پرائیویٹ سکول مافیا

مہوش عنایت
ہارون آباد

مافیا اصلاً انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی خطرناک مجرموں کی بین الاقوامی تنظیم کے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے بارے میں مافیا جیسے لفظ کا لکھا یا بولا جانا نہایت افسوس ناک ہے۔ مگر اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ آج وطنِ عزیز میں نجی تعلیمی ادارے اس لفظ کی عملی تصویر کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ احقر محکمہ تعلیم میں بطور ایجوکیشن آفیسر خدمات انجام دینے پر مامور رہا ہے۔ چونکہ یہ عہدہ انتظامی باڈی کی کڑی ہے لہذا متنوع اقسام کی معلومات کے حصول کے سلسلے میں بارہا کئی یک نجی ادارہ جات کے ساتھ رابطہ کرنا پرتا رہا۔

یکساں تعلیمی نصاب اور تدریسِ ناظرہ قرآن کی بابت محکمانہ ہدایات پر عمل درآمد کی جانچ اور پڑتال کے سلسلے میں نجی اداروں میں دورے بھی کیے گئے۔ زیادہ تللر اداروں کا داخلی نظام گنجلک اور مبہم ہے۔طلبا سے بھاری بھر کم رقوم فیس کی مد میں وصول کرنے کے ساتھ سٹیشنری کا سامان بھی ادارے سے خریدے جانے کی شرط سمجھ سے باہر ہے۔ علاوہ ازیں نجی تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے اساتذہ و دیگر عملہ کی انفرادی اجرت بھی ادارے کی آمدن کے تناسب سے کہیں کم ہوتی ہے۔ پرائیویٹ سکول میں طلبہ کو پڑھانے سے رٹا ماسٹر بنانے پر توجہ دی جاتی ہے۔ ان تمام پہلوؤں کے حوالے سے تو ہم اکثر شکایات سنتے رہتے ہیں، یہاں میں اپنے ذاتی تجربے کا ذکر کروں تو نجی سکول مالکان کا رویہ نہایت گستاخانہ اور کھردرا پایا۔

میری رائے کے مطابق اپنے مبہم اور غیر شفاف نظام پر پردہ ڈالنے کی خاطر پرائیویٹ سکولوں کے مالکان و عملہ محکمانہ وزیٹرز کے ساتھ ترش روی اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ کیونکہ ماضی میں جب افسرِ. شاہی محض ایک فون کال کے ذریعے انفارمیشن اور ڈاک کا مطالبہ کرتے تب یہی ادارے مطلوبہ معلومات بمع “چائے پانی” دفاتر تک بخوبی پہنچاتے رہے ہیں۔ در حقیقت نجی اداروں کے مالکان اس مافیا کے پسِ پردہ پست پناہی اور شے کی بنا پر حکومتی نمائندوں کے ساتھ رکھائی کا مظاہرہ کرتے ہیں تاکہ گورنمنٹ کی دخل اندازی محدود رہے اور یہ ادارے اپنے مشن کو بلا مزاحمت جاری رکھ سکیں۔

یہاں سب سے زیادہ پریشان کُن پہلو یہ ہے کہ جن اداروں کا موٹو میں تعلیم سے زیادہ تجارت پر فوکس کرنا ہے وہاں کے فارغ التحصیل طلبا و طالبات میں ہم روحانیت کا عنصر کیا ڈھونڈیں گے؟ جو تاجر خود اخلاقیات سے محروم ہیں وہ اپنے زیرِ نگرانی طلبا کو خاک اخلاقی اقدار سکھائیں گے؟

تھوڑا نہیں بہت سا سوچیں!
شکریہ، والسلام۔

نوٹ : ادارے کا کالم نویس کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