مہنگی ترین آگ: حذر اے چیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں۔ پروفیسر عبد الواحد سجاد

جنگل کی آگ وہ قدرتی آفت ہے جس کے نقصانات کم کیے جا سکتے ہیں مگر اسے مکمل طورپر روکا نہیں جا سکتا۔ اس کا سبب بڑھتا ہوا درجۂ حرارت ہے۔ خشک نباتات تیزی سے آگ پکڑتیں اور نمی سے خالی تیز ہوائیں اسے پھیلنے کے بھرپور مواقع فراہم کرتی ہیں۔ لاس اینجلس آگ کی تباہ کن قدرتی آفت میں گھرا ہوا ہے جو اس وقت 160 مربع کلو میٹر تک پھیل چکی ہے جس میں سے 40 کلو میٹر گنجان شہری علاقہ ہے۔ آگ پھیلتے ہی لوٹ مار شروع ہوگئی جس کی وجہ سے کرفیو لگانا پڑا۔ آگ پر قابو پانے کیلئے ہزاروں نیشنل گارڈ اور جیلوں کے قیدی بھی کم پڑ گئے، ہزاروں مکانات جل چکے ہیں۔ آگ کے شعلوں نے اسکولوں، اسپتالوں، گرجا گھروں، عبادت گاہوں، لائبریریوں، بازاروں، ریستورانوں، بینکوں، شاپنگ پلازوں اور امیر ترین رہائشی علاقوں کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ کار پارکنگز میں جلی ہوئی کاریں جگہ جگہ دکھائی دیتی ہیں۔ دو لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہو چکے اور اتنے مزید بے گھر ہونے کا امکان ہے۔ 190کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں سے ابھی تک 160ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا۔ صرف پولیس، فائر بریگیڈ گاڑیوں کے سائرن اور اڑتے ہیلی کاپٹروں کا شور سنائی دیتا ہے۔ لوگ اپنے بچوں اور پالتو جانوروں کے ساتھ سڑکوں پر حیران کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ہالی ووڈ کی مشہور ایکٹرس لیٹن میسٹر، معروف موسیقارایڈم بروڈی اور معروف بزنس وویمن پیرس ہلٹن کی حسین ترین رہائش گاہیں اور ارب پتی شخصیات کے محلات راکھ کا ڈھیر بن چکے ہیں۔
لاس اینجلس کیلی فورنیا کا اہم ترین امریکا کا دوسرا بڑا شہر ہے، جو فلمی صنعت ہالی ووڈ(Hollywood) کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ امریکی سینما کے زیادہ تر فلم اسٹوڈیوز یہیں ہیں ۔یہ صرف امریکا نہیں، بلکہ مغرب کی سب سے بڑی فلم نگری ہے۔ فلمی ستاروں کے قیمتی اور پرتعیش گھروں سمیت امریکا کی مہنگی ترین جائیدادیں بھی یہیں ہیں۔ کیلی فورنیا، امریکا کی امیر ترین ریاست ہے، جس کی مجموعی ریاستی پیداوار $4 (GSP) ٹریلین سے زیادہ۔ اس کی معیشت سعودی عرب: 1.068 ٹریلین ڈالر۔ ترکی: 1.108 ٹریلین ڈالر۔ متحدہ عرب امارات: 0.6 ٹریلین ڈالر۔ ایران: 0.4 ٹریلین ڈالر سے بڑی ہے۔ یہ رقبے کے لحاظ سے امریکا کی تیسری بڑی ریاست بھی ہے، جیسے بلوچستان ہمارا سب سے بڑا صوبہ ہے۔
کیلی فورنیا کا ایک اہم حصہ غیر آباد یا کم آبادی والا ہے، بنیادی طور پر وسیع صحراوں، پہاڑوں، جنگلات اور محفوظ قدرتی علاقوں کی وجہ سے اس کی آبادی خاصی کم ہے۔ کیلی فورنیا کی 95 فیصد آبادی اس کی صرف 5فیصد زمین پر رہتی ہے۔ ”اکیو ویدر” کے چیف ماہر موسمیات جوناتھن بورٹر نے اس تباہی کو جدید دور کی مہنگی ترین آگ کی آفات میں سے ایک قرار دیا ہے۔ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 11 تک پہنچ گئی ہے، تاہم حکام ہلاکتوں کی صحیح تعداد بتانے سے گریزاں ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ آگ بجلی کے شارٹ سرکٹ سے لگی۔ اس کے اثرات فوری معاشی نقصانات تک محدود نہیں بلکہ صحت عامہ اور سیاحت پر بھی طویل المدتی اثرات مرتب ہوں گے۔
حذر اے چیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
امریکا میں جنگل کی آگ کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ اس سے قبل 1878کی مشی گن کی آگ مہلک ترین سمجھی جاتی تھی۔ 1836میں نیویارک بھی راکھ کا ڈھیر بنا تھا۔ 1933میں لاس اینجلس کی آگ میں 29فائر فائٹر ہلاک ہوئے تھے۔ کیلی فورنیا میں 2007کی آگ نے تقریباً 10لاکھ ایکٹر رقبے کو جلا دیا تھا۔
