا ہے، ہر خواہش پوری نہ کیا کرو، بیٹی ذات ہے سر پر چڑ جاٸے گی، اگلے گھر جانا ہے ضدی بن گٸی تو گھر کیسے بساٸے گی؟ ہر ضد پوری کرنے کی عادت اسے گھر بسانے کے قابل نہیں چھوڑے گی ہر بات کا جواب دینا بیٹیوں کو نہیں جچتا، بیٹی کو چاہیے چھپ رہے، جوب کرنے کی کیا ضروت ہے گھر والے کھانے کو نہیں دے سکتے؟ اب غیر مردوں میں بیٹھ کر کام کرے گی، بتاٶ بھلا یہ بیٹیوں کے لیے اچھا ہوتا ہے؟ جوب کیو کر رہی ہے بیٹی ہی ہے دو وقت کی روٹی نہیں دے سکتے باپ، بھاٸی؟

یہ وہ جملے ہیں جنہیں سنتے سہتے تقریباً ہر بیٹی جوان ہوتی ہے اور آدھی سے زائد تو انہی جملوں کا شکار ہوکر اپنے خوابوں کو ٹوٹتا دیکھتیں اندر ہی اندر مرنے لگتی ہیں اپنی خواہشات کا رد ہونا برداشت کرتی ہیں کیوں؟ کیوں کہ وہ بیٹیاں ہیں، حیرت ہے، میں یہ نہیں کہتی بیٹی، بیٹے کے مقابل کھڑی ہو، میں صرف اتنا کہوں گی بیٹی کو اس قابل بنائيں کہ اگر کل کو اس کا نصیب اسے بےسہارا چھوڑ دے تو وہ آپ کے در کی فقیر نہ بنے، اب یہاں بات سمجھنے کی ہے کیا آپ کو اپنی زندگی کا بھروسہ ہے نہیں ناں، تو اپنے بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کو بھی قابل بنائيں اتنا قابل کہ وہ دو وقت کی روٹی کا
انتظام کرسکیں اگر کل کو اللہ نہ کرے ان کی شادی شدہ زندگی میں کوٸی مشکل پیش آٸے تو وہ واپس آپ کے در پر نہ ہو باپ کے در پر جاٸیں تو روٹی باخوشی دیتا ہے باپ، لیکن بھاٸی، بھاٸی چاہے جان ہی کیو نہ وارتا ہو دو چا دن ہی ہنس کر روٹی دے گا پھر اسے اپنے بچوں اور بیوی کی فکر ستانے لگی تھی اور پھر وہاں بیٹی/بہن در کی فقیر بن جاتی ہیں.

یاد رکھیے بلکہ سمجھیے بیٹیاں جب رخصت ہو جاتی ہیں ناں تو ان کی زندگی بدل جاتی ہے وہ بیٹی جو ماں باپ کے گھر دوپہر تک بستر توڑتی ہے وہ سسرال جاکر پہلی ہی صبح صادق فجر ادا کرکے کچن میں کھڑی ہو جاتی ہے وہ بہن، بیٹی جو باپ، بھاٸی کے دیے مان پر ہر خواہش کی تکميل ، خواب کی تعبير ضد پر کرواتی ہے وہ شوہر کے سامنے اپنی ضرورت کہنے سے پہلے بھی سو بار سوچتی ہے کہ اس چیز کے بغیر گزارہ ہو سکتا ہے اور اگر ہوسکتا ہے تو رہنے دے وہ بیٹی جو ماں کی زرا سی ڈانٹ اور غصے پر ناراضگی سے کھانا چھوڑ دیتی ہے وہ ساس کے لاکھ زلیل کرنے پر بھی مسکرا رہی ہوتی ہے اپنے آنسو پی جاتی ہے ماں کو ہر چھوٹی سی چھوٹی بات بتانے والی بڑی سے بڑی بات چھپا لیتی ہے وہ جو زرا سے سردرد پر گھر سر پر اٹھاتی ہے وہ سسرال جاکر بخار میں تپتے جسم کے ساتھ بھی بنا کچھے کہے زبان تک ہلاٸے ایک ٹانگ پر کھڑی رہتی ہے وہ جو زرا سی چوٹ پر گھر والوں کے سامنے رو رو کر اپنا حال برا کر لیتی ہے وہ سسرال میں بڑی سے بڑی چوٹ برداشت کرتی ہے اور ایک آہ تک نہیں نکلنے دیتی کیوں؟ کیوں کہ اسے پتا ہوتا ہے ماں باپ کے گھر بات صرف گھر میں رہے گی ماں، باپ، بہن، بھاٸی کسی دوسرے کے سامنے اس کی غلطیوں کا زکر نہیں کرے گے بلکہ بات ہونے پر بات ہنس کر سنبھال لیں گے مگر سسرال میں کوٸی نہ کوٸی ایسا ضرور ہو سکتا ہے جو اس کی زرا سی غلطی کو گناہ بنانے اور پھر اس ناکردہ گناہ کو زمانے کے سامنے لاکر اس کے گھر والوں کو زلیل کرنے میں دیر نہیں کرے گا اور پھر بات صرف اس تک نہیں رہے گی ناصرف اس بات پر اس کے والدین پر باتيں ہوگی ساتھ ان کی دی تربیت کو بھی نشانہ بنایا جاٸے گا .

بات سمجھنے کی ہے بیٹیاں لاکھ نادان صحیح لیکن دوسری جگہ جاکر وہ بہت سمجھدار ہوجاتی ہیں جب بیٹی کا نکاح ہوتا ہے حق دار بدلتے ہیں وہ تب ہی سمجھدار ہو جاتی ہیں کیوں کہ انہیں اپنے والدین کی تربيت کی عزت کا اندازہ ہوتا ہے اپنی بیٹیوں کو وقت سے پہلے قید نہ کریں کیوں کہ آپ انہیں اپنے پاس زندگی بھر کے لیے نہ رکھ سکتے ہیں نہ ان کی قسمت کا رخ موڑ سکتے ہیں جب تک وہ آپ کے پاس ہیں انہیں جینے دیں ہنسے دیں کھل کر سانس لینے دیں کیوں کہ آپ ان کے نصیب سے ناواقف ہیں کوشش کریں آپ کی بیٹی/بہن جب تک آپ کے ساٸے میں ہے دل سے مسکراتی رہے زندگی سکون سے گزارے ناکہ اذیت سے، نہ اپنی بیٹیوں کی زندگی مشکل کریں اور نہ دوسروں کی بیٹیوں پر طنز کریں