لاس اینجلس کی آگ نے دنیا کو ایک بار پھر یاد دلایا کہ قدرت کی طاقت کے سامنے انسان بے بس ہے۔ ماحولیاتی سائنسدان ڈاکٹر جیمز کارٹر اور دیگر ماہرین کے مطابق یہ آگ انسانی غفلت، بدلتے ماحولیاتی حالات اور قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ اس موسم میں آگ لگنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ آگ بجھانے والے ایک ماہر کا کہنا تھا کہ ”آگ کی شدت اور رفتار نے انہیں حیرت میں ڈال دیا۔ یہ آگ عام جنگلاتی آگ سے کہیں زیادہ شدید تھی، جیسے کسی نے قدرت کو ناراض کر دیا ہو۔” جیمز ووڈ (James Woods) مشہور ہالی ووڈ اداکار ہیں وہ دو مرتبہ آسکر ایوارڈ کیلئے نامزد اور تین مرتبہ ایمی ایوارڈز اپنے نام کر چکے ہیں۔ کچھ دنوں پہلے جیمز ‘سی این این’ پر انٹرویو دیتے ہوئے رو پڑے ان کا یہ کلپ کافی وائرل ہوا۔ 7 اکتوبر 2023کو اسرائیل نے غزہ پر انسانی تاریخ کا بد ترین حملہ کیا۔ ہزاروں لوگ مارے گئے، لاکھوں بے گھر ہو کر نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ ان مظالم پر پتھر دل انسان بھی پسیج گئے جبکہ جیمز ووڈ جیسے لوگ انجوائے کر رہے تھے۔ جیمز نے ٹویٹر پر ایک تصویر شیئر کی جس میں غزہ کی ایک خاتون اپنے تباہ شدہ مکان کے ملبے پر بیٹھ کر اپنے خاندان اور گھر کی تباہی کا ماتم کر رہی تھی۔ جیمز ووڈ نے اس پر اسرائیل کی تعریف کرتے ہوئے Good Job اور ایک دوسری پوسٹ میں لکھا کہ:
” غزہ میں کسی کو بھی معاف نہ کیا جائے، بچوں اور عورتوں سمیت سبھی کو مار دینا چاہیے۔ ”
جیمز ووڈ کے رونے کی وجہ کیلی فورنیا کا رہائشی ہونا ہے۔ 7جنوری 2025کو کیلی فورنیا کے جنگلات میں بھڑکتی آگ میں جلنے والا ایک عالی شان گھر جیمز ووڈ کا تھا۔ نقل مکانی کرنے والے لاکھوں لوگوں میں وہ بھی شامل ہیں۔ جیمز بھی اس عورت جیسی تباہی اور بے بسی کا شکار ہوئے جس کی تصویر کا مذاق جیمز نے اڑایا اور دل کھول کر ہنسے تھے۔
گناہ زندہ دلی کہیے یا دل آزاری
کسی پہ ہنس لیے اتنا کہ پھر ہنسا نہ گیا
جیمز کی ‘سی این این’ پر آنسو بہاتے ہوئے بے بسی عبرت کا نمونہ بن گئی۔
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
ہنسی میں وعدہ فردا کو ٹالنے والو
لو دیکھ لو وہی کل آج بن کے آ نہ گیا
قرآن نے یہ حقیقت تلک الایام نداولہا بین الناس (یہ دن لوگوں میں ادلتے بدلتے رہتے ہیں) کہہ کر بیان کی۔ یعنی اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ جب یہ برستی ہے تو ظالموں کو چھپنے کی جگہ نہیں ملتی۔ پچھلے ادوار کی تاریخ کے اوراق پلٹیں تو چشم فلک نے عبرت کا سامان بننے والے مناظر بار بار دیکھے جب انسان چند روزہ اقتدار کے نشے میں بدمست رعونت کے رتھ پر سوار خود خالقِ حقیقی سے الجھا تو عبرت کا نشان بن گیا۔
زمیں پر آ گرے جب آسماں سے خواب میرے
زمیں نے پوچھا کیا بننے کی کوشش کر رہے تھے
ولیم شیکسپیئر نے کہا تھا: اپنے دشمن کے لیے اتنی آگ نہ بھڑکا کہ خود جھلس جا۔ گویا!
آ جاؤ گے حالات کی زد میں جو کسی دن
ہو جائے گا معلوم خدا ہے کہ نہیں ہے
لاس اینجلس کی آگ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہم اللہ کی طرف رجوع کریں، اس کی ناراضی سے بچیں اور مظلوموں کی بے بسی کا مذاق نہ اڑائیں کیونکہ اللہ کا فرمان ہے ان بطش ربک لشدید (بے شک تیرے پروردگار کی پکڑ بڑی سخت ہے۔)
نہ جا اس کے تحمل پر کہ بے ڈھب ہے گرفت اس کی
ڈر اس کی دیر گیری سے کہ ہے سخت انتقام اس کا
عمومی طور پر آج ہمارا رویہ احمد فراز کے اس شعر کے مصداق ہے۔
آگ تو لگی ہے میرے گھر میں بچا ہی کیا ہے فراز
میں نے کہا میں بچ گیا ہوں اس نے کہا پھر جلا ہی کیا ہے